جاسم محمد
محفلین
کائنات کے کنارے بہت بڑے 83 بلیک ہول دریافت
ویب ڈیسک منگل 19 مارچ 2019
تیر کی سمت میں تین انتہائی دور کوزاروں میں سے ایک، یہ 13 ارب 5 لاکھ نوری سال پر واقع ہے (فوٹو: بشکریہ نیشنل ایسٹرونومی آبزوریٹری جاپان)
ٹوکیو: کائنات کے دور دراز کنارے پر ایسے بلیک ہول دریافت ہوئے ہیں جن کی تعداد 83 کے لگ بھگ ہے اور وہ اتنے پرانے ہیں کہ کائنات بننے کے صرف 80 کروڑ سال بعد ہی وجود میں آگئے تھے یعنی ہمارے حساب کے مطابق تمام بلیک ہول لگ بھگ 13 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔
اگر درست انداز میں بیان کیا جائے تو ماہرین نے براہِ راست بلیک ہول کو نہیں دیکھا ہے بلکہ کوزار یا گرد و گیس کے ایسے بڑے بڑے بادل دیکھے ہیں جو ضخیم بلیک ہول کی اطراف موجود ہیں۔ یہ روشن گیسیں بلیک ہول کے کنارے گھومتے گھومتے اس کے اندر گر رہی ہیں۔ اس علاقے میں 17 بڑے بلیک ہول دیکھے گئے تھے لیکن جاپان کی سوبارو دوربین نے مزید کئی درجن بلیک ہول دریافت کیے ہیں۔
واضح رہے کہ کوزار کائناتی لائٹ ہاؤس بھی کہلاتے ہیں کیونکہ کائنات کے یہ روشن ترین اجسام ہیں اور یہ صرف ایسے بلیک ہول کے آس پاس ملتے ہیں جو ہمارے نظامِ شمسی سے بھی لاکھوں کروڑوں گنا کمیت والے ستاروں سے بنتے ہیں۔ ان کی گرد و گیس دمکتی ہے اور روشن ہوکر اپنا اور خود بلیک ہول کا پتا دیتی ہے۔
ان کوزاروں کو ماہرین نے ایک ایک کرکے شناخت کیا اور اس پر تحقیق کی ہے تو معلوم ہوا کہ دور ترین کوزار ہم سے 13 ارب 5 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔
واضح رہے کہ ایک نوری سال اس فاصلے کو کہتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے طے کیا جائے اگر ہم کسی خیالی سواری میں تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل ایک سال تک چلتے رہیں تو وہ فاصلہ ایک نوری سال کہلائے گا۔
یہ کوزار اپنے بلیک ہول سے وابستہ ہیں اور قدیم ترین اجسام میں شامل ہیں۔ اسے دریافت کرنےوالی ٹیم کے سربراہ پروفیسر یوشی کائیکی ماتسوکا ہیں ایہائم یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ ہیں۔
سوبارو دوربین پر انہوں نے ’ہائپر سپرائم کیم‘ نامی آلے سے ان اجسام کو دیکھا ہے لیکن یہ دوربین جاپان میں نہیں بلکہ جاپان نے اسے ہوائی کی آتش فشاں پہاڑی موانا پر تعمیر کیا ہے۔ خاص آلات وسیع علاقے کا نظارہ کراتے ہیں تاہم ماہرین نے اس کے لیے مسلسل پانچ سال تک آسمان کو کھنگالا ہے۔
محمد سعد
ویب ڈیسک منگل 19 مارچ 2019
تیر کی سمت میں تین انتہائی دور کوزاروں میں سے ایک، یہ 13 ارب 5 لاکھ نوری سال پر واقع ہے (فوٹو: بشکریہ نیشنل ایسٹرونومی آبزوریٹری جاپان)
ٹوکیو: کائنات کے دور دراز کنارے پر ایسے بلیک ہول دریافت ہوئے ہیں جن کی تعداد 83 کے لگ بھگ ہے اور وہ اتنے پرانے ہیں کہ کائنات بننے کے صرف 80 کروڑ سال بعد ہی وجود میں آگئے تھے یعنی ہمارے حساب کے مطابق تمام بلیک ہول لگ بھگ 13 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں۔
اگر درست انداز میں بیان کیا جائے تو ماہرین نے براہِ راست بلیک ہول کو نہیں دیکھا ہے بلکہ کوزار یا گرد و گیس کے ایسے بڑے بڑے بادل دیکھے ہیں جو ضخیم بلیک ہول کی اطراف موجود ہیں۔ یہ روشن گیسیں بلیک ہول کے کنارے گھومتے گھومتے اس کے اندر گر رہی ہیں۔ اس علاقے میں 17 بڑے بلیک ہول دیکھے گئے تھے لیکن جاپان کی سوبارو دوربین نے مزید کئی درجن بلیک ہول دریافت کیے ہیں۔
واضح رہے کہ کوزار کائناتی لائٹ ہاؤس بھی کہلاتے ہیں کیونکہ کائنات کے یہ روشن ترین اجسام ہیں اور یہ صرف ایسے بلیک ہول کے آس پاس ملتے ہیں جو ہمارے نظامِ شمسی سے بھی لاکھوں کروڑوں گنا کمیت والے ستاروں سے بنتے ہیں۔ ان کی گرد و گیس دمکتی ہے اور روشن ہوکر اپنا اور خود بلیک ہول کا پتا دیتی ہے۔
ان کوزاروں کو ماہرین نے ایک ایک کرکے شناخت کیا اور اس پر تحقیق کی ہے تو معلوم ہوا کہ دور ترین کوزار ہم سے 13 ارب 5 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔
واضح رہے کہ ایک نوری سال اس فاصلے کو کہتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے طے کیا جائے اگر ہم کسی خیالی سواری میں تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے مسلسل ایک سال تک چلتے رہیں تو وہ فاصلہ ایک نوری سال کہلائے گا۔
یہ کوزار اپنے بلیک ہول سے وابستہ ہیں اور قدیم ترین اجسام میں شامل ہیں۔ اسے دریافت کرنےوالی ٹیم کے سربراہ پروفیسر یوشی کائیکی ماتسوکا ہیں ایہائم یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ ہیں۔
سوبارو دوربین پر انہوں نے ’ہائپر سپرائم کیم‘ نامی آلے سے ان اجسام کو دیکھا ہے لیکن یہ دوربین جاپان میں نہیں بلکہ جاپان نے اسے ہوائی کی آتش فشاں پہاڑی موانا پر تعمیر کیا ہے۔ خاص آلات وسیع علاقے کا نظارہ کراتے ہیں تاہم ماہرین نے اس کے لیے مسلسل پانچ سال تک آسمان کو کھنگالا ہے۔
محمد سعد