کابل: پریمی جوڑے کو طالبان نے بھرے مجمع میں گولیاں مار دیں: برطانوی اخبار

نبیل

تکنیکی معاون
جی ہاں ‌صاحب یہ اخلاقی اور مذہبی طور پر درست نہیں کہ گھر والوں سے بغاوت کرکے فرار ہوا جائے ، کسی لڑکی یا لڑکے کا آپس میں ملنا ، عشق کے پیچے لڑانا جائز نہیں، اسلام نے مرضی کا حق ضرور دیا ہے مگر اس کی اجازت نہیں دی کہ معاشرتی حدود اور اخلاق سمیت گھر والوں کی عزت پر بٹہ لگا کر شادی کی جائے ۔ وگرنہ کل میری بہن بیٹی بھی مرضی کے نام پر گھر سے فرار ہوجائے ، پھر تو سبھی فرار ہوجائیں، معاشرے میں تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہی بے راہ روی ہے ۔۔ جناب عورت کچے ذہن کی ہوتی ہے ، اس لیے اس کا دھوکہ کھانا امرِ حقیقی ہے ، اسلام نے عورت کو تقدس دے کے ایسے ہی نہیں کچھ پابندیوں‌میں رکھا کہ وہ اسی کے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔۔ واللہ اعلم بالصواب

میں آپ کے شاعر اور دانشور ہونے کے ناتے آپ سے بہتر رائے کی توقع رکھتا تھا۔ بہرحال ہر شخص اپنی رائے رکھنے کی آزادی رکھتا ہے۔ معاشرہ مردوں کا، اور دین اور شریعت بھی مردوں کے لیے ۔۔ اور عورتوں کا دھوکا کھانا امر حقیقی۔
 

سارہ خان

محفلین
جناب عورت کچے ذہن کی ہوتی ہے ، اس لیے اس کا دھوکہ کھانا امرِ حقیقی ہے ، اسلام نے عورت کو تقدس دے کے ایسے ہی نہیں کچھ پابندیوں‌میں رکھا کہ وہ اسی کے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔۔ واللہ اعلم بالصواب

کیا یہ بات کسی حدیث یا آیت میں کہی گئی ہے کہ عورت کچے ذہن کی ہوتی ہے اس لئے اس پر پابندیاں ہیں ؟:confused:

کیا پبندیاں صرف عورت پر ہیں اسلام میں مرد پر کوئی پابندی نہیں ؟ اسے شرم و حیا کی پاسداری کرنے کو نہیں کہا گیا ؟:rolleyes:

کیا پتا عورت پر پابندیاں اللہ پاک نے اس لئے لگائی ہوں کہ ان میں مردوں کا ہی بھلا ہو ۔۔۔:rolleyes:

عورت گھر سے فرار ہوئی تو وہ کچے ذہن کی ہو گئی ؟ اور مرد جو فرار ہونے پر اکساتا ہے وہ عقل کل ہے‌ اس نے بہت بڑی ذہانت کا کام کیا ہے ؟:idontknow:
 

مغزل

محفلین
میں آپ کے شاعر اور دانشور ہونے کے ناتے آپ سے بہتر رائے کی توقع رکھتا تھا۔ بہرحال ہر شخص اپنی رائے رکھنے کی آزادی رکھتا ہے۔ معاشرہ مردوں کا، اور دین اور شریعت بھی مردوں کے لیے ۔۔ اور عورتوں کا دھوکا کھانا امر حقیقی۔

صاحب پابند ہونے کا مقصد حدود متعین کرنا ہے ، اور مردوں‌کے لیے اس سے زیادہ سخت احکامات ہیں ، معاشرہ اسلام کی رو سے دونوں‌کا ہے ، صرف مرد کا نہیں اور نہ عورت کو یہ آزادی ہے کہ وہ بے حیا ئی اختیار کرے ، شریعت میں اس کےاحکام باآسانی مل جائیں‌گے ،۔ اسلام میرے گھر کا نہیں ہے کہ میں جو چاہے کہتا پھروں ۔ بہت شکریہ ۔۔۔واضح رہے میں‌رائے ’’ پریمی جوڑے ‘‘ کو ہلاک کیے جانے پر رائے دی ہے ،۔ فقط واللہ اعلم باالصواب،،

یہ بھی ملاحظہ کیجے ، عورت السلام میں کردار:
آج کے ترقی یافتہ دور میں اسلامی معاشرہ میں جو تعلیم نسواں یا مدرسہ نسواں نظر آتا ہےاسے دیکھ کر بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت کہان ہے؟ عہد رسالت کی مشہور تعلیم گاہ ویونیورسٹی جو دنیا میں اہل صفہ کے نام سے متعارف ہے، اس میں صحابیات اور بنات اسلام کا ذکر ملتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لئے ایک حدیث ہی کافی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب اپنی صحیح کے اندر قائم کیا ہے: "ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم" اور اس باب کے تحت جو حدیث لائے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں عورتوں کے اندر علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے اجتماعی طور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تعلیم کے لئے کوئی انتظام فرمادیجئے۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ایک دن کا وعدہ کیا جس میں ان کو وعظ ونصیحت کرتےاور دینی باتوں کا حکم فرماتے تھے (8)۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اسلام میں ارشادات نبویہ کے حصول کا کس قدر شوق وجذبہ تھا۔

اگر اس قسم کے لوگ کتب رجال کی ورق گردانی کریں تو انہیں صحابیات، تابعیات اور مختلف ادوار کی روایات ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے، جنہوں نے حفاظت حدیث کے تعلق سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں مل سکتی، فن حدیث ہی کیا شرعی علم وفن کوئی بھی ہو اس میں عورتوں کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے، فن تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا اصول، ادب ہو یا بلاغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے جان توڑ خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں پیچھے رہتیں تو آج اسلامی دنیا مسائل نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی، نکاح وطلاق کے مسائل ہوں یا جماع ومباشرت کے ازدواجی زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکلات، اگر اس قسم کے الجھے اور پیچ مسائل کا حل ہمیں ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔

- خواتین اسلام اور علم حدیث:

ابتدائے اسلام سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے حدود شریعت میں رہتے ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر شعبہ زندگی میں حصہ لیا اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا، خواتین اسلام نے علم حدیث کی جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی سب سے پہلی نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں، اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔

- صحابیات:

صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ایک درجہ اور مرتبہ کی نہین تھیں اور نہ سب کو یکساں طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت نصیب ہوئی تھی، اس لئے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی، کیونکہ حدیث کی خدمات کے لئے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی، اس لئے اس سلسلہ میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ہیں، یوں تو صحابیات کی مجموعی تعداد حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے احصاء کے مطابق (1545) ہے، لیکن جنہوں نے روایت حدیث کے ذریعہ حفاظت حدیث کا بیڑا اٹھایا ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گئی ہے اور ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام اور جلیل القدر ائمہ نے علم حاصل کیا ہے (9)، علامہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد" کے اندر کم وبیش (125) صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی کل تعداد (2560) ہے جن میں سب سے زیادہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، حضرت عائشہ مکثرین رواۃ صحابہ میں سے ہیں، ان کی مرویات کی تعداد (2210) ہے (10)، جن میں (286) حدیثیں بخاری ومسلم میں موجود ہیں، مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے (11)، مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، ان کے علل واسباب کی تلاش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے، کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔

امام زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں: "کانت عائشۃ اعلم الناس یسالہا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" (12)، یعنی حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں، بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ دوسری جگہ اس طرح رقمطراز ہیں: "اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا" (13)۔

حضرت عائشہ فتوی اور درس دیا کرتی تھیں، یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کی لغزشوں کی بھی نشاندہی فرمائی، علامہ جلال الدین سیوطی اور زرکشی رحمہما اللہ نے اس موضوع پر "الاصابۃ فیما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے، حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے (14) ۔

ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا علم حدیث میں ممتاز نظر آتی ہیں، علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں: "کان ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحفظن من حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کثیرا مثلا عائشۃ وام سلمۃ" (15)، یعنی عام طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھتی تھیں، مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام سلمہ سے (378) حدیثیں مروی ہیں (16)۔ ان کے فتوے بکثرت پائے جاتے ہیں، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے "اعلام الموقعین" میں لکھا ہے: "اگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتوے جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے (17)، ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقہ میں ہے۔ ان کے تلامذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔ ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حصہ لیا اور ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں، جیسے حضرت میمونہ ہیں۔ ان سے (76)، ام حبیبہ سے (65)، حفصہ سے (60)، زینب بنت جحش سے (11) جویریہ سے (7) سودہ سے (5)، خدیجہ سے (1)، مزید براں آپ کی دونوں لونڈیوں میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہن سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔

امہات المومنین کے علاوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے کوئی نہ کوئی روایت موجود نہ ہو، چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (18)، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ سے (11) حدیثیں مروی ہیں (18)۔ عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل سے (30) حدیثیں مروی ہیں، حضرت ام سلیم اور ام رومان سے چند حدیثیں مروی ہیں، ام سلیم سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے، ایک بار کسی مسئلہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت میں اختلاف ہوا تو دونوں نے ان ہی کو حکم مانا (19)۔ حضرت ام عطیہ سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان سے مردہ کو نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے (20) ۔
 

تیشہ

محفلین
کیا یہ بات کسی حدیث یا آیت میں کہی گئی ہے کہ عورت کچے ذہن کی ہوتی ہے اس لئے اس پر پابندیاں ہیں ؟:confused:

کیا پبندیاں صرف عورت پر ہیں اسلام میں مرد پر کوئی پابندی نہیں ؟ اسے شرم و حیا کی پاسداری کرنے کو نہیں کہا گیا ؟:rolleyes:

کیا پتا عورت پر پابندیاں اللہ پاک نے اس لئے لگائی ہوں کہ ان میں مردوں کا ہی بھلا ہو ۔۔۔:rolleyes:

عورت گھر سے فرار ہوئی تو وہ کچے ذہن کی ہو گئی ؟ اور مرد جو فرار ہونے پر اکساتا ہے وہ عقل کل ہے‌ اس نے بہت بڑی ذہانت کا کام کیا ہے ؟:idontknow:



zzzbbbbnnnn-1.gif



مزہ آیا پڑھکر ،، بہت ٹھیک لکھا ہے تم نے ۔ :party: :battingeyelashes:
 

سارہ خان

محفلین
مغل بھائی آپ کی اس پوسٹ " اسلام میں عورت کا کردار " سے ہی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ عورت کچے ذہن کی نہیں ہوتی۔۔ اللہ تعالٰی نے عورت کو جسمانی لحاظ سے کمزور بنایا ہے لیکن عقل اور شعور کے لحاظ سے وہ مرد سے کسی صورت کم نہیں ہے ۔۔عورت پر پردے کی پابندی اور کچھ حدود صرف اسی کی بھلائی کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔ مرد اور عورت دونوں کی بھلائی کے لئے ہیں ۔۔۔ انسان غلطی کا پتلا ہے ۔۔ صرف عورت ہی نہیں مرد کا دھوکہ کھانا بھی امر حقیقی ہے ۔۔۔
 

مغزل

محفلین
مغل بھائی آپ کی اس پوسٹ " اسلام میں عورت کا کردار " سے ہی یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ عورت کچے ذہن کی نہیں ہوتی۔۔ اللہ تعالٰی نے عورت کو جسمانی لحاظ سے کمزور بنایا ہے لیکن عقل اور شعور کے لحاظ سے وہ مرد سے کسی صورت کم نہیں ہے ۔۔عورت پر پردے کی پابندی اور کچھ حدود صرف اسی کی بھلائی کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔ مرد اور عورت دونوں کی بھلائی کے لئے ہیں ۔۔۔ انسان غلطی کا پتلا ہے ۔۔ صرف عورت ہی نہیں مرد کا دھوکہ کھانا بھی امر حقیقی ہے ۔۔۔


شکریہ سارہ بہن ،آپ کسی حد تک تو تسلیم کرتی ہیں ، بہر کیف میرا مقصود دونوں‌سے ہے ، عورت کو خدا نے نازک بنا یا ہے اور یہی حقیقت ہے ، وگرنہ انسانی تاریخ میں (جنگلوں میں‌بھی) مرد گھر میں ہوتا اور عورت باہر دیگر دنیا داری کے امور سرانجام دیتی۔۔

( میں سلسلہ یہیں سے جاری کروں گا بجلی جاچکی ہے اور یو پی ایس چیں‌بول رہا ہے):yawn:
 

مغزل

محفلین
بعض وقت خواتین کے درمیان یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض روایتوں میں عورت کی مذمت کیوں ہوئی ہے اور اسے ناقص العقل کیوں کہا گیا ہے؟

جواب: اول یہ کہ:روایتوں میں یہ مذمت عورت کے اصل وجود سے متعلق نہیں ہے اس لئے کہ قرآن کریم کی نظر میں مرد اور عورت دونوں کا وجود ،کامل ہے ،مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے بلکہ یہ مذمت فقط بعض عورتوں سے متعلق ہے ۔در حقیقت یہ مذمت مردوں کے لئے ایک یاددہانی ہے کہ وہ بے تقویٰ اور گنہگار عورتوں کے فریب سے بچیں، اس بناء پر یہ مذمت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں بلکہ مردوں سے بھی مربوط ہے ، جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ منافق، شریر، بدمعاش، احمق، حاسد، بخیل، جھوٹے اور فاسد لوگوں کی ہمنشینی اختیار نہ کی جائے اور ان سے مشورہ نہ لیا جائے یہ ایک ایسا عقلی قانون ہے کہ جسے دنیا میں تمام عقلمند انسان قبول کرتے ہیں کہ اگر کوئی سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے تو اس طرح کے لوگوں سے دوری اختیار کرے۔
لہٰذا مرداور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگر چہ مرد کی بہ نسبت عورت کے اندر کشش اور جاذبہ زیادہ پایاجاتا ہے ،مگر اسلام سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ صرف ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو عورت کی مذمت میں آئی ہے پھر بھی سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔
خلاصہ مطلب:
جب ہم قرآن کریم کی آیتوں اور روایتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو متوجہ ہوتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں بہادر مومن مرد ہیں اسی طرح بہادر مومنہ عورتیں بھی ہیں جس طرح مردوں میں شریر افراد پائے جاتے ہیں اسی طرح شریر،عورتوں میں بھی ہیں جبکہ مردوں کی شرارت عورتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ،چونکہ قدرت وطاقت مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے عام طورسے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں جہاں بھی عورتوں کی جانب سے ایک جرم سرزد ہوتا ہے اسے کئی مرتبہ فاش کیا جاتا ہے جبکہ مردوں کے جرائم کا مقائسہ عورتوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ: بعض روایتوں میں یہ مذمت زمانے کے ایک خاص حصہ میں بعض عورتوں سے متعلق ہے اور یہ عورتوں ہی سے مخصوص نہیں ہے اس کے لئے زمانے کے ایک خاص حصہ میںبعض مرد یابعض شہروں کے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ مذمت دلیل نہیں ہے کہ عورت یا مرد یا فلاں شہر ہمیشہ کے لئے قابل مذمت ہو اور اس کے برعکس بعض روایتوں میں بعض شہروں کے لوگ اچھائی کے ساتھ یاد کئے گئے ہیں تو یہ دلیل نہیں ہے کہ ان شہروں کے لوگ ہمیشہ کے لئے نیک اور متقی ہوں، بعض عورتوں کے متعلق یہ مذمتیں بصورت موقت ہیں۔ تیسرے یہ کہ: کہا گیا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ عورت عقل کے لحاظ سے نقص رکھتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم مرد کا عورت سے مقائسہ کرتے ہیں تو مرد کو عورت سے سخت اور محکم پاتے ہیں اور قد کے لحاظ سے وہ عورت سے بلند ہے اور عورت مرد سے بہت نازک اور قد کے اعتبار سے چھوٹی ہے ،ان اسی کی بہ نسبت اس کا مغز مرد کے مغز سے بہت چھوٹا ہے ۔
اسی بنیاد پر فقیہ عالیقدر آیت اللہ شہید مطہری فرماتے ہیں:
''متوسط مرد کا مغز متوسط عورت کے مغز سے بڑاہوتا ہے لیکن عورت کے تمام جسم کی بہ نسبت اس کا مغز مرد کے مغز سے بڑا ہے ،اس بناء پر عورت ایک ناقص العقل وجود کا نام نہیں ہے ''۔
چوتھے یہ کہ:اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عقل کا ایک معنی اجرائی امور میں فکر وتدبر کرنا ہے اور ایک طرف اجرائی منصب بہت مشکل اور سخت ہے ، عورت کے لطیف اور نازک جسم کے مناسب نہیں ہے لہٰذا خداوند حکیم نے اجرائی امور میں اس کے فکر وتدبر کی قدرت وطاقت کی بہ نسبت اسے بہت کم ودیعت کی ہے اس لئے کہ اجرائی منصب کوئی ایسامقام نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے عورت کی شان وشوکت میں کوئی کمی پیداہو،وہ مرد ہی ہے جو سب سے زیادہ اجرائی امور اوراجتماعی کاموں سے سروکار رکھتا ہے اور دوسری طرف چونکہ عورت خانوادہ اور سماج میں فطرت کے مطابق تربیت اور اخلاق کی بنیاد ہے اسی لئے مرد کی بہ نسبت اس کی محبت کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہاں اصل میں کس موضوع پر بات ہو رہی ہے؟
اصل موضوع فرار ہونے والے جوڑے کو ہلاک کرنے کے بارے میں تھا۔ اس ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے عورت کے ناقص العقل ہونے پر مقالہ پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
 

مغزل

محفلین
کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہاں اصل میں کس موضوع پر بات ہو رہی ہے؟
اصل موضوع فرار ہونے والے جوڑے کو ہلاک کرنے کے بارے میں تھا۔ اس ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے عورت کے ناقص العقل ہونے پر مقالہ پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یقینا َ ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے کہا، مگر سوالات کی ذیل میں دیگر جواب بھی آپ اور دیگر دوستوں کے مراسلات سے نکلے ہیں جب میں وضاحت کرچکا تھا۔(آپ کے مراسلے کے بعد) کہ میرا موضوع اور میری رائے ’’ پریمی جوڑے ‘‘ کے حوالے سے تھی تو اس سوال کو اتنا آگے کیوں بڑھا یا گیا ، ( اب چونکہ سلسلہ بڑھ گیاتھا سو وضاحت پیش کرنا مقصد ہے ، ) مزید سوالات کیوں اٹھائے گئے ، بہرکیف آپ چاہیں تو لڑی یونہی چھوڑی جاسکتی ہے کہ میں نے اسی موضوع پر فورم میں ایک اور لڑی دیکھی ہے ۔ اس کا ربط بھی دیے دیا ہے کوئی اتفاق کرنے نہ کرے یہ اس کی صوابدید پر ہے ، میں اللہ کے حضور شرمندہ نہیں کہ میری مراد عورت کی تنقیص نہیں‌تھی ایک رائے اور اس حقیقیت پر گفتگو تھی یہاں فورم پر موجود خواتین اور مرد حضرات کو ناگوار گزرا میں معافی کا خواستگا ر ہوں ۔ والسلام
 

مغزل

محفلین
کیا میں جان سکتا ہوں کہ یہاں اصل میں کس موضوع پر بات ہو رہی ہے؟
اصل موضوع فرار ہونے والے جوڑے کو ہلاک کرنے کے بارے میں تھا۔
اس ظلم پر پردہ ڈالنے کے لیے عورت کے ناقص العقل ہونے پر مقالہ پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

صاحب ظلم پر پردہ کون کافر ڈا ل رہا ہے ، اسلام کی رو سے گھر سے عورت کا فرار آشنا کے ساتھ یا غیر آشنا کے ساتھ جائز نہیں، سو اس کی سزا بھی ہےمرد نے اکسایا اس کی بھی سزا ہے ، دونوں ہی مجرم ہیں ، اسلام کی رو سے دی جانے والی سزا میں تحریف و تخفیف جائز نہیں یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے ۔ بہت شکریہ۔ باقی وضاحت میں اوپر کے مراسلات میں کرچکا ہوں ۔ فقط واللہ اعلم و بالصواب
 

مغزل

محفلین
کیا یہ بات کسی حدیث یا آیت میں کہی گئی ہے کہ عورت کچے ذہن کی ہوتی ہے اس لئے اس پر پابندیاں ہیں ؟:confused:
کیا پبندیاں صرف عورت پر ہیں اسلام میں مرد پر کوئی پابندی نہیں ؟ اسے شرم و حیا کی پاسداری کرنے کو نہیں کہا گیا ؟:rolleyes:
کیا پتا عورت پر پابندیاں اللہ پاک نے اس لئے لگائی ہوں کہ ان میں مردوں کا ہی بھلا ہو ۔۔۔:rolleyes:
عورت گھر سے فرار ہوئی تو وہ کچے ذہن کی ہو گئی ؟ اور مرد جو فرار ہونے پر اکساتا ہے وہ عقل کل ہے‌ اس نے بہت بڑی ذہانت کا کام کیا ہے ؟:idontknow:

مرد اور عورت دونوں کے لیے ہی پابندیاں ہیں میں نے مردو ں کو بری نہیں کیا ۔ سارہ بہن۔
مرد کی سزا بھی زیادہ ہے ، رہی بات آپ کے سوال کی ’’ کیا پتا عورت پر پابندیاں اللہ پاک نے اس لئے لگائی ہوں کہ ان میں مردوں کا ہی بھلا ہو‘‘ یہ تو اللہ تعالی سے ہی پوچھیے اسلام میرے گھر کی کھیتی نہیں اور نہ ہیں میں کوئی مفتی ہوں میں نے اپنی استعداد کے مطابق جواب دیا ہے الزا م نہیں‌لگا یا ،۔ اور نہ ہی میرا مقصود دل آزاری ہے ۔ میں عورت کو اسلام کی رو سے دیئے جانے والے مقام اور قیو د پر ایمان رکھتا ہوں ، اور مرد پر لگائی گئی حدود پر بھی ۔۔ اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ اس رو سے اپنی زندگی گزاروں ، مگر آزادی کے نام پر مردو عورت کے ملنے ملانے پر اسلام ہی کی رو سے عقیدہ رکھتا ہوں سو کوئی طنزکرے یا تضحیک میرا مطمحِ نظر یہی ہے ۔ اللہ مجھے بہتری کی توفیق اور استقامت عطافرمائے آمین ۔
 

مغزل

محفلین

زکریا صاحب یہ آپ کا ذاتی فعل ہے ، اور رہی بات میری سوچ کی تو میں اسی پر مطمعن ہوں‌جو اسلام نے ہمارے لیے طے کیا ہے ، میں اسی ملک میں‌رہنا پسند کرتا ہوں اور اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی فضا میں کرنا چاہوں گا ، مجھے گوار ا نہیں‌ کہ میری بہن بیٹی کسی کے ساتھ ڈیٹ پر جائے یا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گلچھرے اڑاتی پھرے ، اللہ سبھی کی بہنوں بیٹوں کو عزت و آبرو کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
 

مغزل

محفلین
ایک بار پھر اپنی بات کا اعادہ کرتا ہوں اور اس پیغام کے ساتھ یہ سلسلہ میری جانب سے ختم ، تاوقتیکہ کوئی سوال و جواب کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے ۔ والسلام

جی ہاں ‌صاحب یہ اخلاقی اور مذہبی طور پر درست نہیں کہ گھر والوں سے بغاوت کرکے فرار ہوا جائے ، کسی لڑکی یا لڑکے کا آپس میں ملنا ، عشق کے پیچے لڑانا جائز نہیں، اسلام نے مرضی کا حق ضرور دیا ہے مگر اس کی اجازت نہیں دی کہ معاشرتی حدود اور اخلاق سمیت گھر والوں کی عزت پر بٹہ لگا کر شادی کی جائے ۔ وگرنہ کل میری بہن بیٹی بھی مرضی کے نام پر گھر سے فرار ہوجائے ، پھر تو سبھی فرار ہوجائیں، معاشرے میں تنزلی کی سب سے بڑی وجہ یہی بے راہ روی ہے ۔۔ جناب عورت کچے ذہن کی ہوتی ہے ، اس لیے اس کا دھوکہ کھانا امرِ حقیقی ہے ، اسلام نے عورت کو تقدس دے کے ایسے ہی نہیں کچھ پابندیوں‌میں رکھا کہ وہ اسی کے لیے بہتر ہے ، اور اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔۔ واللہ اعلم بالصواب
 

ظفری

لائبریرین
صاحب ظلم پر پردہ کون کافر ڈا ل رہا ہے ، اسلام کی رو سے گھر سے عورت کا فرار آشنا کے ساتھ یا غیر آشنا کے ساتھ جائز نہیں، سو اس کی سزا بھی ہےمرد نے اکسایا اس کی بھی سزا ہے ، دونوں ہی مجرم ہیں ، اسلام کی رو سے دی جانے والی سزا میں تحریف و تخفیف جائز نہیں یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے ۔ بہت شکریہ۔ باقی وضاحت میں اوپر کے مراسلات میں کرچکا ہوں ۔ فقط واللہ اعلم و بالصواب

ًمغل صاحب ! کیا آپ " اِس سزا " کی وضاحت کرسکتے ہیں کہ " اسلام کی رُو " سے اس طرح کے فرار میں مرد و عورت کے لیئے کیا سزا مقرر ہے ۔ ؟
 

زیک

مسافر
صاحب ظلم پر پردہ کون کافر ڈا ل رہا ہے ، اسلام کی رو سے گھر سے عورت کا فرار آشنا کے ساتھ یا غیر آشنا کے ساتھ جائز نہیں، سو اس کی سزا بھی ہےمرد نے اکسایا اس کی بھی سزا ہے ، دونوں ہی مجرم ہیں ، اسلام کی رو سے دی جانے والی سزا میں تحریف و تخفیف جائز نہیں یہ اس سے بھی بڑا جرم ہے ۔

کیا سزا ہے؟
 
Top