لو بھئی اس کی بھی اصلاح کر دی گئی ہے۔
ڈھلتا ہے گر سورج نئی اک صبح بھی لاتا ہےتاریکیوں میں یہ یقیں ڈھارس بندھاتا ہے//مفعول فعلن فاعلن مفعول فعلن فع/فاعیوں بہتر ہو گا
ڈھلتا ہے گر سورج نئی اک صبح لاتا ہےتاریکیوں میں یہ یقیں ڈھارس بندھاتا ہے
میں زندگی کی گردشوں میں سن نہیں پائیمشکل میں ہے میرا یہ گھر مجھ کو بلاتا ہے//درست
ہو جسکی بنیادوں میں کذابی کا مادہ ہیاس گھر کا ساکن جھوٹ ہی سے گھر سجاتا ہے//کذابی کی بات ہو گئی ہے، اس کو یوں کہو
ہو جھوٹ کا ہی مادہ بنیادوں میں جس کیاس گھر کا ساکن کذب ہی سے سر سجاتا ہے
تنہا نہیں ہوں سنگ اک میراث ہے میرےکس بات سے کافر بھلا مجھ کو ڈراتا ہے//جب کام‘ساتھ‘ سے چل جائے تو پھر ’سنگ‘ کی کیا ضرورت ہے، لیکن شعر کچھ دو لخت محسوس ہو رہا ہے۔ کفر کا میراث سے کیا تعلق؟ اس کو کچھ سوچو۔
جب گھر کا چولہا بجھ چکا ہو تو مکیں اس کاروٹی کی خاطر اپنا ہی ایماں جلاتا ہے
//بس ‘تو‘ بطور دو حرفی اچھا نہیں لگتا، اس کو ’تب‘ کیا جا سکتا ہے، باقی درست