محسن وقار علی
محفلین
رانا پلازہ نامی اس آٹھ منزلہ عمارت میں حادثے کے وقت قریب تین ہزار افراد موجود تھے
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے نواحی علاقے میں تین روز قبل منہدم ہونے والی آٹھ منزلہ عمارت میں دو فیکٹری مالکان نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
محبوب الرحمن اور صمد عدنان دونوں فیکٹری مالکان کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عمارت میں شگاف آ جانے پر متنبہ کیے جانے کے بعد بھی انھوں نے اس عمارت میں کام کرنے والے اپنے ملازمین کو وہاں کام کرنے کے لیے مجبور کیا۔
حکام کے مطابق رانا پلازہ نامی اس عمارت کے گرنے سے کم از کم 323 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ عمارت بدھ کی صبح اس وقت گری تھی جب وہاں کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔
سنیچر کی صبح مزید پندرہ افراد کو اس میں سے زندہ نکالا گیا۔
امدادی کام کرنے والوں نے کہا تھا کہ انھوں نے کم از کم ایسے 50 افراد کی نشاندہی کر لی ہے جو تیسری منزل پر مختلف جگہوں پر پھنسے ہوئے اور زندہ ہیں۔
حفاظتی دستے نے ان لوگوں تک آکسیجن کے سلینڈر اور پانی پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ انھیں وہاں سے نکالے جانے تک ان میں زندگی کی رمق باقی رہ سکے۔
یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جب وہ عمارت گری تھی تو اس وقت اس میں قریب 3000 افراد تھے جن میں سے اب تک 2200 لوگوں کو بچایا جا چکا ہے۔
بنگلہ دیش میں عمارتوں کے منہدم ہونے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں
محبوب الرحمن اور صمد عدنان جو نیو ویو بٹن اور نیو ویو سٹائل فیکٹریوں کے مالکان ہیں نے صبح خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈھاکہ پولیس کی نائب سربراہ شیامی مکھرجی کا کہنا ہے کہ ان دونوں پر لاپرواہی برتنے کا الزام ہے۔
ان دونوں فیکٹری مالکان نے بدھ کو مبینہ طور پر عمارت میں شگاف نظر آنے کے باوجود اپنے سٹاف کو کام پر آنے کے لیے زور ڈالا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس عمارت میں کپڑوں کی مزید تین فیکٹریاں تھیں۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے جمعہ کو ایوان نمائندگان سے کہا ’ اس حادثے کے ذمہ دار بطور خاص وہ مالکان جنھوں نے اپنے ملازمین پر کام کے لیے دباؤ ڈالا تھا انھیں سزا دی جائے گی‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو گا اسے ڈھونڈ نکالا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی۔
جمعہ کو قریب دس ہزار افراد نے اس حادثے کے خلاف مظاہرہ کیا اور عمارت کے مالکان کو گرفتار کرنے اور کپڑے کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالات کی بہتری کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین نے احتجاج کے دوران ڈھاکہ میں کئی عمارتوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا جبکہ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھینکی اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
بنگلہ دیش میں حفاظتی معیار سے غفلت کے نتیجے میں عمارتوں کے منہدم ہونے یا ان میں آتشزدگ کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں ڈھاکہ میں کپڑوں کی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم 110 افراد مارے گئے تھے۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو