ڈهلتا ہے گر سورج نئی اک صبح بهی لاتا ہے - برائے اصلاح

ڈهلتا ہے گر سورج نئی اک صبح بهی لاتا ہے
تاریکیوں میں یہ یقیں ڈهارس بندهاتا ہے

میں زندگی کی گردشوں میں سن نہیں پائی
مشکل میں ہے میرا یہ گهر مجھ کو بلاتا ہے

ہو جسکی بنیادوں میں کذابی کا مادہ ہی
اس گهر کا ساکن جهوٹ ہی سے گهر سجاتا ہے

تنہا نہیں ہوں سنگ اک میراث ہے میرے
کس بات سے کافر بهلا مجھ کو ڈراتا ہے

جب گهر کا چولہا بجه چکا ہو تو مکیں اس کا
روٹی کی خاطر اپنا ہی ایماں جلاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
شک درست ہے تمہارا، جب ’کذب‘ سے ہی کذاب بنا ہے، تو اس سے دوبارہ کزابی بنانے کی ضرورت؟
کاپی کر رہا ہوں۔
 
سر یہ بحر میں ہی نہیں ہے.. پوری کی پوری غزل.. میں نے تبدیل کر دی ہے دیکھ لیجیئے گا پلیز



ڈهل چکا سورج نئی، صبح بهی دکهلاتا رہا
رات بهرمظر یہی، حوصلہ بنتا رہا

زندگی کے شور میں، سن نہ پائی جو مرا
جل رہا وہ گهر مجهے، اک صدا دیتا رہا

جنکی بنیادیں ہوئی، جھوٹ پر تعمیر تهیں
ان گھروں کا ہر مکیں، خوف میں جیتا رہا

میں نہیں تنہا مرے، سنگ اک میراث ہے
کیا خبر یوں کفر کیوں، مجھ کو لرزاتا رہا

گهر میں فاقہ ہو رہا، بجه گیا چولہا جو تها
اپنا ایماں بیچ وہ روٹیاں کهاتا رہا


الف عین صاحب..
 

باباجی

محفلین
میرے ناقص خیال میں
آپ غیر ضروری الفاظ کا کافی استعمال کرتی ہیں
جس کی وجہ سے بے وزنی پیدا ہوتی ہے

ذرا کم الفاظ میں زیادہ بات کی کوشش کریں
آپ بہت اچھا لکھ رہی ہیں
جاری رکھیئے
 

الف عین

لائبریرین
سر یہ بحر میں ہی نہیں ہے.. پوری کی پوری غزل.. میں نے تبدیل کر دی ہے دیکھ لیجیئے گا پلیز



ڈهل چکا سورج نئی، صبح بهی دکهلاتا رہا
رات بهرمظر یہی، حوصلہ بنتا رہا

زندگی کے شور میں، سن نہ پائی جو مرا
جل رہا وہ گهر مجهے، اک صدا دیتا رہا

جنکی بنیادیں ہوئی، جھوٹ پر تعمیر تهیں
ان گھروں کا ہر مکیں، خوف میں جیتا رہا

میں نہیں تنہا مرے، سنگ اک میراث ہے
کیا خبر یوں کفر کیوں، مجھ کو لرزاتا رہا

گهر میں فاقہ ہو رہا، بجه گیا چولہا جو تها
اپنا ایماں بیچ وہ روٹیاں کهاتا رہا


الف عین صاحب..
نہیں وہ بھی بحر میں تھی، کہ میں نے یہ بحر اخذ کی تھی۔
مفعول فعلن فاعلن مفعول فعلن فعل!!! جو درست ہے، بس نا مانوس ہے۔
روائزڈ غزل کی تقطیع یوں ہو گی÷
فاعلاتن فاعلن، فاعلاتن فاعلن
لیکن افسوس قوافی سب غلط ہو رہے ہیں۔ ’تا‘ کو حرف روی رکھا جائے تو دکھلا، بن، جی قافئے نہیں ہیں۔ پہلے والی کے درست تھے۔ اب یہ تم فیصلہ کرو کہ اس نامانوس والی بحر کو ہی کچھ مانوس بنانے کی کوشش کی جائے، یا دوسری والی کے قوافی درست کئے جائیں؟؟
 
نہیں وہ بھی بحر میں تھی، کہ میں نے یہ بحر اخذ کی تھی۔
مفعول فعلن فاعلن مفعول فعلن فعل!!! جو درست ہے، بس نا مانوس ہے۔
روائزڈ غزل کی تقطیع یوں ہو گی÷
فاعلاتن فاعلن، فاعلاتن فاعلن
لیکن افسوس قوافی سب غلط ہو رہے ہیں۔ ’تا‘ کو حرف روی رکھا جائے تو دکھلا، بن، جی قافئے نہیں ہیں۔ پہلے والی کے درست تھے۔ اب یہ تم فیصلہ کرو کہ اس نامانوس والی بحر کو ہی کچھ مانوس بنانے کی کوشش کی جائے، یا دوسری والی کے قوافی درست کئے جائیں؟؟


سر جی دونوں پلیز :) سیکھ لوں گی..
 
میرے ناقص خیال میں
آپ غیر ضروری الفاظ کا کافی استعمال کرتی ہیں
جس کی وجہ سے بے وزنی پیدا ہوتی ہے

ذرا کم الفاظ میں زیادہ بات کی کوشش کریں
آپ بہت اچھا لکھ رہی ہیں
جاری رکھیئے

بہت شکریہ! پلیز تھوڑا elaborate کر دیجیئے گا الفاظ کہاں کم کر لوں. یہ بات مجهے پہلے بهی کہی جا چکی ہے، شاید میں بولتی بہت ہوں!
 

باباجی

محفلین
ڈهلتا ہے گر سورج نئی اک صبح بهی لاتا ہے
تاریکیوں میں یہ یقیں ڈهارس بندهاتا ہے
÷میرے خیال میں یوں ٹھیک لگے گا
تاریکیوں میں یقیں یہ ڈھارس بندھاتا ہے

میں زندگی کی گردشوں میں سن نہیں پائی
مشکل میں ہے میرا یہ گهر مجھ کو بلاتا ہے

ہو جسکی بنیادوں میں کذابی کا مادہ ہی
اس گهر کا ساکن جهوٹ ہی سے گهر سجاتا ہے

تنہا نہیں ہوں سنگ اک میراث ہے میرے
کس بات سے کافر بهلا مجھ کو ڈراتا ہے

جب گهر کا چولہا بجه چکا ہو تو مکیں اس کا
روٹی کی خاطر اپنا ہی ایماں جلاتا ہے

جہاں مجھے لگا کہ لفظ زائد ہیں وہاں میں نے سرخ نشان لگا دیا ہے
اور وہاں تھوڑی سی تبدیلی کی گنجائش بھی ہے
 
جہاں مجھے لگا کہ لفظ زائد ہیں وہاں میں نے سرخ نشان لگا دیا ہے
اور وہاں تھوڑی سی تبدیلی کی گنجائش بھی ہے

لیکن ان الفاظ کو ہٹا دینے سے وزن نہیں خراب ہو جاتا؟ یا یہ کسی اور بحر میں دیکھ رہے ہیں آپ؟
 
جہاں مجھے لگا کہ لفظ زائد ہیں وہاں میں نے سرخ نشان لگا دیا ہے
اور وہاں تھوڑی سی تبدیلی کی گنجائش بھی ہے

لیکن ان الفاظ کو ہٹا دینے سے وزن نہیں خراب ہو جاتا؟ یا یہ کسی اور بحر میں دیکھ رہے ہیں آپ؟
نہیں وہ بھی بحر میں تھی، کہ میں نے یہ بحر اخذ کی تھی۔
مفعول فعلن فاعلن مفعول فعلن فعل!!! جو درست ہے، بس نا مانوس ہے۔
روائزڈ غزل کی تقطیع یوں ہو گی÷
فاعلاتن فاعلن، فاعلاتن فاعلن
لیکن افسوس قوافی سب غلط ہو رہے ہیں۔ ’تا‘ کو حرف روی رکھا جائے تو دکھلا، بن، جی قافئے نہیں ہیں۔ پہلے والی کے درست تھے۔ اب یہ تم فیصلہ کرو کہ اس نامانوس والی بحر کو ہی کچھ مانوس بنانے کی کوشش کی جائے، یا دوسری والی کے قوافی درست کئے جائیں؟؟


سر پہلے اس دوسری صورت میں قوافی درست کر لیتے ہیں پلیز.

ڈهل چکا سورج مگر، صبح نئی کرتا رہا
رات بهر یہ ہی یقیں، حوصلہ بنتا رہا

ایسے کیسا ہے؟
 
مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہی الفاظ شعر کو بے وزن کرتے ہیں


پہلی صورت میرے حساب سے بهی درست نہیں ہے یا میرے جیسے کم تجربہ والے شعراء اس میں اچها نہیں لکھ سکتے. اسی لئے پوری بحر بدل دی ہے. اس میں بهی الفاظ زیادہ لگ رہے ہیں؟
 
ایک آئیڈیا ہے اگر اہل نظر ماننا چاہیں تو۔
غزل کے پہلے شعر میں دونوں قوافی یا کم از کم ایک قافیہ بدل کر اصلی حرف پر باندھو باقی جیتا مرتا، سوتا، جاگتا کھوتا وغیرہ خود درست ہوجائینگے،

جیسے دوسرے مصرعے کو اگر یوں کہا جائے:
رات بھر منظر یہی، حوصلہ میرا رہا
یا
رات بھر منظر یہی، حوصلہ دل کا رہا۔

ان دونوں صورتوں میں کوئی بھی عروضی آپ کی غزل کے دیگر قوافی کو چیلینج نہیں کر سکتا انشا اللہ۔
 

باباجی

محفلین
نہیں وہ بھی بحر میں تھی، کہ میں نے یہ بحر اخذ کی تھی۔
مفعول فعلن فاعلن مفعول فعلن فعل!!! جو درست ہے، بس نا مانوس ہے۔
روائزڈ غزل کی تقطیع یوں ہو گی÷
فاعلاتن فاعلن، فاعلاتن فاعلن
لیکن افسوس قوافی سب غلط ہو رہے ہیں۔ ’تا‘ کو حرف روی رکھا جائے تو دکھلا، بن، جی قافئے نہیں ہیں۔ پہلے والی کے درست تھے۔ اب یہ تم فیصلہ کرو کہ اس نامانوس والی بحر کو ہی کچھ مانوس بنانے کی کوشش کی جائے، یا دوسری والی کے قوافی درست کئے جائیں؟؟
سر میرے خیال میں اسی کو مانوس بنایا جائے
تو اسکی شکل کچھ بہتر ہوجائے گی
 

باباجی

محفلین
پہلی صورت میرے حساب سے بهی درست نہیں ہے یا میرے جیسے کم تجربہ والے شعراء اس میں اچها نہیں لکھ سکتے. اسی لئے پوری بحر بدل دی ہے. اس میں بهی الفاظ زیادہ لگ رہے ہیں؟
آپ جلد بازی نا کریں
آرام سے اسے دوبارہ ٹیلی کریں
اور مناسب و با معنی الفاظ منتخب کریں
یہ بہت اچھی ہوجائے گی
 
Top