بعض کریٹکس کا خیال ہے کہ اگر واقعۃ بلیک ہولز ان پروٹونز کے تصادم سے وجود میں آگئے تو انکو کنٹرول کرنا ناممکن ہوگا! ہوسکتا ہے یہ بلیک ہولز پوری زمین کو ہڑپ کر جائیں
لیکن الحمد للہ آج کے تجربہ سے ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔۔۔
اول تو کوئی بلیک ہول بننے کا امکان ہی بہت کم ہے۔ لیکن اگر بن بھی جاتا ہے تو اس کے ایک سیکنڈ کے ایک انتہائی مختصر حصے سے زیادہ زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ اور پھر بھی اگر یہ مشرف کی طرح سخت جان ہو اور بچ جائے، تو ایک تو اس کی کمیت صرف سو پروٹانوں کے لگ بھگ ہوگی۔ جس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی قوتِ ثقل انتہائی کمزور ہوگی۔ اور پھر یہ روشنی کی رفتار کے انتہائی قریب سفر کر رہا ہوگا۔ یعنی اس کی رفتار زمین کی حدود سے فرار ہونے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہوگی۔ جبکہ اس کا حجم ایک پروٹان کے ہزارویں حصے کے برابر ہوگا۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایٹم کے مرکزے اور الیکٹرانوں کے درمیان (ان کے حجم کے لحاظ سے) اچھی خاصی خالی جگہ موجود ہوتی ہے، چنانچہ یہ بلیک ہول بغیر کسی خاص مقدار میں مادہ جذب کیے، بڑی آسانی کے ساتھ زمین کے آر پار گزر جائے گا۔ بالکل جیسے کوئی راکٹ خلا میں سے گزرتا ہے۔ زمین سے نکلنے کے بعد یہ خلا کے کسی دور دراز علاقے میں پہنچ جائے گا جو کہ اس کے لیے زمین سے بھی زیادہ خالی ہوگا۔ چنانچہ اس بات کا کوئی خاص امکان نہیں رہ جاتا کہ وہ اتنا مادہ جذب کر پائے کہ کسی پریشانی کا باعث بن سکے۔
یہ تو ایک وجہ ہوئی کہ اس میں کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن محض یہی وجہ طبیعیات دانوں کے اطمینان کے لیے کافی نہیں۔ اس سے بہتر وجوہات بھی موجود ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ زیادہ تر طبیعیات دانوں کا ماننا ہے کہ LHC میں بنا کوئی بھی بلیک ہول، زیادہ دور تک جانے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ مشہور طبیعیات دان سٹیفن ہاکنگ کے مطابق، بلیک ہول مستقل توانائی خارج کرتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں (یا "تبخیر ہو جاتے ہیں")۔ جتنا چھوٹا بلیک ہول ہوگا، اتنا ہی توانائی کا اخراج شدید ہوگا، اور یہ تبخیر کا عمل اتنا ہی زیادہ تیز ہوگا۔ یعنی چھوٹا بلیک ہول زیادہ تیزی سے ختم ہوگا۔ چنانچہ پروٹان کے حجم سے ہزار گنا چھوٹا ایک بلیک ہول بننے کے تقریباً تقریباً فوراً بعد ہی اشعاع کے ایک جھماکے کے ساتھ غائب ہو جائے گا۔
اور طبیعیات دانوں کے بھروسے کی سب سے بڑی وجہ: دن میں ہزاروں مرتبہ زمین کے کرۂ فضائی کے ساتھ انتہائی بلند توانائی کی حامل فلکی اشعاع ٹکراتی رہتی ہیں۔ یہ اشعاع ہوا کے سالمات کے ساتھ LHC میں ہو پانے والے طاقتور ترین ٹکراؤ سے بھی کم از کم 20 گنا زیادہ توانائی کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ چنانچہ اگر یہ چھوٹا سا ذراتی اسراع گر زمین کے ہڑپ کرنے والا کوئی بلیک ہول تیار کر سکتا ہوتا، تو یہ اشعاع تو اب تک یہ کام اربوں بار کر چکی ہوتیں۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ چنانچہ خوب آرام سے نیند پوری کرو۔
ماخذ۔
http://science.nasa.gov/headlines/y2008/10oct_lhc.htm