زین
لائبریرین
کوئٹہ۔ خصوصی رپورٹ۔ بلوچستان کے ضلع واشک میں واقع شمسی ایئر بیس کو خالی کرانے کے لئے پاکستانی حکومت کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کی تاریخ کل ختم ہورہی ہے لیکن امریکی اہلکاروں کا مکمل انخلاء اب تک ہوسکا اور نہ ہی بیس کا کنٹرول پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیاہے۔
ذرائع کے مطابق ہفتہ کو مزید تین امریکی کار گو جہاز وں کے ذریعے سامان منتقل کیا گیاتاہم ایئر بیس پر اب بھی امریکی اہلکاروں کو اتنا سامان موجود ہے جو پاکستانی حکومت کی جانب سے11دسمبر کی ڈیڈ لائن کے اندر منتقل نہیں کیا جاسکتا اور اس کی منتقلی میں مزید کئی دن لگ سکتے ہیں۔ایئر بیس پر اس وقت بھی34امریکی اہلکار موجود ہیں ۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی 31پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی شمسی ایئر بیس کے باہر حفاظت کے لئے مستقل طور پر تعینات ہے جبکہ ایئر بیس کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے فرنٹیئر کور کی پنجگور رائفلزکے اہلکار پہنچ چکے ہیں تاہم انہیں ایئر بیس کا کنٹرول نہیں دیا گیا۔ اس بات کا امکان بھی موجود نہیں کہ امریکی اہلکار 11دسمبر تک ایئر بیس کا کنٹرول پاکستانی حکام کے حوالے کردینگے۔ذرائع کے مطابق اب تک تقریباً اٹھارہ کارگو طیاروں کے ذریعے مال و اسباب افغانستان منتقل کیا جاچکا ہے ، اس کے علاوہ امریکی اہلکاروں نے بہت ساری چیزیں جلا کر خاکستر کردی ہیں۔
یاد رہے کہ شمسی ایئر بیس افغانستان پر حملے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے 2001ء میں امریکہ کے استعمال میں دیدیاتھا۔ شمسی کا مقام بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ سے320کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ضلع واشک کی یونین کونسل ہے ۔ واشک کا ضلع دو تحصیل ماشکیل اور واشک پر مشتمل ہے ۔ شمسی کا علاقہ واشک تحصیل سے 35 کلو میڑامشرق کی جانب ہے ۔ شمسی کا پورا علاقہ 20کلو میٹر پر مشتمل ہے جبکہ شمسی ایئر بیس پانچ کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔یہ ایئر بیس فغان سرحد کے قریب واقع ہے جبکہ یہاں سے ایرانی سرحد بھی شمال مغرب میں120کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ بیرونی جانب سے اس ایئر بیس کی حفاظت پر31پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی معمور ہے جبکہ اندرانی حفاظت اور نگرانی کے لئے امریکی فورسز اور بلیک واٹر کے اہلکاروں کوتعینات کیا گیا تھا ۔ شمسی ایئر بیس میں ہفتہ میں ایک کارگو طیارہ رسد لیکر آتا تھا جبکہ نفری کی رد و بدل بھی وقتاً فوقتاً ہوتی تھی ۔
شمسی ایئر بیس سے دن میں UAVڈرون طیاروں کی پانچ سے آٹھ پروازیں ہوتی تھیں جنہیں افغانستان اور واشنگٹن سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان طیاروں کے ذریعے افغانستان کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائل حملے کئے جاتے تھے۔ ایئربیس میں ٹیکنیکل سٹاف قیام پذیر تھا جو ڈرون طیاروں کی دیکھ بھال اور دیگر انتظامات انجام دیتے تھے۔ یہ ایئر بیس متحدہ عرب امارات نے تعمیر کرایا تھا۔ غالب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شمسی ایئر بیس دوبارہ متحدہ عرب امارت کے سپرد کردیا جائے گا۔ اس سے قبل 1990ء میں یہ ایئر بیس متحدہ عرب امارات کو بغرض شکار دیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق ہفتہ کو مزید تین امریکی کار گو جہاز وں کے ذریعے سامان منتقل کیا گیاتاہم ایئر بیس پر اب بھی امریکی اہلکاروں کو اتنا سامان موجود ہے جو پاکستانی حکومت کی جانب سے11دسمبر کی ڈیڈ لائن کے اندر منتقل نہیں کیا جاسکتا اور اس کی منتقلی میں مزید کئی دن لگ سکتے ہیں۔ایئر بیس پر اس وقت بھی34امریکی اہلکار موجود ہیں ۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی 31پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی شمسی ایئر بیس کے باہر حفاظت کے لئے مستقل طور پر تعینات ہے جبکہ ایئر بیس کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے فرنٹیئر کور کی پنجگور رائفلزکے اہلکار پہنچ چکے ہیں تاہم انہیں ایئر بیس کا کنٹرول نہیں دیا گیا۔ اس بات کا امکان بھی موجود نہیں کہ امریکی اہلکار 11دسمبر تک ایئر بیس کا کنٹرول پاکستانی حکام کے حوالے کردینگے۔ذرائع کے مطابق اب تک تقریباً اٹھارہ کارگو طیاروں کے ذریعے مال و اسباب افغانستان منتقل کیا جاچکا ہے ، اس کے علاوہ امریکی اہلکاروں نے بہت ساری چیزیں جلا کر خاکستر کردی ہیں۔
یاد رہے کہ شمسی ایئر بیس افغانستان پر حملے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف نے 2001ء میں امریکہ کے استعمال میں دیدیاتھا۔ شمسی کا مقام بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ سے320کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ضلع واشک کی یونین کونسل ہے ۔ واشک کا ضلع دو تحصیل ماشکیل اور واشک پر مشتمل ہے ۔ شمسی کا علاقہ واشک تحصیل سے 35 کلو میڑامشرق کی جانب ہے ۔ شمسی کا پورا علاقہ 20کلو میٹر پر مشتمل ہے جبکہ شمسی ایئر بیس پانچ کلومیٹر پر مشتمل ہے ۔یہ ایئر بیس فغان سرحد کے قریب واقع ہے جبکہ یہاں سے ایرانی سرحد بھی شمال مغرب میں120کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ بیرونی جانب سے اس ایئر بیس کی حفاظت پر31پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی معمور ہے جبکہ اندرانی حفاظت اور نگرانی کے لئے امریکی فورسز اور بلیک واٹر کے اہلکاروں کوتعینات کیا گیا تھا ۔ شمسی ایئر بیس میں ہفتہ میں ایک کارگو طیارہ رسد لیکر آتا تھا جبکہ نفری کی رد و بدل بھی وقتاً فوقتاً ہوتی تھی ۔
شمسی ایئر بیس سے دن میں UAVڈرون طیاروں کی پانچ سے آٹھ پروازیں ہوتی تھیں جنہیں افغانستان اور واشنگٹن سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ بعض رپورٹس کے مطابق ان طیاروں کے ذریعے افغانستان کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائل حملے کئے جاتے تھے۔ ایئربیس میں ٹیکنیکل سٹاف قیام پذیر تھا جو ڈرون طیاروں کی دیکھ بھال اور دیگر انتظامات انجام دیتے تھے۔ یہ ایئر بیس متحدہ عرب امارات نے تعمیر کرایا تھا۔ غالب امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شمسی ایئر بیس دوبارہ متحدہ عرب امارت کے سپرد کردیا جائے گا۔ اس سے قبل 1990ء میں یہ ایئر بیس متحدہ عرب امارات کو بغرض شکار دیا گیا تھا۔