بین الاقوامی منڈی میں تیل کی کم ہوتی ہوئی طلب کے باعث سعودی عرب کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں کہ وہ حج اور عمرہ کے ذریعے اپنی آمدن کے ذرائع میں اضافہ کرے۔
چنانچہ آج سے دو سال قبل سعودی اخبارات میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق سعودی حکومت نے اگلے پانچ سال میں یعنی 2022 تک حج اور عمرہ کی مد میں حاصل ہونے والے ریوینیو کو بڑھا کر ایک سو پچاس ارب ڈالرز تک کردینا تھا۔
اس پالیسی کے تحت ہر سال سعودی حکومت نے حج اور عمرے کے اخراجات میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔ موجودہ سال 2019 میں یہ اضافہ تقریباً ستر فیصد تک ہوچکا جس کی چیدہ چیدہ تفصیلات سکرین شاٹ میں لگا دی گئی ہیں۔
یہ اخراجات کی وہ مد ہے جو حکومت پاکستان کی بجائے سعودی عرب کے پاس جاتی ہے۔ اس پر نظر دوڑائیں تو بلڈنگ کرایہ سے لے کر ٹرانسپورٹ، کھانے پینے کے اخراجات، ٹرین کا کرایہ، مدینہ میں رہائش، حتی کہ قربانی تک کے اخراجات میں اضافہ کردیا گیا۔
پچھلے سال یہ اخراجات ایک لاکھ چھتیس ہزار چار سو روپے تھے جو کہ اس سال بڑھ کر دو لاکھ 41 ہزار سات سو چالیس ہوچکے۔
اسی طرح ویزہ فیس سے لے کر مختلف ایڈمنسٹریٹو اخراجات میں بھی بیش بہا اضافہ ہوچکا۔ موجودہ حج پالیسی میں سبسڈی ہٹا دی گئی لیکن حج فیس میں سے حکومت ایک ٹکا بھی اپنی جیب میں نہیں ڈالے گی - سب کچھ سعودی عرب میں ہی خرچ ہوگا اور وہاں کی حکومت کے طے کردہ اخراجات کے تحت ہی خرچ ہوگا۔
واضح رہے کہ ان حکومتی وزیر علی محمد خان نے ان اخراجات کی تفصیل سینیٹ میں جمع کروا دی ہے جہاں تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائیندگی موجود ہے۔ اگر ان جماعتوں کو لگتا ہے کہ یہ اعدادوشمار غلط ہیں تو منسٹر علی محمد خان کی تقریر کو بنیاد بناتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کریں - سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
لیکن جس طرح پچھلے پانچ ماہ میں ن لیگ، پی پی، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے کارکنان نے سوائے جھوٹ بولنے کے اور کچھ نہیں کیا، اسی طرح حج اخراجات کے معاملے میں بھی یہ لوگ ہمیشہ کی طرح اپنا منہ کالا کرکے آخرت میں رسوائی کا سامان ہی کریں گے۔
بقلم خود باباکوڈا