آج کے ترقی یافتہ دور میں اسلامی معاشرہ میں جو تعلیم نسواں یا مدرسہ نسواں نظر آتا ہےاسے دیکھ کر بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت کہان ہے؟ عہد رسالت کی مشہور تعلیم گاہ ویونیورسٹی جو دنیا میں اہل صفہ کے نام سے متعارف ہے، اس میں صحابیات اور بنات اسلام کا ذکر ملتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لئے ایک حدیث ہی کافی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک باب اپنی صحیح کے اندر قائم کیا ہے: "ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم" اور اس باب کے تحت جو حدیث لائے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں عورتوں کے اندر علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے اجتماعی طور پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تعلیم کے لئے کوئی انتظام فرمادیجئے۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ایک دن کا وعدہ کیا جس میں ان کو وعظ ونصیحت کرتےاور دینی باتوں کا حکم فرماتے تھے (
۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اسلام میں ارشادات نبویہ کے حصول کا کس قدر شوق وجذبہ تھا۔
اگر اس قسم کے لوگ کتب رجال کی ورق گردانی کریں تو انہیں صحابیات، تابعیات اور مختلف ادوار کی روایات ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے، جنہوں نے حفاظت حدیث کے تعلق سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں مل سکتی، فن حدیث ہی کیا شرعی علم وفن کوئی بھی ہو اس میں عورتوں کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے، فن تفسیر ہو یا حدیث، فقہ ہو یا اصول، ادب ہو یا بلاغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے جان توڑ خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں پیچھے رہتیں تو آج اسلامی دنیا مسائل نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی، نکاح وطلاق کے مسائل ہوں یا جماع ومباشرت کے ازدواجی زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکلات، اگر اس قسم کے الجھے اور پیچ مسائل کا حل ہمیں ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔
- خواتین اسلام اور علم حدیث:
ابتدائے اسلام سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے حدود شریعت میں رہتے ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر شعبہ زندگی میں حصہ لیا اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا، خواتین اسلام نے علم حدیث کی جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی سب سے پہلی نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں، اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔
- صحابیات:
صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ایک درجہ اور مرتبہ کی نہین تھیں اور نہ سب کو یکساں طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت نصیب ہوئی تھی، اس لئے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی، کیونکہ حدیث کی خدمات کے لئے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی، اس لئے اس سلسلہ میں ان کی خدمات سب سے زیادہ ہیں، یوں تو صحابیات کی مجموعی تعداد حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے احصاء کے مطابق (1545) ہے، لیکن جنہوں نے روایت حدیث کے ذریعہ حفاظت حدیث کا بیڑا اٹھایا ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گئی ہے اور ان سے بڑے بڑے صحابہ کرام اور جلیل القدر ائمہ نے علم حاصل کیا ہے (9)، علامہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وما لکل واحد من العدد" کے اندر کم وبیش (125) صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی کل تعداد (2560) ہے جن میں سب سے زیادہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، حضرت عائشہ مکثرین رواۃ صحابہ میں سے ہیں، ان کی مرویات کی تعداد (2210) ہے (10)، جن میں (286) حدیثیں بخاری ومسلم میں موجود ہیں، مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے (11)، مرویات کی کثرت کے ساتھ احادیث سے استدلال اور استنباط مسائل، ان کے علل واسباب کی تلاش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی صفت میں بہت کم صحابہ ان کے شریک تھے، کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔
امام زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں: "کانت عائشۃ اعلم الناس یسالہا الاکابر من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" (12)، یعنی حضرت عائشہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی تھیں، بڑے بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ دوسری جگہ اس طرح رقمطراز ہیں: "اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا" (13)۔
حضرت عائشہ فتوی اور درس دیا کرتی تھیں، یہی نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کی لغزشوں کی بھی نشاندہی فرمائی، علامہ جلال الدین سیوطی اور زرکشی رحمہما اللہ نے اس موضوع پر "الاصابۃ فیما استدرکتہ عائشۃ علی الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے، حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے (14) ۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا علم حدیث میں ممتاز نظر آتی ہیں، علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں: "کان ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحفظن من حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم کثیرا مثلا عائشۃ وام سلمۃ" (15)، یعنی عام طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھتی تھیں، مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام سلمہ سے (37
حدیثیں مروی ہیں (16)۔ ان کے فتوے بکثرت پائے جاتے ہیں، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے "اعلام الموقعین" میں لکھا ہے: "اگر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فتوے جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے (17)، ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقہ میں ہے۔ ان کے تلامذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔ ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حصہ لیا اور ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں، جیسے حضرت میمونہ ہیں۔ ان سے (76)، ام حبیبہ سے (65)، حفصہ سے (60)، زینب بنت جحش سے (11) جویریہ سے (7) سودہ سے (5)، خدیجہ سے (1)، مزید براں آپ کی دونوں لونڈیوں میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہن سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔
امہات المومنین کے علاوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے کوئی نہ کوئی روایت موجود نہ ہو، چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے (1
، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ سے (11) حدیثیں مروی ہیں (1
۔ عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل سے (30) حدیثیں مروی ہیں، حضرت ام سلیم اور ام رومان سے چند حدیثیں مروی ہیں، ام سلیم سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے، ایک بار کسی مسئلہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت میں اختلاف ہوا تو دونوں نے ان ہی کو حکم مانا (19)۔ حضرت ام عطیہ سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان سے مردہ کو نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے (20) ۔