اقراء خلیل
محفلین
مجھے اس عنوان پہ تقریر لکھنی ہے۔مگرسمجھ نہیں آ رہا کہ عنوان کا مقصد کیا ہے اور مقرر کو حاضرین کی توجہ کس جانب دلانی چاہئے۔
برائے مہربانی اپنی آراء سے مستفید کیجئے۔
برائے مہربانی اپنی آراء سے مستفید کیجئے۔
اردو محفل پر خوش آمدید !!!مجھے اس عنوان پہ تقریر لکھنی ہے۔مگرسمجھ نہیں آ رہا کہ عنوان کا مقصد کیا ہے اور مقرر کو حاضرین کی توجہ کس جانب دلانی چاہئے۔
برائے مہربانی اپنی آراء سے مستفید کیجئے۔
اردو محفل پر خوش آمدید !!!
ہماری رائے میں شاعر جب زخموں کا تذکرہ کرتا ہے ، اس کی مراد ان دکھوں سے ہوتی ہے جو وہ سہہ رہا ہے۔ ان دکھوں کا اظہار کہہ کر کیا جاسکتا ہے، لکھ کر کیا جاسکتا ہے یا آنسو بہا کر ۔ ان تینوں اظہار کے طریقوں میں آنسو بہانا شاید موثر ترین ہوگا۔
کاجل دھلنے سے مراد آنسوؤں کا بہنا ہے، جن سے آنکھوں کا کاجل بہہ کر گویا دھل جاتا ہے۔ رونے سے یا آنسو بہانے سے اپنے زخموں یا دکھوں کا اظہار بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ قدرت نے انسان کو رونے کا تحفہ ایک بہت بڑی نعمت کے طور پر دیا ہے۔ آنسو بہاکر انسان نہ صرف اپنے دکھوں ، غموں کا اظہار کرسکتا ہے، بلکہ کئی اور جذبوں کا اظہار بھی آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے، مثلاً، غم، غصہ، پشیمانی وغیرہ۔ رونے سے انسان کے اندر کا غم و غصہ باہر آجاتا ہے اور اس کی طبعیت ہلکی بھی ہوجاتی۔ علیٰ ھٰذا القیاس
یہی کہ زخموں کو آنسوؤں کے ذریعے قوتِ گویائی مل گئی۔ انسان نے آنسوؤں کی مدد سے اپنے دکھوں کا اظہار کرنا سیکھ لیا۔زخموں کے کلام کرنے کے کیا معنی اخذ ہو گے؟
میرا طالبعلمانہ سا خیال ہے کہ زخم کا وجود ہی تو ناظرین کیلئے ایک طرح کا خاموش لیکن بلیغ تکلم ہے۔یہی کہ زخموں کو آنسوؤں کے ذریعے قوتِ گویائی مل گئی۔ انسان نے آنسوؤں کی مدد سے اپنے دکھوں کا اظہار کرنا سیکھ لیا۔
آپ درست کہ رہے ہیں ۔مقرر کو ان زخموں کی تمہید باندھنی ہوگی جسکی وجہ سے آنسو آئے۔وہ زخم جو حاضرین بھی محسوس کر سکیں۔
آپ کے خیال میں قومی سطح کے مسائل اور انکی وجہ سے لوگوں کو ملنے والے زخم کا تذکرہ ہو گا یا پھر ڈومیسٹک وائلینس کی طرح کے زخم؟
روائتی پیرائے سے آپ کی کیا مراد ہے؟طالب علم کے نزدیک قومی سطح کے مسائل ہی بہتر ہیں لیکن اگر انہیں کسی جاندار پیرائیے میں سامنے لایا جائے کیونکہ روایتی پیرایہ نہ صرف لوگو ں کو بیزار کر چکا ہے بلکہ اپنے اندر کافی ساری قباحتوں کو سموئے ہوئے ہے۔
باقی اگر تخیل کی تان پر الفاظ کی دھمال ڈلوائیں تو سماعتوں کی بھوک کا اچھا انتظام ہو سکتا ہے۔لیکن بہتر یہی ہے جب آپ اپنا قیمتی وقت کسی مضمون کی تشکیل کیلئے نکال رہے ہیں تو مضمون کی روح اور مدعا حقیقت ہونا چاہیے۔
واہ، خلیل بھیا! کیا بات ہے!اردو محفل پر خوش آمدید !!!
ہماری رائے میں شاعر جب زخموں کا تذکرہ کرتا ہے ، اس کی مراد ان دکھوں سے ہوتی ہے جو وہ سہہ رہا ہے۔ ان دکھوں کا اظہار کہہ کر کیا جاسکتا ہے، لکھ کر کیا جاسکتا ہے یا آنسو بہا کر ۔ ان تینوں اظہار کے طریقوں میں آنسو بہانا شاید موثر ترین ہوگا۔
کاجل دھلنے سے مراد آنسوؤں کا بہنا ہے، جن سے آنکھوں کا کاجل بہہ کر گویا دھل جاتا ہے۔ رونے سے یا آنسو بہانے سے اپنے زخموں یا دکھوں کا اظہار بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ قدرت نے انسان کو رونے کا تحفہ ایک بہت بڑی نعمت کے طور پر دیا ہے۔ آنسو بہاکر انسان نہ صرف اپنے دکھوں ، غموں کا اظہار کرسکتا ہے، بلکہ کئی اور جذبوں کا اظہار بھی آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے، مثلاً، غم، غصہ، پشیمانی وغیرہ۔ رونے سے انسان کے اندر کا غم و غصہ باہر آجاتا ہے اور اس کی طبعیت ہلکی بھی ہوجاتی۔ علیٰ ھٰذا القیاس
تقریر کس موقع کی مناسبت سے ہے؛ یہ معلوم ہو جائے تو معاملہ کھلے گا۔مقرر کو ان زخموں کی تمہید باندھنی ہوگی جسکی وجہ سے آنسو آئے۔وہ زخم جو حاضرین بھی محسوس کر سکیں۔
آپ کے خیال میں قومی سطح کے مسائل اور انکی وجہ سے لوگوں کو ملنے والے زخم کا تذکرہ ہو گا یا پھر ڈومیسٹک وائلینس کی طرح کے زخم؟
یہ معلوم نہیں ہے۔اس عنوان کو کس جانب کھینچنا ہے یہ مقرر پر منحصر ہے۔تقریر کس موقع کی مناسبت سے ہے؛ یہ معلوم ہو جائے تو معاملہ کھلے گا۔
روائتی پیرائے سے آپ کی کیا مراد ہے؟
واہ! یہ تو نثری شاعری ہے۔وہ پیرایہ جو ہماری معاشرتی محفلوں میں اختیار کیا جاتا جسمیں تنقید اتنی پیور ہوتی ہے کہ نستعلیق طبائع اس کی سڑانڈ سے بدکتے پھرتے ہیں ۔ پیرایہ اتنا نفیس ہونا چاہیے کہ تنقید سننے والا مسکرا اٹھے لیکن جب مسکراہٹ کے بادل چھٹیں تو آنکھوں میں کوئی تکلیف چوٹ کی نہیں اعتراف کی تیر رہی ہو۔
یہ تو یاقوتی نثر ہےواہ! یہ تو نثری شاعری ہے۔
بہت عمدہ لکھا ہے۔ واہ!پیرایہ اتنا نفیس ہونا چاہیے کہ تنقید سننے والا مسکرا اٹھے لیکن جب مسکراہٹ کے بادل چھٹیں تو آنکھوں میں کوئی تکلیف چوٹ کی نہیں اعتراف کی تیر رہی ہو۔
محفل کے سارے پیران مغان ""ذمہ دار "" ہیں اسکے۔ہا ہاہاہاہاہا ہاہا ہابہت عمدہ لکھا ہے۔ واہ!