F@rzana
محفلین
خدا جانے مجھے درپیش کس قسم کا ذہنی فقدان یا بحران ہے کہ میں نے آج کل اپنی عزیز بہن کی ناراضگی مول لے لی ہے۔
آخر کس طرح؟
ہوا یوں کہ نوشیرواں، اکثر چھٹی کا دن میرے پاس گزارتا ہے ایک دن اس کا ڈائپر بدلنا تھا۔
قسمت کی ماری نور جان اس کمرے میں ڈسٹنگ کر رہی تھی۔
میں نے ایک زور دار آواز اپنی بیٹی کو لگائی’اریبہ جلدی سے wipes لاؤ بیٹا۔ نور جان کی پوٹی صاف کرنی ہے۔‘
نورجان سے زیادہ میری بہن خفا ہو گئیں جنہیں میں نے بالآخر منا لیا۔ پتہ نہیں کیا بات ہے مگر کچھ دن سے میں نے خوب الٹا بولنا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں امی نے تلقین کی کہ ’یامُجیب‘ پڑھا کرو، اللہ کی رحمت نازل ہو گی۔
چونکہ میں ایک ورکنگ وومن بھی ہوں اس لیے دن میں کئی بار لوگوں سے بات کرنی پڑتی ہے۔ ایک دن ایک مجید صاحب سے دن میں کئی بار فون پر بات ہوئی اور شام کو مغرب کی نماز کے بعد میں نے پورے خضوع خشوع کے ساتھ آنکھیں بند کرکے والہانہ انداز میں آگے پیچھے ڈولتے ہوئے ایک سو بار بجائے ’یامجیب‘ کے ’یا مجید‘ کی تسبیح پڑھ ڈالی۔
کافی دیر بعد خیال آیا تو سخت الجھن ہوئی۔ یہ خیال بھی آیا کہ ویسے بھی کوئی مراد پوری نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو کہ اس تسبیح کی برکت سے مجید صاحب بن بلائے ابرِ کرم کی مانند میری روکھی سوکھی زندگی پر برس کر میرے لیے ’یا امان‘ ’یا حفیظ‘ پڑھنے کا انتظام نہ کریں۔
چند دنوں بعد پھر نوشیرواں نے مجھے شرفِ میزبانی بخشا۔
موصوف کو دیکھ کر میں نے انتہائی دُلار سے کہا’ نور جان‘۔ میری بہن جو پچھلی مرتبہ بڑی مشکل سے مانی تھی پھر ناراض ہو گئی مگر ابھی مزید کارنامہ ہونا باقی تھا۔
نوشیرواں کی دودھ کی بوتل منہ سے نکال کر میں نے ان کو اپنے کندھے پر ڈالا اور بڑے تحکمانہ انداز سے کہا’ چلو ڈکار لو نور جان‘۔ میری بہن پھر خفا۔
نورجان اس دن کام پر نہیں آئی تھی۔ اگلے دن میری بیٹی نے جسے میری غائب دماغی کا چرچا کرنے کا بہت شوق ہے، ’ڈکار لو نور جان‘ والی بات جب نور جان کو بتائی تو اس نے اپنی پلکیں جھپکائیں، تھوڑی پر بڑے سٹائل سے انگلی رکھ کر غور و فکر کیا اور کہا’ مگر باجی میں تو گٹار لیتی ہی نہیں‘۔
اس بات سےبھی دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اگر غور فرمائیں۔
پہلی یہ کہ میری ماسی کا نظام ہضم بلا کا تیز ہے اور دوسری بات یہ کہ نور جان کے تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں گٹار ضرور بج رہا ہے۔
رہا نوشیرواں تو ہو سکتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر گٹار سے شوق فرمائے مگر ساتھ ساتھ ڈکاریں بھی لیتا رہے کیونکہ میری اس بات سے آپ ضرور اتفاق کریں گے کہ زندگی کے لیے گٹار اتنا اہم نہیں جتنی کہ ایک زوردار ڈکار۔
تو خوش رہیے، گٹار بجائیے یا ستار مگر بھولیئے مت لینا وہ ڈکار جس پر ہے لائف کا انحصار۔
بشکریہ: بی بی سی
آخر کس طرح؟
ہوا یوں کہ نوشیرواں، اکثر چھٹی کا دن میرے پاس گزارتا ہے ایک دن اس کا ڈائپر بدلنا تھا۔
قسمت کی ماری نور جان اس کمرے میں ڈسٹنگ کر رہی تھی۔
میں نے ایک زور دار آواز اپنی بیٹی کو لگائی’اریبہ جلدی سے wipes لاؤ بیٹا۔ نور جان کی پوٹی صاف کرنی ہے۔‘
نورجان سے زیادہ میری بہن خفا ہو گئیں جنہیں میں نے بالآخر منا لیا۔ پتہ نہیں کیا بات ہے مگر کچھ دن سے میں نے خوب الٹا بولنا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں امی نے تلقین کی کہ ’یامُجیب‘ پڑھا کرو، اللہ کی رحمت نازل ہو گی۔
چونکہ میں ایک ورکنگ وومن بھی ہوں اس لیے دن میں کئی بار لوگوں سے بات کرنی پڑتی ہے۔ ایک دن ایک مجید صاحب سے دن میں کئی بار فون پر بات ہوئی اور شام کو مغرب کی نماز کے بعد میں نے پورے خضوع خشوع کے ساتھ آنکھیں بند کرکے والہانہ انداز میں آگے پیچھے ڈولتے ہوئے ایک سو بار بجائے ’یامجیب‘ کے ’یا مجید‘ کی تسبیح پڑھ ڈالی۔
کافی دیر بعد خیال آیا تو سخت الجھن ہوئی۔ یہ خیال بھی آیا کہ ویسے بھی کوئی مراد پوری نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو کہ اس تسبیح کی برکت سے مجید صاحب بن بلائے ابرِ کرم کی مانند میری روکھی سوکھی زندگی پر برس کر میرے لیے ’یا امان‘ ’یا حفیظ‘ پڑھنے کا انتظام نہ کریں۔
چند دنوں بعد پھر نوشیرواں نے مجھے شرفِ میزبانی بخشا۔
موصوف کو دیکھ کر میں نے انتہائی دُلار سے کہا’ نور جان‘۔ میری بہن جو پچھلی مرتبہ بڑی مشکل سے مانی تھی پھر ناراض ہو گئی مگر ابھی مزید کارنامہ ہونا باقی تھا۔
نوشیرواں کی دودھ کی بوتل منہ سے نکال کر میں نے ان کو اپنے کندھے پر ڈالا اور بڑے تحکمانہ انداز سے کہا’ چلو ڈکار لو نور جان‘۔ میری بہن پھر خفا۔
نورجان اس دن کام پر نہیں آئی تھی۔ اگلے دن میری بیٹی نے جسے میری غائب دماغی کا چرچا کرنے کا بہت شوق ہے، ’ڈکار لو نور جان‘ والی بات جب نور جان کو بتائی تو اس نے اپنی پلکیں جھپکائیں، تھوڑی پر بڑے سٹائل سے انگلی رکھ کر غور و فکر کیا اور کہا’ مگر باجی میں تو گٹار لیتی ہی نہیں‘۔
اس بات سےبھی دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اگر غور فرمائیں۔
پہلی یہ کہ میری ماسی کا نظام ہضم بلا کا تیز ہے اور دوسری بات یہ کہ نور جان کے تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں گٹار ضرور بج رہا ہے۔
رہا نوشیرواں تو ہو سکتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر گٹار سے شوق فرمائے مگر ساتھ ساتھ ڈکاریں بھی لیتا رہے کیونکہ میری اس بات سے آپ ضرور اتفاق کریں گے کہ زندگی کے لیے گٹار اتنا اہم نہیں جتنی کہ ایک زوردار ڈکار۔
تو خوش رہیے، گٹار بجائیے یا ستار مگر بھولیئے مت لینا وہ ڈکار جس پر ہے لائف کا انحصار۔
بشکریہ: بی بی سی