<blockquote>
Date: Saturday, December 31, 2005
ادارتی صفحہ
خاموشی قومی غداری ہوسکتی ہے
صدر جنرل پرویز مشرف نے لاہورمیں مدیران اخبارات کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پر عوام کی توجہ دیگر مسائل سے ہٹانے کے لئے پانی کا مسئلہ چھیڑنے کا الزام غلط ہے۔ میں اگر چاہتا تو ماضی کے حکمرانوں کی طرح چین کی نیند سو سکتا تھا لیکن 2016ء سے پہلے دو یاتین بڑے ڈیموں کی تعمیر مکمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اس لئے ہم ملک میں ڈیم ضرور بنائیں گے اور جلد اس کا اعلان کردیاجائے گا کیونکہ یہ ملک و قوم کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس لئے اس بارے میں میری خاموشی قوم سے غداری ہوگی۔ دنیا کے ہر مہذب ملک میں قیادت کی یہ بنیادی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ وہ جوکام بھی کرنا چاہتی ہے اس کے لئے دوسروں کو قائل کرے اوراگرایسا کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہوتو پھر وہ فریق مخالف کے دلائل کی معقولیت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اس کے موقف کی ہم نوا بن جائے اور اس کے مطابق اس کام کو انجام دینے کی جدوجہد کرے لیکن وطن عزیز پاکستان میں ہر بڑے مسئلے سے نبرد آزما ہوتے ہوئے ماضی کی حکومتوں نے جن میں فوجی او ر سویلین دونوں قسم کی حکومتیں شامل ہیں [خود ملاحظہ فرمائیں کہ موجودہ صدرِ پاکستان پچھلی فوجی حکومتوں کے گناہوں کے ذمہ دار نہیں ہیں] اس مسلمہ طریق کار سے انحراف کرتے ہوئے پرپیچ مسائل سے ٹکرانے کی بجائے ہمیشہ گریز و فرار کا راستہ اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی ہے۔ کالاباغ یا بھاشا ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ہو، گوادر پورٹ کی توسیع کا عظیم الشان منصوبہ ہو، سینڈک پراجیکٹ کا معاملہ ہو یا انڈس ہائی وے کی تعمیر کا مسئلہ، ریلوے کوجدید خطوط پر استوارکرکے اسے مسافروں کے لئے عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق مسافروں کے لئے ایک تیزرفتار اور آرام دہ وسیلہ سفر بنانے اور نقل و حمل کے میدان میں اسے مسابقت کی ذمہ داریاں اداکرنے کے قابل بنانے کا سوال ہو یا ملک بھرمیں عالمی معیار کے موٹرویزبنانے کا پروگرام کسی بھی مسئلے پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ارباب ِاختیارنے ان معاملات کو ٹالنے اور موخر کرنے کی پالیسی کو ہی ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے گئے اورجب جان پر بن آئی تو پھر چارو ناچار ان کو حل کرنے کی جدوجہد کی گئی۔ قومی معاملات سے پہلو تہی کرنے کے اس چلن کی ایک قیمت تو ہمیں ضیاع وقت کی صورت میں ادا کرنا پڑی جس کا کوئی بدل ہی موجود نہیں اور دوسری یوں کہ ترقی کے سفر میں ہم دنیا کی دوسری قوموں سے کہیں پیچھے رہ گئے۔ اس کی ایک بڑی نمایاں اور واضح مثال صدرایوب کے عہد میں بنایا جانے والا پنج سالہ منصوبہ ہے جس سے متاثر ہو کر جنوبی کوریا نے اپنی اقتصادی و صنعتی ترقی کا لائحہ عمل اسی نہج پر بنایا اور آج اسی شاہراہ پر مسلسل چلتے ہوئے وہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے کہ اسے کرہ ٴ ارض کے انتہائی ترقی یافتہ ملک بھی رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں اورپاکستان جو ترقی کی اس منصوبہ بندی کی بنا ڈالنے والا تھا وہ سیاسی مصلحتوں کے تحت اپنے پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں میں مسلسل تبدیلیاں کرنے کے باعث بمشکل اب جا کے کہیں ٹیک آف کی پوزیشن میں آرہا ہے شاید ایسے ہی کسی موقع کے لئے کہاگیا ہے : یارانِ تیزگام نے محمل کو جا لیا ہم محو نالہٴ جرس کاررواں رہے یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں پایا جانے والا سیاسی عدم استحکام ہے جوقومی پالیسیوں کے تسلسل کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہے۔ فوجی حکومتیں اس الجھن میں رہتی ہیں کہ وہ ایک مختصر مدت کے لئے ایک ہنگامی پروگرام لے کرآئی ہیں اس لئے انہیں کسی بڑے بکھیڑے میں پڑنے سے گریز کرنا چاہئے اورمنتخب حکومتیں پارلیمانی نظام کے مخصوص تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے حامیوں کے ناراض ہوجانے کے خوف سے کسی بھی اہم مسئلے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مسئلہ بھی قریباً تین عشرے پرانا ہے اور اس کی نہ صرف جائزہ رپورٹیں تکمیل کے تمام مراحل طے کر چکی ہیں بلکہ اس کے مجوزہ مقام پر ابتدائی تیاریوں کے سلسلے میں جو تعمیرات کی گئی تھیں ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ وہاں پر ایک مدت سے پڑی رہنے والی بھاری مشینری بھی ناکارہ ہو کر رہ گئی ہے اوراس طرح اس منصوبہ پر بغیر کسی پیش رفت کے قوم و ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے اور تعمیراتی مصارف میں اس عرصہ میں کئی گنا جو اضافہ ہوچکا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔ بھاشا ڈیم کامنصوبہ گوکالاباغ ڈیم کے منصوبے جتناپرانا نہیں لیکن یہ بھی ایک طویل عرصے سے لٹکا ہوا ہے اور اب موجودہ حکومت نے مستقبل میں وطن عزیز کی بڑھتی ہوئی برقی، زرعی و صنعتی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کا مسئلہ پوری قوت سے اٹھایا ہے تو ا س پر پھر پورے ملک میں بحث کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہواہے کوئی انہیں حیات قومی کے لئے ناگزیر قرار دے رہا ہے تو کوئی انہیں اپنے سیاسی اہداف کے لئے ایک مرتبہ پھر التوا کی نذر کرنے کی راگنی الاپ رہا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت صدر پرویزمشرف کی سربراہی میں نئے آبی ذخائر کی جلد تر تعمیر کے لئے جس طرح ہمہ جہت کوششوں میں مصروف ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ وہ عوام کو فنی و تکنیکی معلومات سے بہرہ ور کرنے کے لئے بھی ہر جتن کر رہی ہے ۔ (اس سلسلہ میں اس حکومت نے جو تین رپورٹیں تیار کروائیں وہ جاری کی جاچکی ہیں) ان مسائل کے لئے سیاسی سطح پرزیادہ سے زیادہ اتفاق رائے حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی کر رہی ہے۔ اس کی اس سے بڑی شہادت اور کیا ہوگی کہ صدر مملکت خود بنفس نفیس چھوٹے صوبوں میں جا کر عوام سے براہ راست خطاب کر رہے ہیں اوراس ساری تگ و دو کا مقصد یہ ہے کہ جو کام کرنا ہے اس کو وقت پر کر گزرنے کی روایت ڈالی جائے تاکہ بعد میں یہ پچھتاوا نہ ہو کہ اگر یہ کام پہلے کرلیاجاتا تواچھا ہوتا۔ نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے سلسلے میں صدر پرویز مشرف نے جو مہم شروع کی ہوئی ہے اسے ہر قیمت پر نتیجہ خیز بنایا جاناچاہئے اور اب اس تناظرمیں اہل سیاست کوسوچنا یہ ہے کہ وہ محض اگلے انتخابات کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں یا آئندہ نسلوں کے لئے… قوم اور ملک کے مفادات مقدم ہیں یا اپنے جذباتی سیاسی موقف جووقتی طور پر واہ واہ حاصل کرلیتے ہیں لیکن قوم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں اسی طرح کھڑی رہتی ہیں۔ حکومت ، اپوزیشن، دانشوروں، ماہرین سب کو ان تمام مسائل کی نشاندہی کرنی چاہئے جوملکی استحکام کے لئے ناگزیر ہے لیکن پریشر گروپوں کے دباؤ کی نذرہوگئے۔ ان گروپوں میں مذہبی، فرقہ پرست، علاقائی، صوبائی اور لسانی سب شامل ہیں۔ سی بی آر کا مستحسن اقدام ڈبلیو ٹی او کے چیلنجز سے نمٹنے، ملکی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی اور انہیں عالمی مارکیٹ میں دوسرے ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور کرنے کے لئے کاروباری طبقے، صنعت کاروں اور برآمدکنندگان کی طر ف سے دوسرے ملکوں کی ٹیکس مراعات کو سامنے رکھ کر پالیسی وضع کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سی بی آر آئندہ مالی سال کے دوران انکم ٹیکس پر متعدد قسم کی چھوٹ دینے پر غور کر رہا ہے۔اس حوالے سے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے وفاق کے علاوہ پاک امریکہ بزنس کونسل کی طرف سے بھی متعدد مرتبہ کہا گیا کہ اس کے لئے کاروباری طبقے کو اعتماد میں لیا جائے ان کی تجاویز پر غور کیا جائے اور دوسرے ملکوں میں تاجروں، صنعت کاروں اور کاروباری طبقے کو ٹیکس میں جو مراعات دی جاتی ہیں انہیں پیش نظر رکھ کر پالیسی وضع کی جائے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اب سی بی آر نے صنعت کاروں، بزنس سیکٹر، کارپوریٹ سیکٹر کے علاوہ دیگر اداروں سے بھی جامع تجاویز طلب کرلی ہیں اور ٹیکس چھوٹ سے ریونیو کو ہونے والے نقصان کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور سی بی آر حکام دوسرے ممالک میں ٹیکس مراعات کا جائزہ لینے کے بعد نئی پالیسی مرتب کریں گے۔ اس طرح کاروباری طبقے کی تجاویز کی روشنی میں تیار کی جانے والی پالیسی سے یقینا اس کے مفادات کا تحفظ ہو سکے گا اور ملکی مصنوعات پیداواری لاگت میں کمی کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں دوسرے ملکوں کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کی قابل ہوسکیں گی۔ ڈکیتی کی دو بڑی وارداتیں کراچی اور لاہور میں جمعرات کو ڈکیتی کی دو بڑی وارداتوں میں ڈاکو ایک بنک کی شاخ اور ریلوے کی اکاونٹس برانچ سے 5کروڑ روپے سے زائد رقم لوٹ کر لے گئے۔ کراچی میں بہادرآباد کے علاقے میں ہونے والی بنک ڈکیتی میں ایک کروڑ 63 لاکھ روپے کی رقم لوٹی گئی جبکہ لاہور میں ریلوے اکاؤنٹس برانچ سے لوٹی جانے والی رقم 3 کروڑ 61 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے جو 8 ہزار ملازمین کی تنخواہیں تھیں۔مذکور دونوں وارداتوں کے جن ملزمان کی اب تک نشاندہی ہوئی ہے ان میں سے ایک سیکورٹی گارڈ اور دوسرا ریلوے پولیس کانسٹیبل بتایا جاتاہے ۔ جس سیکورٹی گارڈ نے کراچی میں بنک میں ڈکیتی کی واردات کی اس کے بارے میں یہ بھی پتہ چلاہے کہ اس نے صرف بیس روز پہلے جعلی شناختی کارڈ کے ذریعے سیکورٹی گارڈ کی ملازمت حاصل کی تھی جبکہ لاہور میں ڈکیتی کی واردات میں ایک ریلوے پولیس کانسٹیبل نے اپنے بعض ساتھیوں سے مل کر اکاؤنٹس برانچ کے 9 اہل کاروں کو بیٹے کی پیدائش کی خوشی کی آڑ میں نشہ آور کھانا اور مٹھائی کھلاکر کروڑں روپے لوٹ لئے۔ ملک کے دوبڑے شہروں میں ڈکیتی کی یہ وارتیں ایک باعث تشویش امرہیں ویسے بھی بڑے شہروں کے بنکوں سے بھاری رقوم نکلوانے والوں کو لوٹنے کی وارداتیں معمول بنتی جا رہی ہیں۔ ان وارداتوں میں بعض اوقات بنکوں کے گارڈ اور بعض ملازمین بھی ملوث پائے جاتے ہیں ریلوے کے محکمے میں ہونے والی ڈکیتی میں ایک کانسٹیبل کا ملوث ہونا یہ ظاہر کرتاہے قانون کے محافظوں کی صفوں میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں ۔ مزید تعجب خیز امر یہ ہے کہ جس جگہ واردات ہوئی وہاں پولیس گارد کی رہائش بھی ہے مگر ڈاکوؤں نے ا سٹرانگ روم اور کئی جنگلوں کے تالے توڑے اور نوٹوں سے بھرے تھیلے لوٹ کر فرار ہوگئے اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریلوے حکام اور پولیس کے ذمہ داران ایسے واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور ملزمان تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اصل صورت حال جلد سامنے لائی جائے۔ جان بچانے والی دواؤں کی قیمتیں ایک غیر ملکی دوا ساز کمپنی کے چیئرمین نے لاہور میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جان بچانے والی دواؤں کے نرخ بھارت کے مقابلے میں کہیں کم ہیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ نہ صرف صارفین کو بہترین سروسز فراہم کر رہے ہیں بلکہ عوامی شعور بیدار کرنے کے پروگرام بھی شروع کئے ہوئے ہیں لیکن عوام کا عمومی تاثر اس سے بالکل مختلف ہے اور ان کی رائے یہ ہے کہ گزشتہ قریباً ایک عشرے سے وطن عزیز میں جان بچانے والی دواؤں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ یہ ادویات غریب تو درکنار متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہوتی جا رہی ہیں اور اس کی تصدیق وفاقی وزارت صحت کے ڈرگ بورڈ کے ایک ممبر کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے جان بچانے والی دواؤں کی قیمتوں میں 50 سے 80 فیصد اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان ادویات کی قیمتوں میں کئے جانے والے غیر قانونی اضافے کو روکنے کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات کرے کیونکہ اس ازخود اضافے کی وجہ سے غریب مریض زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کو انسانی صحت کیلئے ناگزیر ان ادویات کی قیمتوں کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے چاہئیں اور اصل حقائق عوام کے سامنے لانے چاہئیں۔
</blockquote>