ڈرپوک چڑیلیں

ڈرپوک چڑیلیں
"میرے ساتھی چار بجے کے قریب رخصت ہو گئے۔ لاش کے قریب ہی ایک اونچا درخت تھا جس پر میرے ساتھی مچان بنا گئے تھے۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کافی دیر انتظار کرنا پڑے گا، کیوں کہ آدم خور شیر اندھیرا ہونے سے پہلے لاش کھانے نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ ہر چیز اندھیرے میں ڈوبتی گئی۔ جنگل بڑا خوف ناک اور بھیانک ہو گیا۔ چاروں طرف موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ میرے سامنے ایک ادھ کھائی ہوئی انسانی لاش پڑی تھی۔"
بلند آواز سے یہ الفاظ پڑھتے ہوئے ہم رک گئے اور لحاف میں گھسی ہوئی کوبی اور مونی کی طرف دیکھا جو تھوڑی دیر پہلے دور دور بیٹھی ہوئی تھیں، مگر اب نزدیک ہو کر ایک دوسرے سے تقریباً لپٹ ہی گئی تھیں۔ ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ خوف صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ یہ دیکھ کر ہم مسکرائے اور آواز کو خوف ناک بناتے ہوئے کہانی دوبارہ پڑھنے لگے۔
"نصف رات گزر گئی۔ تب اچانک میرے رونگٹھے کھڑے ہونے لگے۔ میرے سامنے ایک عجیب و غریب منظر تھا۔ لاش کے سر کی آنکھیں اب تک آسمان کی طرف تھیں مگر اب سر نے ایک دم پہلو بدلا اور اس کی آنکھیں میری طرف ہوگئیں۔ کسی جانور نے اسے چھوا تک نہ تھا۔ خوف سے میرا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔ سر تھوڑا سا اور گھوما اور پھر ایک طرف لُڑھک گیا۔ اب اس کی کھلی ہوئی آنکھیں بڑے خوف ناک انداز سے مجھے گھور رہی تھیں۔ پھر ایک دم وہ تھوڑا سا اپر ہوا اور ہلنے لگا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے وہ مجھے اپنے پاس بلا رہا ہے۔ میری رگوں میں خون جم کر رہ گیا۔"
"اوئی الله!" کوبی اور مونی نے ایک دم چیخ ماری اور بستر پر لیٹ کر پورا لحاف اپنے اوپر کھینچ لیا۔ ہم نے کتاب بند کی اور لحاف ان کے اوپر سے اتارا۔ وہ دونوں بری طرح کانپ رہی تھیں۔
"بس ڈر گئیں! بہت بہادر بنتی تھیں! کہانی تو پوری سن لو۔" ہم نے کتاب دوبارہ کھولتے ہوئے ہنس کر کہا۔
"نن، نہیں بھائی جان! صبح سن لیں گے!" کوبی نے لرزتے ہوئے کہا۔
"ہاں بھائی جان! ٹھیک ہے۔ آپ صبح سنا دیں۔" مونی ہمارا ہاتھ پکڑ کر بولی۔
"لیکن ابھی کیوں نہیں، ابھی کیا ہوا؟" ہم نے پوچھا۔
"دیکھئے نا، ابھی رات زیادہ ہوگئی ہے۔" مونی نے کہا۔
"لو ابھی تو نو ہی بجے ہیں۔" ہم نے گھڑی ان کے سامنے کر دی۔
"بھائی جان! آپ سمجھتے کیوں نہیں، رات ہے اور نیند بھی آ رہی ہے!" کوبی نے مصنوعی جمائی لیتے ہوئے کہا۔
"تو سیدھی طرح کیوں نہیں کہتیں کہ ڈر لگتا ہے۔ ویسے لاش کا سر خود نہیں ہل رہا تھا۔ وہ تو دو چھوٹی چھوٹی چھچھوندریں تھیں جو سر کھینچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔" ہم نے انھیں بتایا۔
"اچھا! تو یہ بات تھی!" مونی اور کوبی نے ایک ساتھ گہرا سانس لیا۔ اب ان کے چہروں پر اطمینان تھا۔
"ہاں بات تو یہ تھی، مگر تم دونوں ڈر گئیں۔ بزدل، ڈرپوک کہیں کی!" ہم نے انہیں کہا۔
یہ سن کر کوبی اچھل کر اٹھی اور بولی، "کیا کہا! ہم بزدل ہیں! واہ جی وا۔ کل جب بجلی چلی گئی تھی تو اوپر والے کمرے سے لالٹین کس نے تلاش کی تھی اندھیرے میں!" اس نے اندھیرے پر کچھ زیادہ ہی زور دے کر کہا۔
"ابھی پرسوں جب سامنے والوں کا بکرا مجھے ٹکّر مارنے دوڑا تو میں اس کو بڑی تیزی سے جھکائی دے کر دروازے کے اندر آ گئی تھی۔" مونی نے بڑے فخر سے بتایا۔
"رہنے دو! اتنی شیخی مت بھگارو!" ہم نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
"اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اور بات ہے، ورنہ ہم کسی سے کم نہیں۔"مونی بولی۔
"ہم نے ہی آپ کے کہنے پر پروفیسر صاحب کے کتے کو جمال گوٹا کھلایا تھا اور سامنے والے سلیم صاحب کی موٹر سائیکل کی ہوا نکالی تھی۔" مونی روانی سے کہتی گئی۔
"اور وہ ہم ہی تھے جو رات کے وقت کلیم صاحب کے ہاں میلاد کی مٹھائی دے کر آئے تھے۔ پتا ہے کلیم صاحب کے پاس جن بھوت ہیں۔" کوبی نے بڑی شان سے کہا۔
"بس بس رہنے دو، کوئی جن ون نہیں ہیں کلیم صاحب کے ہاں۔ انہوں نے ویسے ہی مشہور کر رکھا ہے بچوں کو ڈرانے کے لیے۔ مجھے پتا ہے تم لوگ کتنے پانی میں ہو۔ ابھی تو کہانی سن کر تمہارا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ ڈرپوک کہیں کی۔" ہم نے کہا۔
"اونھ! جیسے آپ بہت بہادر ہیں!" دونوں بڑبڑائیں۔
"اس میں کیا شک ہے۔" ہم نے جواب دیا۔
"دیکھ لیںگے جلد ہی آپ کو۔" مونی نے کہا۔
اکثر رات کو جب کبھی محفل جمتی تو بزدلی اور بہادری کی موضوع پر بحث ضرور چھڑ جاتی۔ ہر کوئی اپنی بہادری کے جھوٹے سچے قصّے سناتا۔ آج رات بھی یہی موضوع شروع ہوا تو سب سے زیادہ مونی اور کوبی شور کر رہی تھیں کہ وہ بہت بہادر ہیں۔ ہم نے ان کو چیلنج کیا کہ وہ ہم سے آدم خور شیر کے شکار کی ایک خوف ناک کہانی بڑے آرام سے بغیر کسی خوف کے سن لیں تو مان جائیں گے۔ یہ کتاب ہم آج ہی خرید کر لائے تھے۔ اس میں ایک مشہور شکاری نے آدم خور شیر کے شکار کی کہانیاں لکھی تھیں۔ ہم کوبی اور مونی کے کمرے میں جا کر ان کو کہانی سنا رہے تھے جس میں خوف ناک منظر دیکھ کر ایک لمحے کو تو شکاری ڈر گیا تھا، مگر بعد میں اس نے آدم خور کو ہلاک کر دیا تھا، لیکن کوبی اور مونی تو کہانی کا یہ خوف ناک حصّہ سن کر ہی ڈر گئیں تھیں اور جب ہم نے انہیں ڈرپوک ہونے کا طعنہ دیا تو وہ دونوں پھٹ پڑیںاور وہی اپنے گھسے پٹے کارنامے سنانے لگیں۔ پتا نہیں لفظ ڈرپوک سے انہیں کیا چڑ تھی۔ آج رات انہوں نے ہمیں بھی چیلنج کر دیا تھا کہ آپ کو بھی دیکھ لیں گے۔ اس لیے ہمیں اب احتیاط کی ضرورت تھی۔
اگلے دن کا ذکر ہے۔ جب ہم اسکول سے واپس آئے تو کوبی اور مونی نظر نہ آئیں حالانکہ ان کی چھٹی پہلے ہو جایا کرتی تھی۔ ہم نے امّی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اسکول سے سہیلی کے ہاں چلی گئی ہیں۔ بوا کے ہاتھوں انہوں نے پیغام بھجوا دیا تھا۔
شام کے وقت وہ آتی نظر آئیں۔ ان کے چہرے گلاب کی طرح کھلے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں کوئی چیز تھی۔ پتا نہیں کیا خزانہ ہاتھ لگا تھا جو اس طرح کھلی جا رہی تھیں۔ دونوں نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گئیں۔ ان کی ہم پر نظر نہیں پڑی۔ ہم بھی ان کے پیچھے دبے پاؤں ان کے کمرے کی طرف گئے اور پھر کھڑکی کا پردہ ذرا کھسکا کر اندر جھانکا۔مونی اور کوبی الماری کی طرف منہ کے کھڑی تھیں۔ دونوں کچھ کھسر پسر کر رہی تھیں۔ پھر کوبی نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا کالے رنگ کا کپڑا کھولا تو ہم نے دیکھا کہ وہ کوئی برقع یا گاؤن تھا۔ کوبی اسے اپنے اوپر لپیٹ کر دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں مونی نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لمبے لمبے دانت اپنے منہ میں لگا لیے اور پھر جلدی سے اتار کر کوبی کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور دونوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگیں۔
ایک لمحے کو تو ہم حیران رہ گئے کہ یہ کیا چکّر ہے؟ مگر دوسرے ہی لمحے ہم سب کچھ سمجھ گئے۔ "ہوں! تو یہ سارا کھیل ہمیں ڈرانے کے لیے ہو رہا ہے۔"
ہم الٹے پاؤں اپنے کمرے کی طرف بھاگے اور سوچنے لگے کہ کس طرح ان کو رنگے ہاتھوں پکڑا جائے۔ آخر ہمیں ایک ترکیب سوجھی۔ ہم جلدی سے اپنے ایک دوست کے پاس گئے۔ ان کے پاس بہت سے خول تھے جن کو چہرے پر لگا کر اگر بڑے سے بڑے بہادر کے سامنے بھی چلے جائیں تو وہ دیکھ کر ڈر جائے۔ ہم نے ان سے خول لیے اور گھر واپس آ گئے۔ اب ہم بےچینی سے رات کا انتظار کرنے لگے۔ ہمیں یقین تھا کہ کوبی اور مونی آج ہمیں ڈرائیں گی۔ رات کو جب سب سو گئے تو ہم نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اپنے کام میں مشغول ہوگئے۔ سب سے پہلے ہم نے بھوت کا ڈراؤنا خول اپنے سر پر چڑھایا۔خول کی شکل انسانی ڈھانچے کی کھوپڑی کی طرح تھی اور اس پر بڑی بڑی خوف ناک آنکھیں باہر ابلی ہوئی تھیں جو سر ہلانے سے ہلتی تھیں۔ منہ میں لمبے لمبے دانت تھے۔ اس کے بعد ہم نے سیاہ رنگ کا ڈھیلا ڈھالا گاؤن پہنا جس میں ہمارے پاؤں بھی چھپ گئے۔ بعد میں ہم نے سیاہ رنگ کے دستانے پہنے۔ پھر ہم نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور بستر میں لحاف اوڑھ کر لیٹ گئے اور انتظار کرنے لگے۔ ہمیں لیٹے ہوئے کافی دیر گزر گئی۔
ہمیں اپنا منصوبہ ناکام ہوتا نظر آنے لگا، مگر تھوڑی دیر بعد ہمیں قدموں کی آہٹ سنائی دی تو ہم نے اطمینان کا سانس لیا۔ برآمدے کا بلب جل اٹھا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پہ دستک ہوئی، مگر ہم چپ چاپ لیٹے رہے۔ تھوڑی دیر گزر گئی پھر چوں چوں کی آواز کے ساتھ دروازہ آہستگی سے کھل گیا۔ ہم دروازے کی طرف پیٹھ کیے لیٹے تھے اور ہمارے سامنے رکھی ہوئی سنگھار میز کے آئینے میں سے پچھلا منظر صاف نظر آ رہا تھا۔ہماری نظر آئینے پر پڑی تو وہاں دو چڑیلیں کھڑی تھیں۔ یہ کوبی اور مونی تھیں جنہوں نے چڑیل کا اتنا زبردست میک اپ کیا تھا کہ ایک لمحے کو ہم کانپ کر رہ گئے۔ لمبے لمبے بال انہوں نے اپنے بازوؤں پر پھیلا رکھے تھے۔ خوف ناک چہرے برآمدے کے بلب کی مدھم روشنی میں اور زیادہ ہیبت ناک دکھائی دے رہے تھے۔ اگر ہم کو پہلے سے معلوم نہ ہوتا تو یقیناً ڈر جاتے۔
"مکالمہ کیا تھا؟" اچانک کوبی نے سرگوشی کی۔
"آدم زاد! تیری موت آگئی ہے۔" مونی نے جواب دیا۔
اب دونوں آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھیں اور پھر کوبی نے لحاف کے اوپر ہی سے ہمیں بری طرح جھنجھوڑ کر اپنی خوف ناک آواز میں کہا، "اٹھ آدم زاد! تیری موت آگئی ہے۔"
پھر ان دونوں نے جھپٹ کر ہمارا لحاف اتار دیا اور بولیں، "آدم زاد! تیری۔۔۔۔"
اسی وقت ہم نے اپنا رخ پلٹا۔ دونوں نے جب اپنے سامنے اپنے سے بھی خوف ناک بلا دیکھی تو وہ بری طرح چیخ اٹھیں اور الٹے قدموں پیچھے بھاگنے کی کوشش کرنے لگیں۔ہم جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور سر ہلا ہلا کر ان کی طرف بڑھنے لگے۔ خوف کی وجہ سے ان کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلیں اور وہ دونو چکرا کر گر پڑیں۔ ہم نے جلدی سے اپنا حلیہ درست کیا اور پھر پانی لینے باہر کو بھاگے۔ دروازے پر ابّا جان سے ٹکراتے ٹکراتے بچے جو چیخ سن کر ادھر آ رہے تھے۔ جب ہم پانی لے کر واپس آئے تو سب گھر والے ہمارےکمرے میں جمع تھے۔ امّی اور آپی نے جلدی سے پانی لے کر ان کے اوپر چھڑکا۔ تھوڑی کوشش کے بعد وہ ہوش میں آ گئیں اور چلا اٹھیں، "ب، بھوت۔۔۔۔۔ بھوت۔۔۔۔ بھو۔۔۔۔ بھوت بچاؤ!"
یہ دیکھ کر ہم ہنسنے لگے۔ ہمیں ہنستا دیکھ کر وہ آنکھیں جھپک جھپک کر ہمیں دیکھنے لگیں اور پھر وہ شاید سب کچھ سمجھ گئیں، کیوں کہ دونوں نے خاموشی سے اپنے سر جھکا لیے تھے۔ ہم کو ہنستا دیکھ کر سب گھورنے لگے تو ہم نے کہا، "یہ دونوں چڑیلیں بن کر ہمیں ڈرانے آئی تھیں، لیکن آئینے میں اپنی شکلیں دیکھ کر خود ہی ڈر گئیں۔" ہم نے بڑی صفائی سے اپنے آپ کو بچا لیا تھا۔
بےچاری مارے شرم کے کچھ بھی نہ کہہ سکیں۔ ابّا جان اور امّی نے دونوں کو ڈانٹا اور کہا کہ آئندہ ایسی شرارتیں نہیں کرنا۔ تھوڑی دیر بعد جب سب وہاں سے چلے گئے تو ہم نے آہستہ سے مونی اور کوبی سے کہا، "ڈرپوک چڑیلیں۔"
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عنوان پڑھ کر مجھے لگا کہ محفل کی خواتین اور لڑکیوں کو کسی نے چڑیلیں کہنے کی جسارت کی ہے ۔ اس لئے فورا چلے آئے یہاں لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں لگ رہا ، اس اب ہم اس کو پڑھ کے بتاتے ہیں ۔
 
عنوان پڑھ کر مجھے لگا کہ محفل کی خواتین اور لڑکیوں کو کسی نے چڑیلیں کہنے کی جسارت کی ہے ۔ اس لئے فورا چلے آئے یہاں لیکن یہاں ایسا کچھ بھی نہیں لگ رہا ، اس اب ہم اس کو پڑھ کے بتاتے ہیں ۔
میں نے تو محفل کی تمام بہنوں کو دعوت دی تھی۔ پر ٹیگنک صحیح سے ہو نہیں پائی۔ :sad:
دعوت خاص مدیر اعلی اور آپ کو تھی۔ گزشتہ روز کسی دھاگہ پر ڈرنے اور ڈرانے والی باتیں پڑھی تھیں میں نے۔:)
 

باباجی

محفلین
میرا خیال ہے کہ ایک ایسا دھاگہ بھی ہو جس میں سب اپنے یا اپنے جاننے والوں کے ذاتی تجربات بیان کریں
لیکن سو فیصد سچے ۔
بڑا مزہ آئے گا
 

شمشاد

لائبریرین
اس کا مطبل آپ بھوت ہیں؟ جبھی آپ اپنی تصویر نہیں لگاتے۔:)
خیر یہ تو ایک مذاق تھا۔ امید کرتا ہوں آپ کی چڑیل جلد محفل کو جوائن کرلیں گی۔
وہ واپس آ گئی ناں، جس کی امید کم ہی ہے، تو بڑے بڑوں کی چھٹی ہو جانی ہے۔
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
خوب!
آپ کو پتا ہے بھیا!
یہ تحریر میں نے بچپن میں پڑھی تھی آنکھ مچولی میں تب بھی مجھے خوب لگی تھی۔۔۔آج اک بار پڑھتے ہوئے بہت اچھا لگا۔۔۔۔شکریہ!
 
Top