غزل قاضی
محفلین
کاروبار
دماغ شَل ہے ، دل ایک اک آرزُو کا مدفن بنا ہؤا ہے
اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہؤا ہے
نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہؤا بےکنار پانی
بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی
سحر سے بےزار ، رات سے بےنیاز ، لمحات سے گُریزاں
نہ فِکرِ فردا ، نہ حال و ماضِی، نہ صُبحِ خنداں ، نہ شامِ گِریاں
پُکارتا ہے کوئی تو کہتا ہُوں ! اِس کو سُن کر بھی کیا کرو گے
اِدھر گُزر کر بھی کیا مِلے گا ، اُدھر نہ جا کر بھی کیا کرو گے
شفق نظر کا فریب ہے تتلِیوں کی رنگت میں کُچھ نہیں ہے
فراق میں کیا طِلسم ہوگا جب اُس کی قُربت میں کُچھ نہیں ہے
لہُو کی گرمی ہے کم سِنی کی دلِیل ، اِس سے نجات پاؤ
یہ نظم تکمِیل پا کے بھی کیا کرے گی ۔۔۔۔ دفتر کے کیس لاؤ
( مصطفٰی زیدی از قبائے سَاز )
دماغ شَل ہے ، دل ایک اک آرزُو کا مدفن بنا ہؤا ہے
اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہؤا ہے
نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہؤا بےکنار پانی
بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی
سحر سے بےزار ، رات سے بےنیاز ، لمحات سے گُریزاں
نہ فِکرِ فردا ، نہ حال و ماضِی، نہ صُبحِ خنداں ، نہ شامِ گِریاں
پُکارتا ہے کوئی تو کہتا ہُوں ! اِس کو سُن کر بھی کیا کرو گے
اِدھر گُزر کر بھی کیا مِلے گا ، اُدھر نہ جا کر بھی کیا کرو گے
شفق نظر کا فریب ہے تتلِیوں کی رنگت میں کُچھ نہیں ہے
فراق میں کیا طِلسم ہوگا جب اُس کی قُربت میں کُچھ نہیں ہے
لہُو کی گرمی ہے کم سِنی کی دلِیل ، اِس سے نجات پاؤ
یہ نظم تکمِیل پا کے بھی کیا کرے گی ۔۔۔۔ دفتر کے کیس لاؤ
( مصطفٰی زیدی از قبائے سَاز )
آخری تدوین: