محسن وقار علی
محفلین
السٹریشن — خدا بخش ابڑو
پچھلے کئ سالوں سے پاکستانی میڈیا کو بہت آزاد خیال اور سرگرم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ کافی حد تک سچ ہےکہ میڈیا بہت ہی طاۡقتور ہوچکا ہے۔ اس بات کا کریڈیٹ میڈیا کو ہی جاتا ہےکہ آج کا بچہ بھی اپنے ارد گرد کے حالات اور واقعات سے کافی حد تک واقف ہے۔ لیکن یہاں میڈیا کی آزادی اور اس کے اثرات موضوع فکر نہیں۔
جیسا کہ آج کل نیوز چینلز کی بھرمار ہے اس ہی طرح پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے بھی کافی ترقی کی ہے۔ ڈراموں کی پروڈکشن، کاسٹ، اور اسکرپٹ میں تبدیلیاں آئی ہیں جس کا ثبوت شائقین کے بڑھتے ہوئے رجحان سے دیکھا جاسکتا ہے۔
کہانیوں میں جہاں تھوڑی بہت تبدیلیاں آئی ہیں وہاں ایک بات جو کھٹکتی ہے وہ ہےعورتوں کا معاشرے میں کردار،ان کی عادات و اطوار اور ان کی زندگیوں کا مقصد۔ ہمیشہ سے یہی دکھایا جاتا رہا ہے کہ لڑکیوں کو بچپن سے ہی ذہن نشین کرادیا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے گھر جانا ہے جس کے لئے ان کو تیاری ہر ممکنہ طریقے سے ابھی سے کرنی ہے۔
جب بھی کسی لڑکی کو زمانے کے میعار سے ہٹ کر دکھایا گیا اس کے ساتھ ہمیشہ منفی یا برا انجام ہی دکھایا گیا ہے۔ یہ بات کافی حد تک صحیح ہے کہ ہمارا معاشرا اتنا آزاد خیال نہیں ہے اور اس بات کی تو تاریخ بھی گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی الگ ہونے کی جرات کی اسے دھتکارا ہی گیا ہے۔
اس بات کو اگر عورتوں کے نظریے سے دیکھتے ہوئے اپنے معاشرے پر رکھا جائے تو شاید اس ہی امرکی ضرورت ہے کہ نئے خیالات کوعملی طور پر دکھا کر نئ مثالیں قائم کی جائیں۔
دوسری نہ ہضم ہونے والی مثال عورت کو عورت کا دشمن ثابت کرنا ہے۔ ڈراموں میں یہ ہی تاثردیا جاتا ہے کہ ایک عورت ہی دوسری عورت کے لئے مسائل کا باعث بنتی ہے چاہے وہ شادی کے معاملات ہوں یا عام زندگی.
ڈراموں کے مطابق، شاید ایک عورت کو حسد کرنے کے علاوہ کوئی غرض نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے نکل کر کچھ اور نہیں سوچ پاتی۔
کافی عرصے سے ہمارے ڈراموں کی کہانیاں گھریلو زندگی کے مسائل اور خود پیدا کردہ فسادات کے ارد گرد ہی گھومتی ہیں۔ ساس بہو کے جھگڑے جو کہ شاید برصغیر کا پسندیدہ موضوع ہے اور شادی بیاہ سے پہلے اور بعد کی زندگیاں، بس ہماری سوچ یہیں آکر رک جاتی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ سالوں سے جو ایک مختلف تبدیلی دیکھنے کو آئی ہے وہ ہے مشہور ناول نگاروں کے ناولوں پر مبنی کہانیاں۔ اس حوالے سے عصمت چغتائی، رضیہ بٹ نمایاں نام رکھتی ہیں۔ ان کہانیوں کو آج کے وقت کے مطابق بنانے کے لئے کہانی کی اسکرپٹ میں بہت تبدیلیاں اور موجودہ زمانے کے عناصر شامل کئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ دیکھنے والے آج کل کے شائقین ہیں ان کی توجہ کے لئے یہ سب کرنا کافی حد تک جائز ہے۔ لیکن تعلقات اور واقعات کو اس شدت یا بالکل الگ نوعیت سے دکھا کر نہ تو ہم اس ناول کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں اورنہ ہی کچھ نیا اور تعمیراتی لے کر آرہے ہیں۔
اس بات کا قطعی یہ مقصد نہیں ہے کہ کچھ بھی اچھا نہیں دکھایا جارہا۔ کچھ کہانیاں واقعی بہت متاثر کرتی ہیں بالخصوص وہ جو سچی اورحقیقت پرمبنی ہوتی ہیں اور جن کے کرداروں میں واقعی ظاہری خوبصورتی کےعلاوہ جان ہوتی ہے۔
یہاں اس بات کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا بلخصوص ڈرامے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔ پریشان کن بات یہاں یہ ہے کہ ساری دنیا عکاسی اور حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لئے رواں دواں ہے، اصلاح کی زمہ داری کوئی نہیں لینا چاہتا۔
معاشرے کی ان ساری حقیقتوں کو مثبت انداز میں بھی تو دکھایا جاسکتا ہے۔ عورتوں کوایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے بجائے اگر ایک دوسرے کی حامی اورحوصلہ افزائی کرتے ہوئے دکھایا جائے تو کیا اس کا اچھا اثر لوگوں پر نہیں پڑے گا؟ ان کو ہمیشہ ایک ہی مقصد کے حصول کے لئے دکھا کر کیا معاشرے کو آگے بڑھنے سے نہیں روکا جارہا؟
پاکستانیوں کو بحیثیت قوم اس وقت اچھے رول ماڈلز کی ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر اگر ان ڈراموں کی اتنی ویورشپ ہے اور عورتوں کی آبادی مردوں سے زیادہ ہے تو اچھے کردار دکھا کر کیا ہم معاشرے کو سدھارنے میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے؟
میڈیا تیزی سے ہم پراثرانداز ہوتا ہے کیوں کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ آنکھوں دیکھے حال پر ہمیں زیادہ جلدی یقین آجاتا ہے۔ جب منفی اور پرتشدد تصاویر اور رپورٹیں ہمارے ٹیلی ویژن کی زینت بن کر ہم پر اثر کرتی ہیں تو پھر ڈراموں میں مثبت کرداروں کے ممکنہ اچھے نتائج کو بھی ضائع نہیں ہونےدینا چاہئے.
آج کل الیکشن کی تیاریاں اپنےعروج پر ہیں۔ تبدیلی کے نعرے بلند ہیں اور فضا میں بہت شوروغل ہے۔ تبدیلی ٹاپ آرڈر میں تو درکار ہے ہی لیکن اگر اس کو معاشرے تک پھیلانا ہے تو ہمیں اس کو ہر اس میڈیم میں متعارف کرنا ہوگا جہاں لوگوں کی براہ راست رسائی موجود ہے اورجو سب سے زیادہ شوق اور دلچسپی کا مرکز بھی ہے۔
ایسے میں ڈرامے یقیناً ہمیشہ سے کردارادا کرتے آرہے ہیں اوراب ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے خیالات اورمثالیں قائم کرکے پرانی، بے بنیاد روایتوں سے باہرنکلا جاسکے اورعقلی طورسے آگے بڑھا جاسکے۔
تحریر: ہانیہ جاوید
بہ شکریہ ڈان اردو