موجودہ جدید دور میں اب “کتب“ کو جلانا یا بین کرنا پرانے وقتوں کی طرح آسان نہیں رہا۔ کیونکہ اب چھوٹی سی مائکرو چپ میں ہزاروں لاکھوں کتابیں سمائی جا سکتی ہیں۔ البتہ انسانی فطرت کے عین موافق “آزاد“ ملکوں میں بھی بڑی کارپوریشنز کے سامنے حکومتیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ آجکل یورپی ممالک “دہشت گردی“ کے نام پر شہری حقوق چھیننے میں پیش پیش ہیں۔ شروع میں محض آہستہ آہستہ ٹیلیفون اور نیٹ ایکٹیوٹی مانیٹر کی جاتی ہے۔ بعد ازاں فائل شیئرنگ اور یوٹیوب پر متنازعہ فائلز کو “کاپی رائٹ“ کا بہانہ کر کے بلاک کر دیا جاتا ہے۔ اور یوں چل سو چل۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ جونسی چاہے حکومت ہو، پلیٹ فارم ہو، طاقت ور ہمیشہ ان علوم کو دباتے ہیں، جس سے انکے اقتدار و طاقت کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ جیسے ایران کے خومینی نے سلمان رشدی کی فتنہ پرور کتاب Satanic Verses بین کرکے اسکی اشاعت سے منسلکہ ہر فرد، خواہ وہ پبلشر، ناشر ،پرنٹر ، ترجمان ہو، پر قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ بالکل ویسے ہی ہٹلر کے زمانہ میں ہزاروں متنازعہ کتب کو ڈھیروں کی شکل میں جلایا گیا۔۔۔۔
البتہ ۷۰ کی دہائی میں نسواں مہم کیےدوران فحاشی کے رسالے جلانے والی مہم قابل فخر ہے۔ گو کہ مستقبل پر اسکا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔