جاسم محمد
محفلین
کاروبار نہیں چل رہے، بزنس لیڈروں کی آج آرمی چیف سے ملاقات
Last Updated On 02 October,2019 08:25 am
کراچی: (دنیا کامران خان کے ساتھ) اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی کاروباری صنعت میں جمود اور ڈپریشن ہے، ملکی معیشت خطرناک حد تک بے چینی کا شکار ہے، وزیر اعظم عمران خان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے چیدہ چیدہ بزنس مین بہت پریشان ہیں۔ بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت کسی کرپشن میں ملوث ہے یا حکومت تاجروں کو ہراساں کر رہی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بزنس لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے حکومت کی کوئی مستحکم پالیسی نہیں، دوسرا وہ سمجھتے ہیں کاروبار کرنے کی راہ میں مشکلات بڑھ رہی ہیں، مشکلات روزانہ بڑھ رہی ہیں، آسانیاں پیدا نہیں ہو رہی ہیں، حکومتی مشینری میں اہلیت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے چیدہ بزنس مینوں سے میری بات ہوئی ہے ان میں ایک ڈپریشن کی کیفیت ہے۔ وزیر اعظم بہت پرجوش اور پر عزم نظر آتے ہیں۔ وہ فیصلے کرتے نظر آتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، اس پس منظر میں آج بزنس لیڈرز کی درخواست پر ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اہم ملاقات ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ درجن بزنس لیڈر آرمی ہاؤس جائیں گے جہاں وہ آرمی چیف کے مہمان ہوں گے جہاں پر ان کی پاکستان کی معاشی اور کاروباری صورتحال کے حوالے سے آرمی چیف سے ملاقات ہو گی۔ آرمی چیف نے ان بزنس لیڈروں کو آج عشائیہ پر مدعو کیا ہے۔
میزبان کے بقول پاکستان کی موجودہ حکومت کو یہ بہت بڑی سہولت حاصل ہے کہ پاکستان میں تمام ادارے مستحکم انداز میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ریاست کے تمام ادارے خاص طور پر افواج پاکستان حکومت کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا براہ راست اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے کاروباری لوگوں اور تاجروں کی ہمت افزائی کرنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں حکومت کی معاونت کی ہے۔ جنرل باجوہ پاکستان کے کلیدی بزنس مینوں سے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملاقاتیں کرتے ہیں۔علاوہ ازیں وزیر اعظم کی معاشی ٹیم، ان کے مشیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور گورنرسٹیٹ بینک کو بھی آرمی چیف کی زبردست اور مسلسل حمایت حاصل ہے تا ہم اس وقت بزنس کمیونٹی بہت پریشان ہے، وزیر اعظم سے ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں، وہ بڑی دلجمعی سے ان کی باتیں سنتے ہیں، ان کی شکایات پر احکامات بھی دیتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا، طویل اجلاسوں کا نتیجہ صفر رہتا ہے، اس سلسلے کی ایک بہت بڑی میٹنگ 3 ستمبر کو ہوئی تھی، اس سے پہلے بھی وزیر اعظم نے ان سے ملاقاتیں کی تھیں، یہ آخری اجلاس تھا جو وزیر اعظم ہاؤس میں ان کی امریکا روانگی سے قبل ہوا تھا، اجلاس میں تمام ٹاپ بزنس لیڈر وں جن میں نشاط گروپ کے محمد منشا، الحبیب گروپ کے عارف حبیب ،طارق گروپ کے طارق سہگل سمیت کئی دیگر اہم بزنس لیڈرز موجود تھے۔ ان کی وزیر اعظم سے دو گھنٹے بات چیت ہوئی تھی لیکن ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایسی ملاقاتیں تو ہوتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ نہیں نکلتا، عملدرآمد نہیں ہوتا، بزنس لیڈرز پریشان اور افسردہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے یہ ممتاز بزنس لیڈرز اپنی شکایات کو پبلک میں لے آئے ہیں۔ یہ بڑی غیر معمولی بات ہے اور اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان کے کلیدی بزنس لیڈرز میڈیا پر آکر اپنی شکایات بیان کریں۔
لکی گروپ کے سی ای او محمد علی ٹبہ نے ٹی وی پر آکر اپنی شکایات پیش کیں اور بتایا کہ حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔ صورتحال اتنی غیر یقینی ہے کہ پتہ نہیں آگے روڈ میپ کیا ہے اور میرے خیال میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں، وزیر اعظم کی ذات کے حوالے سے شکایات نہیں، ان کے ماتحت نظام سے ہیں۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے حوالے سے بہت شکایات ہیں کہ وہ وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں، اس ضمن میں مختلف مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر وفاقی وزیر مراد سعید نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی ٹرک مقررہ مقدار سے زیادہ لوڈ لے کر نہیں جاسکتا، اس بارے میں ایک قانون سامنے لایا گیا تھا، اس سے سامان کی ترسیل کی لاگت دگنی ہو گئی تھی، ٹرکوں کی طلب بڑھ گئی، گڈز ٹرانسپورٹ سے منسلک لوگوں کی چاندی ہو گئی اور کاروباری لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں، وزیر اعظم نے احکامات د یئے کہ اس معاملے کو پرانی سطح پر لایا جائے، اس پر عملدرآمدبھی ہوا مگر اچانک وہ عملدرآمد روک دیا گیا، وزیر اعظم کے احکامات پر عملدرآمد کا فیصلہ نجانے کیسے ریورس ہو گیا، اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ریفنڈ کے التوا کی شکایت ہے وہ انتظار میں ہیں کہ ان کو ریفنڈ مل جائے۔ اب تک ریفنڈ بانڈز کی شکل میں ہوئی ہے اور بینک ان کو کیش کرنے کو تیار نہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس اور بجلی مقررہ سبسڈائزڈ ریٹس پر نہ ملنے کا شکوہ ہے، نئی صنعتوں کو بجلی گیس اور پانی کے کنکشن نہیں مل رہے۔ بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے بینکوں سے قرضہ لینے کا رجحان کم ہو گیا ہے، اس صورتحال میں اعتماد سازی کی ضرورت ہے، وزیر اعظم کو اپنی مشینری کو متحرک کرنا، ایک نیا سسٹم ترتیب دینا ہے۔ یہ نظام بالکل کام نہیں کر رہا اور آج بزنس لیڈرز آرمی چیف کو اپنے مسائل سے آگاہ کریں گے۔
Last Updated On 02 October,2019 08:25 am
کراچی: (دنیا کامران خان کے ساتھ) اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی کاروباری صنعت میں جمود اور ڈپریشن ہے، ملکی معیشت خطرناک حد تک بے چینی کا شکار ہے، وزیر اعظم عمران خان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے چیدہ چیدہ بزنس مین بہت پریشان ہیں۔ بے یقینی اور بے اطمینانی کی فضا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ عمران خان کی حکومت کسی کرپشن میں ملوث ہے یا حکومت تاجروں کو ہراساں کر رہی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بزنس لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے حکومت کی کوئی مستحکم پالیسی نہیں، دوسرا وہ سمجھتے ہیں کاروبار کرنے کی راہ میں مشکلات بڑھ رہی ہیں، مشکلات روزانہ بڑھ رہی ہیں، آسانیاں پیدا نہیں ہو رہی ہیں، حکومتی مشینری میں اہلیت نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے چیدہ بزنس مینوں سے میری بات ہوئی ہے ان میں ایک ڈپریشن کی کیفیت ہے۔ وزیر اعظم بہت پرجوش اور پر عزم نظر آتے ہیں۔ وہ فیصلے کرتے نظر آتے ہیں لیکن وزیر اعظم کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، اس پس منظر میں آج بزنس لیڈرز کی درخواست پر ان کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اہم ملاقات ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے تقریباً ڈیڑھ درجن بزنس لیڈر آرمی ہاؤس جائیں گے جہاں وہ آرمی چیف کے مہمان ہوں گے جہاں پر ان کی پاکستان کی معاشی اور کاروباری صورتحال کے حوالے سے آرمی چیف سے ملاقات ہو گی۔ آرمی چیف نے ان بزنس لیڈروں کو آج عشائیہ پر مدعو کیا ہے۔
میزبان کے بقول پاکستان کی موجودہ حکومت کو یہ بہت بڑی سہولت حاصل ہے کہ پاکستان میں تمام ادارے مستحکم انداز میں حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ریاست کے تمام ادارے خاص طور پر افواج پاکستان حکومت کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا براہ راست اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے کاروباری لوگوں اور تاجروں کی ہمت افزائی کرنے اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں حکومت کی معاونت کی ہے۔ جنرل باجوہ پاکستان کے کلیدی بزنس مینوں سے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملاقاتیں کرتے ہیں۔علاوہ ازیں وزیر اعظم کی معاشی ٹیم، ان کے مشیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور گورنرسٹیٹ بینک کو بھی آرمی چیف کی زبردست اور مسلسل حمایت حاصل ہے تا ہم اس وقت بزنس کمیونٹی بہت پریشان ہے، وزیر اعظم سے ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں، وہ بڑی دلجمعی سے ان کی باتیں سنتے ہیں، ان کی شکایات پر احکامات بھی دیتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا، طویل اجلاسوں کا نتیجہ صفر رہتا ہے، اس سلسلے کی ایک بہت بڑی میٹنگ 3 ستمبر کو ہوئی تھی، اس سے پہلے بھی وزیر اعظم نے ان سے ملاقاتیں کی تھیں، یہ آخری اجلاس تھا جو وزیر اعظم ہاؤس میں ان کی امریکا روانگی سے قبل ہوا تھا، اجلاس میں تمام ٹاپ بزنس لیڈر وں جن میں نشاط گروپ کے محمد منشا، الحبیب گروپ کے عارف حبیب ،طارق گروپ کے طارق سہگل سمیت کئی دیگر اہم بزنس لیڈرز موجود تھے۔ ان کی وزیر اعظم سے دو گھنٹے بات چیت ہوئی تھی لیکن ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایسی ملاقاتیں تو ہوتی ہیں لیکن ان کا نتیجہ نہیں نکلتا، عملدرآمد نہیں ہوتا، بزنس لیڈرز پریشان اور افسردہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے یہ ممتاز بزنس لیڈرز اپنی شکایات کو پبلک میں لے آئے ہیں۔ یہ بڑی غیر معمولی بات ہے اور اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان کے کلیدی بزنس لیڈرز میڈیا پر آکر اپنی شکایات بیان کریں۔
لکی گروپ کے سی ای او محمد علی ٹبہ نے ٹی وی پر آکر اپنی شکایات پیش کیں اور بتایا کہ حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں۔ صورتحال اتنی غیر یقینی ہے کہ پتہ نہیں آگے روڈ میپ کیا ہے اور میرے خیال میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں، وزیر اعظم کی ذات کے حوالے سے شکایات نہیں، ان کے ماتحت نظام سے ہیں۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے حوالے سے بہت شکایات ہیں کہ وہ وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد کرانے میں ناکام نظر آتے ہیں، اس ضمن میں مختلف مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر وفاقی وزیر مراد سعید نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی ٹرک مقررہ مقدار سے زیادہ لوڈ لے کر نہیں جاسکتا، اس بارے میں ایک قانون سامنے لایا گیا تھا، اس سے سامان کی ترسیل کی لاگت دگنی ہو گئی تھی، ٹرکوں کی طلب بڑھ گئی، گڈز ٹرانسپورٹ سے منسلک لوگوں کی چاندی ہو گئی اور کاروباری لوگوں کی چیخیں نکل گئی تھیں، وزیر اعظم نے احکامات د یئے کہ اس معاملے کو پرانی سطح پر لایا جائے، اس پر عملدرآمدبھی ہوا مگر اچانک وہ عملدرآمد روک دیا گیا، وزیر اعظم کے احکامات پر عملدرآمد کا فیصلہ نجانے کیسے ریورس ہو گیا، اس قسم کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ریفنڈ کے التوا کی شکایت ہے وہ انتظار میں ہیں کہ ان کو ریفنڈ مل جائے۔ اب تک ریفنڈ بانڈز کی شکل میں ہوئی ہے اور بینک ان کو کیش کرنے کو تیار نہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گیس اور بجلی مقررہ سبسڈائزڈ ریٹس پر نہ ملنے کا شکوہ ہے، نئی صنعتوں کو بجلی گیس اور پانی کے کنکشن نہیں مل رہے۔ بڑھتی ہوئی شرح سود کی وجہ سے بینکوں سے قرضہ لینے کا رجحان کم ہو گیا ہے، اس صورتحال میں اعتماد سازی کی ضرورت ہے، وزیر اعظم کو اپنی مشینری کو متحرک کرنا، ایک نیا سسٹم ترتیب دینا ہے۔ یہ نظام بالکل کام نہیں کر رہا اور آج بزنس لیڈرز آرمی چیف کو اپنے مسائل سے آگاہ کریں گے۔