سید عمران
محفلین
ورنہ خود قربانی کا بکرا بن جاؤ۔۔۔قربانی کے بکرے خریدو اور بیچو۔ ۔
ورنہ خود قربانی کا بکرا بن جاؤ۔۔۔قربانی کے بکرے خریدو اور بیچو۔ ۔
محض اطلاعا عرض ہے ساگا کا مالک موچی نہیں تھا لیکن کام بے شک اس نے چھوٹے لیول سے شروع کیا تھا اور بعد میں سیالکوٹ کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن گیا جس کی ایکسپورٹ آج سے پندرہ بیس سال پہلے بھی اربوں روپے میں تھی۔ لیکن اس فیکٹری کو بند ہوئے بھی دس سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا، جتنا اس فیکٹری کا عروج کمال کا تھا اتنا ہی زوال بھی۔[/QUOTE][QUOTE="کعنان, post: 1823647, member: 2881"
مثال کے لئے، سیالکوٹ میں ساگا نام سے ایک کمپنی ہے جو پوری دنیا میں سپورٹس پر ایکسپورٹ کرتی ہے، اس کا مالک موچی تھا جو کمپنیوں سے فٹ بال لا کر سیا کرتا تھا جس سے اس نے اپنا چھوٹا سا کام شروع کیا اور آج ساگا کمپنی کا مالک ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ان کا پہلا پیشہ یہی رہا ہو۔ ویسے یہ کہ سیالکوٹ میں فٹ بال سینا ایک ایسا ہی ہنر ہے جیسے کہ دوسرے اور مختلف ذاتوں اور پیشوں اور بیک گراؤنڈز کے لوگ اور خواتین (کسی زمانے میں بچے بھی) فٹ بال سیتے ہیں۔ شاید صوفی خورشید صاحب بھی پہلے پہل سیتے ہوں۔ موچی عموما جوتے ہی سیتے ہیں اور یہ پیشہ پشت در پشت چلتا ہے۔السلام علیکم
موچی جوٹی کانٹنے والے کو ہی نہیں کہتے، فٹبال کی سلائی، کو بھی موچی کہتے ہیں، خیر میں ایک عرصہ سیالکوٹ بھی رہا ہوں اور جن کے پاس رہا ہوں وہ خود مینوفیکچر اور ایکسپورٹر تھے، انہی کی زبانی ساگا کا آنر فٹ بال سیا کرتا تھا، اور کراچی پورٹ سے اسی کا مال باہر جاتا ہے باقی دوسرے ایکسپورٹرز کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے بڑی مشکل سے کسی بھی طرح وہ اپنا مال باہر بھیج پاتے ہیں۔ خیر ان کے زوال کا تو علم نہیں تھا، پھر بھی آپ اگر ان کے قریب ہیں تو آپکی بات بھی درست ہو گی، جن سے مجھے علم ہوا وہ بھی غلط نہیں تھے۔
والسلام
وارث بھائی بری بات آپ تو مذاق اڑا رہےآپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کہ والد صاحب نے اتنی رقم آپ کو دے دی۔ بہتر تو یہ ہے کہ آپ انتہائی ادب و احترام سے یہ رقم والد صاحب کو واپس کر دیں کہ ابا جی اس سے کوئی کاروبار خود کر لیں اور جب یہ پچاس لاکھ ہو جائیں تو تب مجھے دیجیے گا
مذاق ہر گز نہیں اڑا رہا، آپ بعد کے مراسلے بھی دیکھ لیں۔ یہ سچ ہے عموما والدین نوجوانوں کو کاروبار کے لیے پیسے نہیں دیتے۔وارث بھائی بری بات آپ تو مذاق اڑا رہے
اللہ چاہے تو برکت دے اس پانچ لاکھ میں بھی۔ اور ہر انسان شروع تو زیرو سے ہی کرتا ہے کروڑ پتی تو کوئی بھی نہیں ہوتا نہ ہی ہر ایک کے پاس سٹارٹ میں اتنے پیسے ہوتے ہیں
تینوں پیروں پر تین لڑیاں کھولی جانی چاہییں۔ہو سکتا ہے کہ ان کا پہلا پیشہ یہی رہا ہو۔ ویسے یہ کہ سیالکوٹ میں فٹ بال سینا ایک ایسا ہی ہنر ہے جیسے کہ دوسرے اور مختلف ذاتوں اور پیشوں اور بیک گراؤنڈز کے لوگ اور خواتین (کسی زمانے میں بچے بھی) فٹ بال سیتے ہیں۔ شاید صوفی خورشید صاحب بھی پہلے پہل سیتے ہوں۔ موچی عموما جوتے ہی سیتے ہیں اور یہ پیشہ پشت در پشت چلتا ہے۔
میں خود بھی بارہ سال تک اُن دو فیکڑیوں میں کام رہتا ہوں جن کی ایک پراڈکٹ فٹبال بھی تھے، بلکہ آج سے بیس سال پہلے آئی ایل او، فیفا اور سیالکوٹ چیمبر نے فٹبال انڈسٹری میں چائلڈ لیبر ختم کرنے کا جو پروگرام شروع کیا تھا، اس میں میں اپنی کمپنی کی طرف سے کوارڈینٹر تھا اور یہی میری پہلی جاب تھی۔ اور اس سلسلے میں سیالکوٹ کے دو دراز گاؤں کے چکر بھی خوب لگائے کہ جہاں سلائی مرکز ہوتے تھے اور وہاں چھاپے مارتے تھے ہم بھی اور آئی ایل او بھی کہ کوئی بچہ نہ کام کر رہا ہو۔
ساگا کا زوال بڑا دردناک ہے۔ ایک لمبی کہانی ہے، مشرف صاحب کی حکومت نے ایک آن ڈیوٹی کرنل کو ساگا کا چیف ایگزیکٹو بھی بنا دیا تھا کہ شاید بچ جائے لیکن یہ بھی خام خیالی تھی، کرنل صاحب بیچارے نے اس میں کیا بھی کر لینا تھا۔
اس کا مختصر تعارف ہو جائے پھر کسی وقت، چاہے ایک پیراگراف سہیہو سکتا ہے کہ ان کا پہلا پیشہ یہی رہا ہو۔ ویسے یہ کہ سیالکوٹ میں فٹ بال سینا ایک ایسا ہی ہنر ہے جیسے کہ دوسرے اور مختلف ذاتوں اور پیشوں اور بیک گراؤنڈز کے لوگ اور خواتین (کسی زمانے میں بچے بھی) فٹ بال سیتے ہیں۔ شاید صوفی خورشید صاحب بھی پہلے پہل سیتے ہوں۔ موچی عموما جوتے ہی سیتے ہیں اور یہ پیشہ پشت در پشت چلتا ہے۔
میں خود بھی بارہ سال تک اُن دو فیکڑیوں میں کام رہتا ہوں جن کی ایک پراڈکٹ فٹبال بھی تھے، بلکہ آج سے بیس سال پہلے آئی ایل او، فیفا اور سیالکوٹ چیمبر نے فٹبال انڈسٹری میں چائلڈ لیبر ختم کرنے کا جو پروگرام شروع کیا تھا، اس میں میں اپنی کمپنی کی طرف سے کوارڈینٹر تھا اور یہی میری پہلی جاب تھی۔ اور اس سلسلے میں سیالکوٹ کے دو دراز گاؤں کے چکر بھی خوب لگائے کہ جہاں سلائی مرکز ہوتے تھے اور وہاں چھاپے مارتے تھے ہم بھی اور آئی ایل او بھی کہ کوئی بچہ نہ کام کر رہا ہو۔
ساگا کا زوال بڑا دردناک ہے۔ ایک لمبی کہانی ہے، مشرف صاحب کی حکومت نے ایک آن ڈیوٹی کرنل کو ساگا کا چیف ایگزیکٹو بھی بنا دیا تھا کہ شاید بچ جائے لیکن یہ بھی خام خیالی تھی، کرنل صاحب بیچارے نے اس میں کیا بھی کر لینا تھا۔
جی ہیں تو یہ موضوع اسی قابل لیکن بس ۔۔۔۔۔۔۔۔تینوں پیروں پر تین لڑیاں کھولی جانی چاہییں۔
مختصرا یہ کہ یہ ہاتھی اپنے بوجھ ہی سے مر گیا۔ صوفی خورشید صاحب، ساگا کے مالک، اکیلے تھے اور کام مینیجرز پر چھوڑا ہوا تھا، انہوں نے کام دکھا دیا، یعنی یہ کہ آڈر ساگا کے نام پر لیتے، بنواتے ساگا کے خرچے پر اور پیسے اپنے اکاؤنٹ میں، جب اوپر والے طبقے کا یہ حال تھا تو نیچے کرپشن کے دریا بہہ گئے۔ پھر صوفی صاحب کی حادثاتی موت ہو گئی، اپنی ہی فیکٹری کے تیسرے چوتھے فلور سے گر کر، قیاس آرائیاں یہی تھیں کہ قتل ہوئے کہ راز افشا ہو رہے تھے۔ ان کے بعد انکی بیوی (شاید دوسری) اور بیٹیاں تھیں، نرینہ اولاد نہیں تھی، انہوں نے فیکٹری بند کرنا چاہی تو سینکڑوں ملازمین، مزدوروں اور ہزاروں ٹھیکے پر سلائی کرنے والوں کی مفادات کی وجہ سے گورنمنٹ کو مداخلت کرنی پڑی، پھر شاید عدالتوں تک بھی بات پہنچی۔ بلآخر صوفی صاحب کی بیگم نے فیکٹری بند کی، سب کچھ بیچا اور بچیوں کو لے کر دبئی چلی گئیں اور نواز شریف فیملی کے کسی فرد سے دوسری شادی کر لی۔ اس وقت ان کی فیکٹری کے کم از کم بارہ چودہ مینیجرز اپنی اپنی فیکڑیوں کے مالک ہیں، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔اس کا مختصر تعارف ہو جائے پھر کسی وقت، چاہے ایک پیراگراف سہی
ہاں جی،ابا جی کی ایک ہی بات ہوتی ہے اب تک جو میں نے سنی ہے۔مذاق ہر گز نہیں اڑا رہا، آپ بعد کے مراسلے بھی دیکھ لیں۔ یہ سچ ہے عموما والدین نوجوانوں کو کاروبار کے لیے پیسے نہیں دیتے۔
مختصر اور عبرتناکجی ہیں تو یہ موضوع اسی قابل لیکن بس ۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصرا یہ کہ یہ ہاتھی اپنے بوجھ ہی سے مر گیا۔ صوفی خورشید صاحب، ساگا کے مالک، اکیلے تھے اور کام مینیجرز پر چھوڑا ہوا تھا، انہوں نے کام دکھا دیا، یعنی یہ کہ آڈر ساگا کے نام پر لیتے، بنواتے ساگا کے خرچے پر اور پیسے اپنے اکاؤنٹ میں، جب اوپر والے طبقے کا یہ حال تھا تو نیچے کرپشن کے دریا بہہ گئے۔ پھر صوفی صاحب کی حادثاتی موت ہو گئی، اپنی ہی فیکٹری کے تیسرے چوتھے فلور سے گر کر، قیاس آرائیاں یہی تھیں کہ قتل ہوئے کہ راز افشا ہو رہے تھے۔ ان کے بعد انکی بیوی (شاید دوسری) اور بیٹیاں تھیں، نرینہ اولاد نہیں تھی، انہوں نے فیکٹری بند کرنا چاہی تو سینکڑوں ملازمین، مزدوروں اور ہزاروں ٹھیکے پر سلائی کرنے والوں کی مفادات کی وجہ سے گورنمنٹ کو مداخلت کرنی پڑی، پھر شاید عدالتوں تک بھی بات پہنچی۔ بلآخر صوفی صاحب کی بیگم نے فیکٹری بند کی، سب کچھ بیچا اور بچیوں کو لے کر دبئی چلی گئیں اور نواز شریف فیملی کے کسی فرد سے دوسری شادی کر لی۔ اس وقت ان کی فیکٹری کے کم از کم بارہ چودہ مینیجرز اپنی اپنی فیکڑیوں کے مالک ہیں، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
یاد رہے اب پورے سیالکوٹ میں ساگا کا کوئی بھی نام لیوا نہیں صوفی صاحب کے فوت ہونے کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔مثال کے لئے، سیالکوٹ میں ساگا نام سے ایک کمپنی ہے جو پوری دنیا میں سپورٹس پر ایکسپورٹ کرتی ہے، اس کا مالک موچی تھا جو کمپنیوں سے فٹ بال لا کر سیا کرتا تھا جس سے اس نے اپنا چھوٹا سا کام شروع کیا اور آج ساگا کمپنی کا مالک ہے۔
بھائی بلال ٢٦٠ اپ کو شاید معلوم نہیں ہے؟ ساگا کا نام ہمیشہ سیالکوٹ کیا پوری دنیا میں رہے گا جب بھی کبھی کھیلوں کی بات ہو گی لوگ کہیں نہ کہیں تو ساگا کو یاد کریں گے ضرور.یاد رہے اب پورے سیالکوٹ میں ساگا کا کوئی بھی نام لیوا نہیں صوفی صاحب کے فوت ہونے کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا۔
جس کی وجہ سے ساگا ساگا تھی اس کے مٹی (قبر) میں مل جانے کے بعد ساگا بھی مٹی ہو گئی سیالکوٹ میں کوئی بھی اب ساگا کو نہیں جانتا۔