ڈنمارک میں نسل پرستی،

غازی عثمان

محفلین
صدر (منتخب) بارک اوباما کے نام ایک کُھلا خط؛ ڈنمارک میں نسل پر ستی کے بارے میں
یاکوب ہولٹ اور رُنے اینگل بریتھ لارسَن کی طرف سے

جنابِ صدر (منتخب)،

ہم ایک اہم پیغام کے لئے آپ کے قیمتی وقت میں سے چند لمحات کے لئے مؤدبانہ درخواست کرتے ھیں ۔
امید پرستی کے جذبے سے اور ایک حقیقی تبدیلی کی توقع کرنے کی ہمت کے ساتھ جوکہ امریکہ میں تاریخی انتخابات کے نتیجے میں پوری دنیا میں جوش میں آ گئی ہے، دنیا کے ہمارے اعلیٰ ترقی یافتہ گوشے ڈنمارک میں کچھ معاملات کی حالت کے متعلق ا مریکن عوام کو مطلع کرنے کے لئے ، ہم آپ کی ذاتی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں ۔

ہم غیر معمولی طور پر بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور پچھلی دہائی میں ڈینش سیاست میں نسل پرست پرپیگنڈا کے استعمال پر اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ۔
ڈنمارک میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو عفریت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ تعصب اور نفرت سے بھری ہوئی ١٩٣٠ ء والی یہودیوں مخالف یادگار نعرے بازی اَب ڈینش سیاسی گفتگو کا ایک قابلِ قبول حصہ بن چکی ہے۔
یہ افریقی نسل کی اقلیتوں ، عربی نسل کی اقلیتوں اور مذہبی اقلیتوں کو خاص طور پر متاثر کرتی ہے۔
ڈینش اور یورپی پارلیمنٹ کے منتخب ڈینش ارکان کے بیانات ؛

ماؤنس کامرے، رکن یورپی پارلیمنٹ ( ڈینش پیپلز پارٹی) :
“ مجھے واضح طور پر کہنے دیجئے کہ مسلمانوں کو مسلم زمین پر ہی رہنا چاہےئے… اور وہ یہاں (ڈنمارک میں ) نہیں ہے“۔
“یورپ میں اسلام کے لئے کوئی جگہ نھیں ہے اور مسلمانوں کو یہاں سے نکالنا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاھیئے“۔

پیا کھیآسگورڈ ، رکن ڈینش پارلیمنٹ ( چیئرپرسن ڈینش پیپلش پارٹی، ٢٠٠٠ ء :
ڈنمارک میں رہنے والے ترقی مذیر ملکوں کے مہاجرین کے بارے میں:

“ہزاروں کی تعداد میں لوگ جو رُوحانی، معاشرتی، اور تہذیبی لحاظ سے ابھی تک سنہ ١٠٠٥ء میں رہ رہے ہیں“۔

سؤرن کراروپ ، رکن ڈینش پارلیمنٹ :

“ یہ بالکل بےہودہ بات ہے کہ صومالیہ ، سری لنکا، اور مشرقِ بعید سے آئے ہوئے لوگ اس قابل ہوں کہ خود کو ڈنمارک میں مہاجر کہہ سکیں“۔
“ اسلام ایک نیا آمریتی طاعون ہے جو پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے“۔

مارٹن ھنرکسَن، رکن ڈینص پارلیمنٹ:

“ اسلام اپنے آغاز سے ہی اپنے اندر دہشت گرد تحریکیں رکھتا ہے“۔
“اِسلام خود اپنی فطرت میں ایک بدی ہے جس کے خلاف لڑنا ضروری ہے اور لڑا بھی جائے گا“۔

کرسچیئن تُھلیسَن ڈاہل، رکن ڈینص پارلیمنٹ:

“ کئی طرح سے ہم مسلمانوں کے خلاف ہیں“۔

مندرجہ بالا بیانات محض غیر ملکیوں سے نفرت بھری بے سروپا باتیں کوئی عام نٹرنیٹپر جاری ہونے والے معمولی انتہا پسندوں کے نہیں ہیں۔ یہ ان اعلیٰ ڈینش سیاستدانوں کے الفاظ ہیں جو یورپی اور ڈینش پارلیمنٹ کے مقبول اور منتخب ارکان ہیں اور جن میں ایک ہی قدرِ مشترک ہے کہ وہ سب کے سب ایک ہی سیاسی پارٹی یعنی ڈینش پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

بعض اوقات اِس سیاسی جماعت کے ارکان اس سے بھی زیادہ مُنہ پھٹ انداز میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں ۔
“تمام مسلمانوں کو ڈنمارک سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا جانا چاہیئے “۔ (وان ایرکسن)۔
“تمام مسلمانوں کو ڈنمارک چھوڑنا ہوگا۔ یہ کہنے کو بہت تلخ بات ہے، ان میں سے کچھ تو انسان ہیں لیکن ہم انہیں الگ الگ کیسے کریں گے ۔“ (اِبکروگ ھانسَن)۔

سنہ ٢٠٠١ ء میں ڈینش پیپلز پارٹی کے نوجوانوں کی تنظیم نے پوسٹروں اور اشتہاروں میں یہ مہم چلائی


تمہارا ڈنمارک؟
ایک متفرق النسل معاشرہ جس میں:
اجتماعی زنا بالجبر۔
وحشیانہ تشدد۔
بے تحفظی۔
عورتوں پر جبر۔
زبردستی کی شادیاں۔
کیا یہی ہے جو آپ چاہتے ہیں؟
کچھ کریں … ہماری تنظیم کے رُکن بن جائیں ۔
تنظیم نوجوانان ڈینش پیپلز پارٹی


ڈنمارک کا مستقبل۔

آپ کا مُلک
آپ کا اِنتخاب…

مئی ٢٠٠٨ ء میںڈینش پیپلز پارٹی نے تمام اہم بڑے بڑے ڈینش اخبارات میں مندرجہ ذیل نعروں پر مشتمل مہم چلائی:

قانون کے سامنے اللہ بھی دوسروں کی طرح برابر ہے۔
غلامی۔
ہمیں ہمارا ڈنمارک واپس دو۔
ڈینش پیپلز پارٹی اقلیتوں پرویسی ہی بےہودہ نعرے بازی کے ساتھ الزام تراشی کر رہی ہے جو کبھی یہودیوں اور افریقی امریکینوں کو اُن

کی نیتوں اور اعتقادات کی شکل بگاڑ کر سامنے لاتے ہوئے انہیں ایک بہت بڑی عفریت بنا کر پیش کرنے کے لئے استعمال کی گئی تھی۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ نازیوں نے اسی طرح جرمنوں کو یہودیوں سے نفرت کرنے پر اکسایاتھا۔نازیوں نے مستقل اور مسلسل دعووں سے جرمنوں کو باور کرایا کہ یہودی باقی سب کے لئے ایک خطرہ ہیں ۔


جولیئس سٹرائےکر، نازی پروپیگنڈا کرنے والا، ١٩٢٥ء
“ رہن سہن کی یہودی اقدار اور اصول و ضوابط اُس بات کی نہ صرف اجازت دیتے ہیں بلکہ یہاں تک کہ وہ اُسے ضروری قرار دیتے ہیں جو کہ کسی غیر یہودی کے لئے صرف اِس لئے ممنوع ہے کیونکہ وہ عیسائی اعتقادات رکھتا ہے۔ یہودی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نسل بڑھائے، دھوکا دہی کرے، جھوٹی گواہیاں دے، اور اپنے مقصد کے لئے انتہائی بے رحمی سے لوگوں کو قتل بھی کرے“۔

پیا کھیآسگورڈ ، سربراہ ڈینش پیپلز پارٹی ، ٢٠٠٠ء
“ قران مسلمانوں کو سکھاتا ہے کہ اُن کے لئے جھوٹ بولنا، دھوکا دینا، بے ایمانی کرنا، اور جتنا وہ چاہیں اتنا فریب اور دھوکا دہی سے کام لینا قابلِ قبول ہے“۔

ہرمن ایسَر، یہودیوں کے متعلق نازی مصنف، ١٩٣٩ء
“ وہ غیر ملکیوں کے طور پر جھوٹی انکساری اوربے ایمان عزت و احترام کے ساتھ مکاری کرتے ہوئے اور رینگتے ہوئے آتے ہیں اور جب وہ کسی چیز تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ چور اُچکے اور خون چوسنے والے بن جاتے ہیں“۔

ڈینش پیپلز پارٹی کے ، یورپی پارلیمنٹ کے رخن، ماؤنس کامرے ١٩٩١ء

“مسلمان اپنے ہاتھ میں بھکاروں والی چھڑی لئے آتے ہیں ، لیکن جونہی انہیں سردی سے پناہ مل جاتی ہے، وہی چھڑی ہمیں مارنے کے لئے لاٹھی بن جاتی ہے“۔

اِس طرح یہ ( ڈینش پیپلز پارٹی کے سیاستدان) لوگوں کے متعلق غلط خیالات کو پروان چڑھا رہے ہیں اورکسی بھی اقلیت کو عفریت بنا کر اُسے ملامت قرار دیتے ہوئے، عام لفظوں میں اُسے معاشرے کے لئے ایک تباہ کن شے قرار دیتے ہوئے اپنے ہاں اقلیتوں کو بدنام کررہے ہیں“۔
ہم ڈینش پیپلز پارٹی پر نازیوں کی ہمدردی کا الزام نہیں لگا رہے، لیکن تاریخ نے بار بار دکایا ہے کہ اِس طرح کا پروپیگنڈا ، اثرو رسوخ رکھنے والے سیاسدان نسلی اور مذہبی گروہوں کو بدنام کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہوں، کتنی تیزی کے ساتھ اپنے ہی آپ کتناخطرناک زور پکڑ سکتا ہے۔
پچھلی دہائی میں ڈنمارک میں سیاسی تبدیلیوں پر تنقید کرنے والے ہم اکیلے ہی نہیں بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ بھی یہاں آ چکے ہیں؛
واشنگٹن پوسٹ:
“ مسلمانوں مخالف جذبات کی لہر نے انتہاپسند دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو تقویت دی ہے۔“ (…) بدلتے ہوئے مزاج نے اپنا مکمل اظہار ڈنمارک میں ہی پایا ہے جہاں مہاجرین مخالف سیاسی جماعتوں نے بارہ فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں“۔(…) اُن کی انتخابی مہم کے اشتہاروں میں سے ایک پر اہک نوعمر بچی کی تصویر تھی جس کے نیچے یہ نعرہ درج تھا:


’’جب یہ ریٹائر ہو گی، ڈنمارک میں مسلمان الثریت میں آ چکے ہوں گے۔‘‘ ٢٩ ۔مارچ ٢٠٠٢ء
فاننشئل ٹائمز:
“ ڈینشوں میں سے بیشتر اس بات کو ماننے سے انکار کریں گے لیکن نئی تدابیر اور مسٹر لِی پنگ کی پالیسیوں میں کئی تکلیف دہ باتیں بالکل ایک جیسی ہیں“۔ ٣ مئی٢٠٠٢ ء
نیؤزیو خرزائیٹنگ:
“ عدالتی حکم کی رُو سے ، ڈینش پیپلز پارٹی کی سربراہ، پیا کھیآسگورڈ کو ’نسل پرست‘ نہیں کہا جا سکتا، لیکن وہ خود اپنی جماعت کے حلقوں میں اپنے اکثر دیئے جانے والے غیر ملکیوں بارے نفرت انگیزبیانات سے چیزوں کو بھنبھنائے رکھتی ہیں ۔(…) غیر ملکیوں کے متعلق سویڈن کی مقابلتاََ کھلی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کھیآسگورڈ نے کہا ہے کہ سٹاک ہولم کی حکومت اِس میں مکمل آزاد ہے کہ وہ سویڈن کے شہروں کو سکنڈینیویائی بیروت بن جانے دے جس میں اجتماعی زنا بالجبر، انتقامی قتل و غارت گری، اور قبائلی جنگ و جدل ہو“۔ ١٩ جون ٢٠٠٢ ء
گارڈیئن:
“اسی دن جب وہہ یورپی یونین میں اپنی باری پر اُس کی قابل احترام صدارت حاصل کرے گا اور یورپی یونین کے تما م رُکن ممالک کے لئے سیاسی پناہ کے متعلق مشترکہ پالیسی وضع کرنا شروع کرے گا، نئے قوانین ڈنمارک کو ایک ایسے واحد ملک میں تبدیل کردیں گے جو سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے لئے سب سے زیادہ جارحانہ اور پُر خطر جگہ ہے“۔ ٢٩ ۔ جون ٢٠٠٢ء
انٹرنیشنل ھیرالڈ تربیون:
“پچھلی دہائی میں ڈنمارک یورپ بھر میں، غیر مُلکی مہاجرین کے خلاف سب سے زیادہ مخالفت اور نفرت رکھنے والا ملک بن گیا ہے ۔جہاں خصوصی طور پر مسلمان بہت شدید نفرت کا ہد ف بنے ہوئے ہیں یہ ایک ڈینش اخبار ہی تھا جس نے پیغمبر ( اسلام) محمد کے خاکے شائع کئے جن کی وجہ سے ایک عالمی بحرانپیدا ہو گیا۔ اِس کا ایک اہم سبب ڈینش پیپلز پارٹی کا زور پکڑنا ہے۔“ ٢۔نومبر ٢٠٠٨ء

نومبر ٢٠٠٨ء میں ڈنمارک میں امریکہ کے سفیر ضیمز پی کین نے تجویز دی کہ ڈنمارک کو شاید ریاستہائے متحدہ امریکہ سے کچھ سیکھنے کی اشد ضرورت ہے:
“ ہماری تاریخ کے کسی موڑ پر امریکیوں نے فیصلہ کیا کہ ایک نظم و ضبط رکھنے والا، اپنے آپ میں اچھی طرح بُنا ہوا، متفرق النسل، پُر امن، محفوظ، اور بھائی چارہ رکھنے والا معاشرہ زیادہ اہم ہے… بجائے اس کے کہ ہر کسی کو اپنے ہمسائے کو ذلیل کرنے، تشدد ابھارنے، یا قابلِ اعتراض توہین آمیز خاکے یا کارٹون بنانے کا ذاتی حق دے دیا جائے“۔
جنابِ صدر (منتخب)،
دیانتداری سے ہم نہیں جانتے کہ یہ پیغام آپ تک پہنچتا بھی ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔ لیکن ہم امید کی دلیری رکھتے ہیں ۔ اور شاید ڈینش حکومت بھی ٢٠٠٨ ء کے امریکی انتخابات سے ایک آدھ سبق سیکھ ہی چُکی ہو؟ اِس لئے ہم نہایت خلوص کے ساتھ امید کرتے ہیں کہ آپ اِن نازک اہمیت کے حامل معا ملات کو ڈینش حکومت کے ساتھ اٹھانے ، اور ڈینش پیپلز پارٹی کی پالایسیوں کی پرورش کرنے میں پوشیدہ خطرات کی نشاندہی کرنے کے لئے موقع حاصل کریں گے ۔ ہمیں یققیں ہے کہ ڈینش حکومت آپ کی بات پر ضرور غور کرے گی خصوصاََ اگر آپ موقع مِلنے پر ڈینش پیپلز پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تنقید کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
آپ کا شکریہ۔
آپ کے مخلص،
یاکب ہولٹ
رُنے اےنگل برےتھ لارسَن



ویب لنک
 

غازی عثمان

محفلین
اُوڈنسے کے میئر کو مسلمانوں سے ملاقات کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے

بلدیاتی کونسل میں ، انہتائی دائیں بازو کی غیر ملکیوں مخالف، ڈینش پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ وہ بلدیاتی کونسل میں کنزرویٹوو میئر جان بوائے کی مزید حمایت نہیں کرے گی کیونکہ انہوں نے مسلمانوں سے ملاقات کی ہے۔ اور وہ اُؤڈنسے شہر میں مسلمانوں کے لیے ایک بڑی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں اوراس کی حمایت کرتے ہیں ۔

ڈینش قومی خبر رسان ایجنسی ریٹزاؤ کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اُؤڈنسے کی بلدیاتی کونسل میں ڈینش پیپلز پارٹی نے بلدیہ کے میئر جان بوائے کی حمایت کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے کیونکہ وہ شہر میں ایک بڑی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں اور انہوں نےایک مسجد میں جا کر مسلمانوں سے ملاقات بھی کی ہے ۔

اُوڈنسے بلدیہ کی کونسل میں ڈینش پیپلز پارٹی کے کونسلر اور نائب میئر آلیکس آھرنڈٹسن نے کہا ہے کہ مستقبل میں اُن کی پارٹی، بلدیاتی کونسل میں پیش کئے جانے والے ہر معاملے پر الگ الگ اقدام لے گی ۔

اُوڈنسے بلدیہ کے میئر جان بوائے کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ، پارٹی کی کل جمعرات کو منعقد ہوئی ایک میٹنگ میں کیا گیا ہے اور اس سے پہلے اس معاملے پر پارٹی ماہ روان کے آغاز پر بھی اپنے ایک بڑے اجلاس میں غور کر چکی تھی ۔

اُؤڈنسے کی بلدیاتی کونسل کے پندرہ ارکان میں سے، ڈینش پیپلز پارٹی کا صرف ایک رکن ہے، جس کی وجہ سے دائیں بازو کی پارٹیوں کو، کونسل میں بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹ، ایس ایف اور انھد لسٹن پارٹیوں کے مقابلے میں سیاسی اکثریت حاصل ہے
۔
 

گرو جی

محفلین
مسلمانوں کو تو ایسے ٹریٹ کیا جا رہا ہے جیسے ہم نعوذباللہ یہودی ہوں۔
یہ صیع ہے کہ مارو بھی اور شور بھی مچاؤ
 

arifkarim

معطل
ڈنمارک والے اگر نیٹو میں نہ ہوتے تو مسلمانوں نے کب کا انہیں ٹھکانے لگا دیا ہوتا-
 

arifkarim

معطل

بھائی نیٹو کا پیکٹ ہے کہ اگر ایک ملک پر کوئی حملہ کرے تو تمام اتحادی ممالک اس ملک کا ساتھ دیں گے۔ چونکہ سارا مغربی یورپ اور شمالی امریکہ اتحادی گروپ ہے، اسلئے کسی ایک ملک کو ٹھکانے لگانا آسان کام نہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ بات کہی تھی؟؟؟
مسلمانوں نے کب کا انہیں ٹھکانے لگا دیا ہوتا-
مسلمانوں کے ساتھ ڈینش متعصب رویہ کے بارے میں تمہیں اور کیا علم ہے؟
 
بھائی نیٹو کا پیکٹ ہے کہ اگر ایک ملک پر کوئی حملہ کرے تو تمام اتحادی ممالک اس ملک کا ساتھ دیں گے۔ چونکہ سارا مغربی یورپ اور شمالی امریکہ اتحادی گروپ ہے، اسلئے کسی ایک ملک کو ٹھکانے لگانا آسان کام نہیں

وہ تو میں سمجھ گیا عارف، لیکن کیا مسلمان ڈنمارک سے لڑائی کے لیے تیار ہوتے؟ کیا صرف اس کی نیٹو میں شمولیت کی وجہ سے رُکے ہوئے ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈینش قومی خبر رسان ایجنسی ریٹزاؤ کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اُؤڈنسے کی بلدیاتی کونسل میں ڈینش پیپلز پارٹی نے بلدیہ کے میئر جان بوائے کی حمایت کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے کیونکہ وہ شہر میں ایک بڑی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں اور انہوں نےایک مسجد میں جا کر مسلمانوں سے ملاقات بھی کی ہے ۔
کیا ڈنمارک جمہوری ملک ہے؟
 

arifkarim

معطل
کیا ڈنمارک جمہوری ملک ہے؟

جی بالکل جمہوری ملک ہے۔ لیکن جب بات مسلمانوں سے الیک سلیک کی ہو تو سارے ووٹرز بھاگ جاتے ہیں۔

جہاں میں رہتا ہوں، یہاں بھی ایک ترکی سیاست دان نے جو کہ ناروے کی ایک طاقتوار پارٹی کا ممبر ہے، ایک مسجد بنوانے کی تجویز دی تھی۔ یہ تجویز ایک ملٹی کلچر شہر کیلئے بہت توجہ کا حامل تھی مگر اسکے جواب میں ایسے ایسے نفرت بھرے ایس ایم ایس اور کمنٹس اخبارات میں شائع ہوئے کہ وہ سیاست دان بھی توبہ توبہ کرنے لگا۔

ایک ایس ایم ایس میں لکھا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب یہاں مسلمانوں کا راج ہوگا۔

ایک اور میں لکھا تھا کہ ہم مسلمانوں کی پنج وقتہ نمازوں کی آذانیں سننا گوارا نہیں کر سکتے، وغیرہ وغیرہ
 
Top