امکانات
محفلین
ڈرون :امریکا کا آخری ہتھیار؟
تحریر : :زبیر احمد ظہیر
کیا چیف جسٹس کی بحالی کو امریکانے قبول نہیں کیا؟ یہ بڑا الجھا ہوا سوال ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی کا امریکا سے کوئی تعلق نہیں یہ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے عام طور پر کسی ملک کے داخلی معاملات سے دوسرے ممالک دوررہتے ہیں اورسفارتی آداب میں ملک کی خود مختاری کا خیال رکھا جاتا ہے، ان ہی عالمی سفارتی آداب کے تحت امریکا نے چیف جسٹس کی بحالی کا برملا برا بھی نہیں منایا۔
رہی بات تحفظات کی اگر امریکی دفترخارجہ نے رسمی طورپر برا منایا بھی ہو تو تحفظات کے اظہار کو کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیاجاتا ہے لہذااگر امریکا کے چیف جسٹس کی بحالی پر تحفظات رہے ہوں تو رہے ہونگے ان تحفظات کو مداخلت تو نہیں کہا جاسکتا۔
امریکا نے اگرچیف جسٹس کی بحالی پر بُرا منایا بھی تو اس کا اظہار سفارتی زبان میں ڈھکے چھپے لفظوں میں کیا ہوگا اور ایسا دنیا بھر کی سفارت کاری میں ہوتا رہتا ہے ملکوں کے مفادات میں اتنی نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ اس نوک جھونک کو مداخلت کوئی نہیں کہتا ہے۔ اس تمہیدسے یہ تسلیم کرتے بنے گی کہ چیف جسٹس کی بحالی پر امریکا کے تحفظات ضرور رہے ہوں گے مگر امریکا نے چیف جسٹس کی بحالی کو تسلیم کر لیا ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں میں اچانک تیزی کیوں شروع کر دی ہے اور اس کے ساتھ ہی اوباما نے پاک ،افغان نئی پالیسی کا اعلان کیوں کیا؟ خاص طور پر جب چیف جسٹس کو بحال ہوئے محض چند دن گزرے تھے ۔چیف جسٹس کی بحالی کی خبروں کے بعد ہی ڈرون حملوں میں شدت ،پاکستان اور افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان یہ دو بڑے اقدامات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈرون حملے تو پہلے سے جاری ہیں، عین ممکن ہے امریکا نے پاکستان کے سیاسی بحران کے پیش نظر چند دن کا وقفہ لیا ہو۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ اوباما انتظامیہ نئی نئی ہے اور اسے نئی پالیسی تک پہنچنے او رمنصوبہ بندی کرنے میں اتنے دن لگ گئے ہوں کہ یہ سب کچھ جو عجلت میں کیا جانا دکھلائی دے رہا ہے ۔
ہوا تو معمول کے مطابق مگر دکھائی ایسا دیاکہ یہ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد امریکا کواچانک کرنا پڑ گیا ہے اگر یہ اتفاق نہیں اور بدلتی ہوئی صورتحال کے تحت امریکا کی نئی حکمت عملی ہے تو اس معاملے کو چیف جسٹس کی بحالی سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔اس نقطہ نظر کوثابت کرنا چنداں مشکل نہیں ۔دلائل کا انبار موجود ہے جو اس نقطہ نظر کو ثابت کر سکتا ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی کے متعلق مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان ریکارڈپر موجود ہے جس میں انہوں نے صدر آصف علی زرداری کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی پر وہ ہی قوتیں رکاوٹ ہیں جنہوں نے صدر مشرف کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔پاکستان کے سیاسی نظام سے آگاہی رکھنے والاکوئی ادنی شخص بھی اس قوت سے ناواقف نہیں۔ یہ قوت اس کے علاوہ اورکون ہوسکتی ہے جس نے اپنی جنگ کیلئے پاکستان کی ایک لاکھ 20 ہزار فوج کوسب سے طویل سرحد پر لگا رکھاہے اور اسے جنگ سے واپس آنے نہیں دے رہی ۔
چیف جسٹس کی بحالی بزوربازو ہوئی ، یہ امریکا کے دباؤ یا صدر زرداری کی رضا مندی سے ہر گز نہیں ہوئی بلکہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر ہوئی ہے جسے حکومت اور امریکا نے بادل ناخواستہ قبول کیا ہے چونکہ چیف جسٹس کی بحالی سے زمینی حقائق یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور امریکا کے لئے وہ آسانیاں نہیں رہیں جو پہلے تھیں۔
صدر مشرف اور چیف جسٹس میں سب سے زیادہ بگاڑ جس اقدام نے پیدا کیا تھا وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا جس نے امریکا کی طنابیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔ اس کے علاوہ دوسرا بڑا چیف جسٹس کا کوئی جرم ایسانہ تھا جسے مشرف ہضم نہ کرسکتے۔ باقی جو کچھ چیف جسٹس نے کیا صدر مشرف وہ سب بھول سکتے تھے۔ یہ بات صدر مشرف سے اس لئے ہضم نہ ہوئی کہ لاپتہ افراد کا معاملہ امریکا کی گردن میں اٹک گیاتھا لہٰذا صدر مشرف نے امریکی آشیرباد پر چیف جسٹس کو معزول کردیا۔
چیف جسٹس کی بحالی سے ان تمام خدشات نے جن کی وجہ سے ان کی معزولی عمل میں آئی ایک بار پھرسے سراٹھانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے اب امریکا کو دکھائی دے رہا ہے کہ چیف جسٹس لاکھ یقین دہانیاں کروائیں انہوں نے اس عوامی دباؤ پر جس کے تحت‘ بحال ہوئے ہیں لازمی طو رپر لاپتہ افراد کے معاملے کوایک نہ ایک دن اٹھانا ہے جب یہ سلسلہ اٹھے گا تو امریکا کو خطرہ ہے اس مسئلہ کے اٹھنے سے اس کی دہشت گردی کیخلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے ۔جس کی بنا پر اس کا القاعدہ کے خلاف برسوں سے بچھایاہواجال بے کا رہو کر رہ جائے گا اور دہشت گردی کیخلاف جو جنگ ناکامی کے گڑھے کے کنارے پر آکر رکی ہوئی ہے دھڑام سے ناکامی کے گڑھے میں جا گر ئے گی ۔
اس ناکامی سے بچنے کیلئے امریکا کے پاس اس جنگ کو جاری رکھنے کیلئے صرف ایک ہی ہتھیارباقی بچتا ہے کہ بجائے ان عسکریت پسندوں کو زندہ گرفتار کرنے کہ جنہیں بھاری اخراجات کے بعد گرفتارکیاجائے اور کل پھر انہیں چھوڑ نا پڑے اس طویل دقت طلب کام سے بچنے کیلئے ایک ہی راستہ رہ جاتاہے ۔پاکستان میں اپنی جاسوسی کے بچھائے ہوئے جال کی مدد سے ان کا سراغ لگا کر ڈرون حملوں میں انہیں مار دیا جائے۔ اسی واحد کارآمد ہتھیار کو امریکا نے اپنی نئی پالیسی کی بنیاد بنا لیا ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس کی بحالی کے بعد اچانک امریکا کے ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہے۔
اگر چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ڈرون حملوں میں آنے والی تیزی اور امریکا کی نئی پالیسی اتفاق نہیں بلکہ بدلتے ہوئے زمینی حقائق کی بنیاد پر بننے والی نئی حکمت عملی کا نتیجہ ہے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا نے اب اپنی ساری جنگ کا انحصار ڈرون حملوں پر کر دیا ہے لہذا اب ڈرون حملوں کے بندہونے کی امید دم توڑ گئی ہے تب یہ بھی سچ ہوگا کہ امریکا نے چیف جسٹس کی بحالی قبول نہیں کی
تحریر : :زبیر احمد ظہیر
کیا چیف جسٹس کی بحالی کو امریکانے قبول نہیں کیا؟ یہ بڑا الجھا ہوا سوال ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی کا امریکا سے کوئی تعلق نہیں یہ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے عام طور پر کسی ملک کے داخلی معاملات سے دوسرے ممالک دوررہتے ہیں اورسفارتی آداب میں ملک کی خود مختاری کا خیال رکھا جاتا ہے، ان ہی عالمی سفارتی آداب کے تحت امریکا نے چیف جسٹس کی بحالی کا برملا برا بھی نہیں منایا۔
رہی بات تحفظات کی اگر امریکی دفترخارجہ نے رسمی طورپر برا منایا بھی ہو تو تحفظات کے اظہار کو کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیاجاتا ہے لہذااگر امریکا کے چیف جسٹس کی بحالی پر تحفظات رہے ہوں تو رہے ہونگے ان تحفظات کو مداخلت تو نہیں کہا جاسکتا۔
امریکا نے اگرچیف جسٹس کی بحالی پر بُرا منایا بھی تو اس کا اظہار سفارتی زبان میں ڈھکے چھپے لفظوں میں کیا ہوگا اور ایسا دنیا بھر کی سفارت کاری میں ہوتا رہتا ہے ملکوں کے مفادات میں اتنی نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔ اس نوک جھونک کو مداخلت کوئی نہیں کہتا ہے۔ اس تمہیدسے یہ تسلیم کرتے بنے گی کہ چیف جسٹس کی بحالی پر امریکا کے تحفظات ضرور رہے ہوں گے مگر امریکا نے چیف جسٹس کی بحالی کو تسلیم کر لیا ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ امریکا نے ڈرون حملوں میں اچانک تیزی کیوں شروع کر دی ہے اور اس کے ساتھ ہی اوباما نے پاک ،افغان نئی پالیسی کا اعلان کیوں کیا؟ خاص طور پر جب چیف جسٹس کو بحال ہوئے محض چند دن گزرے تھے ۔چیف جسٹس کی بحالی کی خبروں کے بعد ہی ڈرون حملوں میں شدت ،پاکستان اور افغانستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان یہ دو بڑے اقدامات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
کہنے کو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈرون حملے تو پہلے سے جاری ہیں، عین ممکن ہے امریکا نے پاکستان کے سیاسی بحران کے پیش نظر چند دن کا وقفہ لیا ہو۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ اوباما انتظامیہ نئی نئی ہے اور اسے نئی پالیسی تک پہنچنے او رمنصوبہ بندی کرنے میں اتنے دن لگ گئے ہوں کہ یہ سب کچھ جو عجلت میں کیا جانا دکھلائی دے رہا ہے ۔
ہوا تو معمول کے مطابق مگر دکھائی ایسا دیاکہ یہ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد امریکا کواچانک کرنا پڑ گیا ہے اگر یہ اتفاق نہیں اور بدلتی ہوئی صورتحال کے تحت امریکا کی نئی حکمت عملی ہے تو اس معاملے کو چیف جسٹس کی بحالی سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔اس نقطہ نظر کوثابت کرنا چنداں مشکل نہیں ۔دلائل کا انبار موجود ہے جو اس نقطہ نظر کو ثابت کر سکتا ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ چیف جسٹس کی بحالی کے متعلق مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان ریکارڈپر موجود ہے جس میں انہوں نے صدر آصف علی زرداری کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ چیف جسٹس کی بحالی پر وہ ہی قوتیں رکاوٹ ہیں جنہوں نے صدر مشرف کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔پاکستان کے سیاسی نظام سے آگاہی رکھنے والاکوئی ادنی شخص بھی اس قوت سے ناواقف نہیں۔ یہ قوت اس کے علاوہ اورکون ہوسکتی ہے جس نے اپنی جنگ کیلئے پاکستان کی ایک لاکھ 20 ہزار فوج کوسب سے طویل سرحد پر لگا رکھاہے اور اسے جنگ سے واپس آنے نہیں دے رہی ۔
چیف جسٹس کی بحالی بزوربازو ہوئی ، یہ امریکا کے دباؤ یا صدر زرداری کی رضا مندی سے ہر گز نہیں ہوئی بلکہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر ہوئی ہے جسے حکومت اور امریکا نے بادل ناخواستہ قبول کیا ہے چونکہ چیف جسٹس کی بحالی سے زمینی حقائق یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور امریکا کے لئے وہ آسانیاں نہیں رہیں جو پہلے تھیں۔
صدر مشرف اور چیف جسٹس میں سب سے زیادہ بگاڑ جس اقدام نے پیدا کیا تھا وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا تھا جس نے امریکا کی طنابیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔ اس کے علاوہ دوسرا بڑا چیف جسٹس کا کوئی جرم ایسانہ تھا جسے مشرف ہضم نہ کرسکتے۔ باقی جو کچھ چیف جسٹس نے کیا صدر مشرف وہ سب بھول سکتے تھے۔ یہ بات صدر مشرف سے اس لئے ہضم نہ ہوئی کہ لاپتہ افراد کا معاملہ امریکا کی گردن میں اٹک گیاتھا لہٰذا صدر مشرف نے امریکی آشیرباد پر چیف جسٹس کو معزول کردیا۔
چیف جسٹس کی بحالی سے ان تمام خدشات نے جن کی وجہ سے ان کی معزولی عمل میں آئی ایک بار پھرسے سراٹھانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے اب امریکا کو دکھائی دے رہا ہے کہ چیف جسٹس لاکھ یقین دہانیاں کروائیں انہوں نے اس عوامی دباؤ پر جس کے تحت‘ بحال ہوئے ہیں لازمی طو رپر لاپتہ افراد کے معاملے کوایک نہ ایک دن اٹھانا ہے جب یہ سلسلہ اٹھے گا تو امریکا کو خطرہ ہے اس مسئلہ کے اٹھنے سے اس کی دہشت گردی کیخلاف جنگ متاثر ہوسکتی ہے ۔جس کی بنا پر اس کا القاعدہ کے خلاف برسوں سے بچھایاہواجال بے کا رہو کر رہ جائے گا اور دہشت گردی کیخلاف جو جنگ ناکامی کے گڑھے کے کنارے پر آکر رکی ہوئی ہے دھڑام سے ناکامی کے گڑھے میں جا گر ئے گی ۔
اس ناکامی سے بچنے کیلئے امریکا کے پاس اس جنگ کو جاری رکھنے کیلئے صرف ایک ہی ہتھیارباقی بچتا ہے کہ بجائے ان عسکریت پسندوں کو زندہ گرفتار کرنے کہ جنہیں بھاری اخراجات کے بعد گرفتارکیاجائے اور کل پھر انہیں چھوڑ نا پڑے اس طویل دقت طلب کام سے بچنے کیلئے ایک ہی راستہ رہ جاتاہے ۔پاکستان میں اپنی جاسوسی کے بچھائے ہوئے جال کی مدد سے ان کا سراغ لگا کر ڈرون حملوں میں انہیں مار دیا جائے۔ اسی واحد کارآمد ہتھیار کو امریکا نے اپنی نئی پالیسی کی بنیاد بنا لیا ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس کی بحالی کے بعد اچانک امریکا کے ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہے۔
اگر چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ڈرون حملوں میں آنے والی تیزی اور امریکا کی نئی پالیسی اتفاق نہیں بلکہ بدلتے ہوئے زمینی حقائق کی بنیاد پر بننے والی نئی حکمت عملی کا نتیجہ ہے تو اسکا مطلب یہ ہوگا کہ امریکا نے اب اپنی ساری جنگ کا انحصار ڈرون حملوں پر کر دیا ہے لہذا اب ڈرون حملوں کے بندہونے کی امید دم توڑ گئی ہے تب یہ بھی سچ ہوگا کہ امریکا نے چیف جسٹس کی بحالی قبول نہیں کی