''کاری عورت ''

منظر کشی قابل داد ہے.الفاظ کے چناءو میں بهی ضروری احتیاط برتی گئ ہے مگر کسی کسی جگہ لڑکهڑاہٹ بهی ہوئ ہے.جیسے لکها گیا کہ "۔پہاڑوں نے ہر اوٹ سے وادی کو گھیر رکھا تھا۔ " اسکی جگہ اگر یوں بیان کیا جاتا کہ " وادی چہار سو پہاڑوں میں گہری ہوئ تهی"
مجموعی طور پر تعریف کے قابل ہے.لکهتی رہیں اللہ آپکو اہل قلم اور اس ادبی سفر کی ممزل مقصود تک پہنچائے
 

نور وجدان

لائبریرین
چھٹا منظر
عبد الولی خان اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ گاڑی میں سوار گاؤں کے وڈیرے ،جرگہ کے سربراہ کے پاس جا رہا تھا۔ عمیر اور اکبر دونوں کو اپنے باپ سے بہت پیار تھا۔ دونوں نے اکثر و بیشتر اس کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

'' تم کو پتا ہے آج ہم سردار شاہ زین سے ملنے جارہا ہے ، تم کو ان کی دست بوسی کرنا ہے ، اب تم لوگ بڑے ہورہے ہو تمہیں رسم و رواج کا پابند بننا ہے ''

عبد الولی خان کی گاڑی سردار شاہ زین کی حویلی پہ رکی ۔ وہ اور دونوں لڑکے گاڑی سے اترے ۔دونوں بیٹوں نے سلام اور دست بوسی کی ۔ اس کے بعد ولی خان نے ان کو اشارہ کیا ،وہ باہر کی طرف ہولے ۔

سردار شاہ زین شام کو اکثر جرگہ میں بیٹھا کرتا تھا۔ درختوں کی اوٹ میں اس کا چارپائی نما بیڈ پڑا ہوا تھا۔ چاروں طرف چارپائیاں ۔۔۔۔! عقابی آنکھیں ، گھنگھریالے بال ، سرخ رنگت ، لمبی ریشم کی جھالر کی طرح نرم ڈارھی اور کلف لگے سفید کرتے ،شلوار ، سر پر دستار باندھے پنچائیت میں بیٹھے تمام بندوں سے نمایاں لگ رہا تھا۔

سردار شاہ زین کے ساتھ ایک بہت ہی معمر ہستی بیٹھی ہوئی تھی ۔ سفید چوغے نما لباس ، باریش ڈارھی سے وہ کوئی بڑی مذہبی شخصیت لگ رہے تھے ۔ بہت سے لوگ ان کی دست بوسی کر تے وقت انہیں امام بہروز بلا رہے تھے ۔ ولی نے دونوں ہستیوں کو سلام کیا اور دست بوسی کی ۔ پھر ایک درخت کے پاس والی چارپائی پر وہ بیٹھ گیا۔ جیسے وہ سب کے رخصت ہونے کا انتظار کر رہا ہو۔ جب سب آہستہ آہستہ کرکے چلے گئے تو اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔


'' میں شادی کرنا چاہتا ہوں ، امام بہروز احمد سے اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ وہ راضی ہیں مگر کہتے ہیں جب تک پہلی بیوی اجازت نہی دے گا تب تک تم شادی نہی کر سکے گا، آپ کی رائے لینے آیا ہوں ، سائیں آپ کی رائے سر آنکھوں پر ۔۔ آپ سے کیا چھپانا۔۔۔!! میری بیوی مجھ میں دلچسپی نہیں رکھتی ، میرا خیال نہی کرتی ۔۔۔ !!

سردار شاہ زین نے ' ولی ' کو دیکھا ساتھ ساتھ مونچھوں کو تاؤ دینے لگا۔

''ٹھیک ہے !! اگر وہ اجازت دیتی ہے تو کرلے شادی ۔ ہم بھی شریک ہوئے گا تری شادی میں''

عبد الولی نے نے امام بہروز کی طرف دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا ۔ امام نے سردار شاہ زین سے رخصت کی اجازت مانگی ۔ شاہزین سردار کی حویلی سے نکلنے کے بعد دونوں قدم بہ قدم چلتے ہوئے مسجد کے حجرے میں داخل ہوئے ۔ مسجد گو کہ پرانے زمانے کی تھی اس کی آرائش و زیبائش کسی مغل شاہ کے دور کا نمونہ لگ رہا تھا۔ بڑا سا گنبد اور ساتھ مینار دور سے ہی آنے والوں کی مسجد کی پہچان کرو دیتا تھا۔ مسجد کے اطراف میں دکانیں اور کہیں کہیں گھر تھے ۔ حجرے کا فرش جدید ایرانی قالینوں سے سجایا گیا تھا۔ دیوایں البتہ اینٹوں سے بنی ہوئی تھی ۔ ایک تخت اور سامنے چھوٹی سی میز پڑی تھی ۔دیواروں میں خانے بنائے گئے تھے جہاں مذہبی کتابی پڑھی تھیں ۔ امام بہروز تخت پر بیٹھے تھے اور ان کے سامنے ولی ۔ دونوں کے چہرے تنے ہوئے تھے جیسے ایک دوسرے سے ناخوش ہوں ۔ کئی لمحات تک خاموشی کی دبیز چادر چھائی ہوئی ۔ خاموشی کی لہر کو توڑتے ہوئے امام بہروز مخاطب ہوئے :

'' تم جو کرنے جارہا ہے وہ جرم ہے ۔ تم جانتا ہے عبد الحمید نے قتل کیا ہے ۔ اس کو اسکے کیے کی سزا ملنی چاہیے ۔ ہمارا دین کہتا ہے خون کا بدلہ خون ہے اور تم کہتا ہے اس کو چھوڑ دو ۔۔ کمال کی بات کرتے ہو ولی خان ۔!!!''

ولی نے امام کی چہرے پر خفگی کو خاطر نہ لاتے ہوئے کہا:

'' اگر مجرم کو سزا ملتی تو تم یہاں بیٹھا ہوتا۔ تم کو یاد ہے ہم اکٹھا جوا کھیلا کرتا تھا۔ ایک دن تم اپنی حدود تجاور کر گئے ۔جس دن تم ہار گیا تھا ۔ میں نے اور تم نے جیتنے والے جواری کو قتل کرکے سارا مال اپنے پاس رکھ لیا تھا۔۔۔۔! تم اور میں اکٹھا جیل گیا تھا ۔ میں نے تم نے سزا اکٹھی کاٹی ۔ بس تم جلد رہا ہوگیا اور میں نے اپنی سزا کا مدت پورا کیا۔۔۔۔ ''

'' تم بھول گیا ہے سب۔۔۔؟ ولی کا انداز جارحانہ تھا۔ تھوڑا سا توقف کرکے وہ پھر بولا :

'' آج تم نیا علاقہ میں امام بنا بیٹھا ہے ۔۔ تماری اصلیت میں سب کو بتا دوں تو تماری بنی بنائی عزت خاک میں مل جائے گی ''

امام کے ہاتھ تسبیح کے دانوں کو اور زور سے پھینکنے لگے ۔ جیسے وہ اپنا سارا غصہ ان دانوں پر نکال دینا چاہتے ہو ۔ اپنے تاثرات کو قابو میں رکھتے ہوئے بولے :

'' تم کیا چاہتے ہو عبدالحمید کو سزائے موت نہ ملے ۔۔۔ ہم جرگہ میں اس کی حمایت میں بولے گا اور کوشش کرے گا اس کو سزا نہ ملے ''

'' میں چاہتا ہوں تم اس کے جرم کا سارا ریکارڈ پولیس اسٹیشن سے غائب کردو ۔۔ یہ تمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔ اس کا معاملہ جرگے میں آنا نی چاہیے ۔۔ تم کو پتا ہے ہم زبان دے چکاہے عبد الحمید کو ۔۔ اس سے سودا کر چکا ہے ۔۔ اس کا بیٹی سے شادی کرنے والا ہے ''

امام نے سر اثبات میں ہلا دیا اور یقین دلایا کہ کل وہ خود اس کے ساتھ پولیس اسٹیشن چلے گا۔دونوں نے معانقہ کیا اور پھر مصافحہ کیا۔ ولی امام بہروز کی مسجد سے رخصت ہو گیا۔


صبح سویرے ولی خان نماز پڑھنے مسجد گیا ۔وہیں سے عبدالحمید کے پاس جیل چلے گئے ۔ تھانے کے انچارج سے سلام دعا کے بعد ولی عبدا لحمید کے پاس چلا گیا۔ امام تھانے کے انچارج کے پاس بیٹھا دینی مسائل پر گفتگو کرتا رہا۔ یکایک باہر سے فائرنگ کی آواز آئی ۔ تھانہ انچارج نے اپنی جگہ چھوڑی اور باہر کی طرف بھاگا۔ اب امام بہروز نے اپنا کام شروع کر دیا۔ عبد الحمید کی ریکارڈ فائل ڈھونڈتا رہا۔ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑا کیونکہ اس کا کیس ابھی ابھی آیا تھا۔ امام نے فائل اٹھا اپنے چوغے میں چھپا لی ۔ یہاں سے فائلز سیدھا سردار شاہ زین کے پاس جایا کرتی تھیں تمام فیصلے وہیں ہوا کرتے تھے ۔ کافی دیر ہوگئی تھانہ انچارج نہ آیا تو امام اس کے کمرے سے نکل کر جیل خانے کی طرف مڑ گیا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اس کو آنے میں دیر لگے گی اور نہ ہی فائرنگ کرنے والے لوگوں کا نام و نشان ملنا تھا۔


. عبد الولی جیل کے اس حصے میں گیا جہاں عبد الحمید تھا۔. جیل کے اس کمرے میں ایک معمر شخص تھا. جیل کے باہر اسکی بیٹی اور بیٹا کھڑے ہوئے تھے. یہ ان کی ملاقات کا وقت تھا. ولی نے اس دوشیزہ کو بہت غور سے دیکھا. پھر جیل کے نگران سے کہ کر اس کا قفل کھلوایا.اس معمر شخص سے مخاطب ہوا...
" تمھاری رہائ کے دن قریب آرہے ہیں. تم ان بند سلاخوں سے تب تک نہ نکل سکے گا جب تک تمارا بیٹی کی شادی ہم سے نہ ہو جا ئے. "
"ہہم!!! ہم نے تم کو بولا تھا جب تک تم اپنی پیلی بیوی کو طلاق نئی دے گا تب تک ہم خدیجہ کی شادی تم سے نہیں کرے گا. ...!!! تم کو یہ بھی بولا تھا جب تک سردار شاہ زین ہمیں عزت سے احترام سے اعلانیہ لوگوں کے سامنے رہا نہیں کرے گا ام سودا پورا نہیں کرے گا..

ولی خان نے سامنے کھڑی خدیجہ کو دیکھا اور بولا
"تم فکر نہ کرو عبد الحمید تمارا دونوں کام ہوجائے گا، جب زبان دی جائے یا سودا کیا جا ئے عبد الولی خان پیچھے نہیں ہٹتا.پھر وہ وہاِں سے اٹھ کے خدیجہ کے پاس گیا۔.اسکے ہاتھ کو بوسہ دیا .... جدیجہ پیچھے کو ہوئی ... وہ سترہ برس کی نوخیز لڑکی تھی. ولی اس کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھا. اس کو دیکھا اور بولا

"مرد کو اگر گھوڑا پسند آجائے تو اس پر سواری کیے بغیر رہتا نہیں چاہے گھوڑا جتنا اڑیل ہو سواری میں اتنا ہی مزا آتا ہے .... تم تو پھر ایک عورت ہے .. ... تم خوش تو ہے اس سودے پر؟ "

خدیجہ نے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا اور جیل کی سلاخوں کے اندر بیٹھے اپنے باپ کو... اور جواب دیا۔

''ہاں ۔۔!!!ہمارا باپ راضی ہے وا ہم بھی ... مگر جب تک میرے باپ کو رہائی نہیں مل جاتی ...ہم تمارا بات نہیں مان سکتا''

تب ہی امام بہروز اس کو آتا دکھائی دیا۔ اس نے آکر عبدالحمید کو تسلی دی کہ وہ باعزت رہا ہوجائے گا۔ پھر ولی کے ساتھ تھانے سے باہر کو ہولیا۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ساتواں منظر
نوروز گو کہ منایا جاچکا تھا مگر بہار اپنا روپ ، رنگ اس وادی میں بار بار دکھا کر نازک اندام حسینہ کی طرح اوجھل نہیں ہوتی تھی ۔ جب دھوپ بھی چڑھتی تو یوں لگتا کہ درختوں پر لگے پھل اسی کی آس میں تو جی رہے ہیں ۔ ان کی تمازت سورج سے نکلنے والی شعاعوں اور ندی کے ٹھنڈے ٹھار پانی میں چھپی ہوئی تھی ۔۔۔پانی کی '' چھن چھن '' کی آواز ، جھرنوں کے گرنے کا منظر ، ہرے بھرے میدان میں زرمینے اور عائشہ کو کھیلتے دیکھ کر گھاگھر میں ملبوس گل مینے کے چہرے پر مسکراہٹ آگئ ۔ پھر دو قدم چل کر ان کے ساتھ مل کر کھیلنا ، ساتھ میں نصیحت شروع کردی کہ دونوں بہنوں کو ایک دوسرے کا خیال بالکل اس طرح رکھنا ہے جس طرح میں اور آمنہ خالہ ایک دوسرے کا رکھتے ہیں ۔ان کو اپنے ساتھ لگا کر پیار کرنے لگی ۔۔ خالہ کا نام سنتے ہی زرمینے اور عائشہ نے شور مچا دیا کہ انہوں نے خالہ سے ملنا ۔ گل مینے خود بھی ان سے ملنا چاہ رہی تھی ۔وہ تینوں کچھ ہی دیر میں گرد سے اٹے کچے ناہموار راستوں سے ہوتے ہوئے آمنہ کے گھر پہنچ گئے ۔ دروازہ آمنہ نے کھولا ۔۔آمنہ کو گل مینے کا چہرہ دیکھ کر پریشانی لاحق ہوئی اور اس سے پوچھا کہ اسکے چہرے پر کیا ہوا ہے ۔۔!! گل مینے نے اسکو ساری کہانی بتادی ۔ اور ہمیشہ کی طرح چند پیسے اسکے حوالے کرتے ہوئے بولی :

'' یہ پیسے ہم تمارے پاس اس لیے رکھوا رہا، کل کو یہ بچیاں جب جوان ہویں گے تو ہم ان کا شادی ان پیسوں سے کروں گے ، اگر کل پرسوں ہم کو کچھ ہو گیا تو ہم سے تم وعدہ کرو ، تم ان کی دیکھ بھال کرو گی ''

آمنہ سوچنے لگی دنیا بھی کیا عجیب رنگ دکھاتی ہے ، جن کا شادی ہوجاتا ہے وہ بھی مشکل میں ، جن کا نہی ہوتا وہ مری طرح پاک بی بی بنا دی جاتی ہے ۔۔ عورت کو عزت کی مسند تب دی جاتی ہے جب وہ اپنی ہستی کو ختم کرلے اپنی بنیادیں ضرورتوں کو ختم کرلے ،اپنی بھوک پیاس پہ جبر کرلے ۔مجھے یوں لگے ہے میں نے صدیوں سے روزہ رکھا ہے یہ روزہ میری شامِ زندگی میں جا کر ٹوٹے گا۔ گل مینے ! اس کے بعد عائشہ ، زرمینے ۔۔۔ کیا ان دونوں کو بھی صوم صلوۃ کا پابند بنا دیا جائے گا ۔ صرف اس لیے کہ وہ عورت ذات ہے یا ان میں سے ایک ' گل مینے '' بنے گی ۔۔۔ آمنہ ان سوچوں میں گم تھی کہ اسے گل مینے کی خود کی آواز مادی دنیا میں واپس کھینچ لائی ۔۔ گل مینے اس کو جھنجھوڑ رہی تھی ، شاید وہ بے حس اتنی ہو گئ تھی کہ اب اسے انسان کے لمس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ آمنہ نے گل مینے کو کہا :

'' تم فکر نہ کرو ہم ان کا خیال خود سے بڑھ کر رکھے گا ۔۔ یہ ہماری بیٹیاں ہیں ۔۔۔ تمارے بیٹے کیسے ہیں ؟

'' وہ ہم سے نفرت کرتا اے ، ان کو بھی ولی نے اپنا جیسا بنا لیا ہے ، وہ کہتا ہے ہم غلط ہے ۔۔۔ اور ولی خان جو کرتا ہے وہ ٹھیک ہے ۔۔ ہم نے ان کو بوت سمجھایا وہ اماری بات سنتا نہی ۔۔۔''

آمنہ نے ایک صندوق نکالا ، جو کمرے میں موجود بیڈ کے نیچے پڑا تھا۔ اس میں اپنے کپڑوں کے اندر پیسے دبا دیے ۔۔ بغیر گنےوہ گل مینے کے پیسے اس صندوق میں رکھتی آرہی تھی ۔

'' اچھا ہم چلتا ہے ۔۔ عبد الولی آتا ہوگا ۔۔۔ ''

وہ گھر پہنچیں ۔۔ گل مینے نے اپنا برقعہ اتارا ۔ اتنے میں ولی آگیا۔۔۔ اس کا چہرا اور اسکی سرخی غصے اور نفرت کا پتا دے رہے تھے ۔۔

وہ عقاب کی طرح بڑھا اور زرمینے کی گردن دبوچ لی ؛

'' اب بھی وقت ہے مان جا ، اگر تم اپنا اور اپنی بچیوں کی جان کی سلامتی چاہتا ہے تو ہماری بات مان جا ۔۔ یہ ہم تمہیں آخری بار کہ رہا ہے ''

'' نہ ہی ن نہی مان مانے گا۔۔۔ '' اسکے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی ۔۔اس کا جواب سن کر گردن اور زور سے دبوچ دی گئ یوں لگا زرمینے کی سانسیں بند ہو گئیں ۔۔۔۔ ولی نے جب دیکھا یہ بات نہیں مان رہی ۔۔۔اس کو زور سے پڑے صوفے پر پھینکا اور کہا۔۔۔

'' تم بوت پچھتائے گا ۔۔۔ اب ہم جو بھی کرے گا ہم کو تم قصوروار نی کہ سکتی ، ہم تم کو اب خرچے کا کوئی پیسا بھی نہیں دے گاتم خود کو ان بچیوں کو میرے گھر سے لے جاؤ ۔میں جب آؤں تو تمہیں یہاں نئی پاؤں ۔۔۔ '' یہ کہ کر بھناتا ہوا وہ چلا گیا ۔۔ عمیر اور اکبر بھی اپنے باپ کے پیچھے اسکے ہمراہ ہو لیے ۔۔۔

گل مینے کے حواس غائب ہوچکے تھے کچھ دیر بعد اس کو ہوش آیا تو ولی خان کے جملے اس کے دماغ میں گردش کرنے لگے ۔ اس نے اپنا اور بیٹیوں کا سامان اٹھایا اور آمنہ کے گھر چلی گئی ۔
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آوازِ دوست

محفلین
اتنی مختصر سی قسط ہے کہ ہمیں چوّنی والا سینیما یاد آ گیا جسے لوگ کچی ٹاکی بھی کہا کرتے تھے بندہ سیچویشن سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا ہوتا تھا کہ ٹکڑا ختم ہو جاتا۔ اَب نکالیں نئی چوّنی آگے دیکھنے کے لیے :)
 

نور وجدان

لائبریرین
آٹھواں منظر
گل مینے صبح صبح اُٹھی ۔ گھر میں ناشتہ بنایا اور کام کاج کرکے وہ اب برقعہ پہن رہی تھی ۔آمنہ نے اس سے پوچھا کہ تم کہا جارہی ہو ۔اس نے بتایا اسے کہ اس نے نوکری شروع کردی ہے ۔

''وہ بیچ بازاز میں احمد یار خان کا گھر ہے ، وہ رنڈوا ہے ، اسکا بیٹا چھوٹا ہے اس کی دیکھ بھال اور گھر کا کام کاج کرتا ہے ، پیسا کماتا ہے ۔ وہ معذور ہے دوسرا شادی بھی نہی کر سکتا '' یہ کہ کر گھر سے روانہ ہوگئی۔

احمد یار خان کے گھر جانے سے پہلے وہ بازار گئی ۔سودا لیا تاکہ وہاں کا کام بھی کرسکے ۔ وہاں کی عورتوں سے بات چیت کی ۔ وہیں اس نے ولی خان کو کھڑے دیکھا جو اس کے جانے کے بعد بھی وہاں کی عورتوں سے رازداری ست گفت و شنید میں مصروف تھا ۔اس کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ احمد کے گھر روانہ ہوگئ ۔ تین کمروں کا گھر تھا ۔ جس میں کچن لاؤنج سے منسلک تھا ۔گھر کے پچھلے حصے میں اصطبل تھا ۔ احمد کو گھوڑے پالنے کا بہت شوق تھا۔ احمد لگ بھگ پینتالیس کے قریب تھا۔ میانہ قد ، جسامت میں بھاری تھا۔اسکے بال ترشے ہوئے تھے ،روز کی طرح وہ آج کام پر نہ جا سکا ، اسکے بیٹے بہرام کی طبیعت خراب تھی ۔ اصطبل میں چلا گیا ۔ اسکے پاؤں میں لنگ اسکے چلنے پر اور واضح ہوتا تھا۔ گل مینے جب آئی وہ اپنے عربی النسل گھوڑں کی نگاہ ہی نگاہ میں ستائش میں مصروف تھا۔ اس نے گھر میں کھانا پکایا ۔پھر بہرام کے پاس آکر اس کا بخار چیک کیا۔ وہ تپ رہا تھا۔ اسکے ماتھے پر ٹھنڈی پانی سے پٹیاں رکھنے لگی ۔ساتھ ساتھ اس کو ناشتہ کرایا ۔

جب دوپہر ہونے کو تھی وہ جانے لگی ۔ بہرام نے اسکو ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکا۔ چھوٹا سا آٹھ سال کا بچہ ماں کی ممتا سے محروم اکیلے پن سے خوف کھا رہا تھا۔ وہ وہیں اس کے پاس بیٹھی رہی ۔ کام سے اتنی چور تھی اس کو پتا ہن نہ چلا اسے کب نیند آئی ۔۔۔ جب وہ اٹھی تو شور مچا ہوا تھا ۔ اسکے شوہر نے احمد یار خان کے گھر کے قریب سب کو اکٹھا کیا ہوا تھا ۔احمد یار خان شور سن کے گھر کےاندر والے حصے میں آیا تو عبد الولی کو چیختے پایا۔

'' یہ عورت فاحشہ ہے ، یہ دیکھو احمد یار خان کے سوئی ہوئی تھی ۔ اس کو جینے کا کوئی حق نہیں ''

گاؤں کی سب عورتیں اور مرد اکٹھے ہوگئے ۔ سب اس پر تھو تھو کرنے لگے ۔ اتنے میں ولی امام بہروز خان کو بلا لایا ۔۔۔ !!! اور بولا :

'' امام دیکھو ، اس فاحشہ کو ۔۔۔۔ !! اس نے بوت بڑا گناہ کیا ہے ۔ اس کو سزا ملنا چاہیے ۔۔ اسکی سزا قتل ہے ''

امام نے گل مینے اور احمد یار خان کو دیکھا اور مجمع کو دیکھا ۔ اور کہا

''اس عورت کو 'کاری ' کیا جائے گا ۔ اس نے گناہ کیا ہے ۔۔۔ یہ اسکے بستر پر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ یہ گناہ ہے ''

گل مینے اس صورتحال میں بے چارگی و لاچارگی کی مکمل تصویر لگ رہی تھی ۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا ۔ جیسے وہ کوئی وضاحت نہیں دینا چاہتی ۔ احمد تذبذب کے عالم میں کھڑا صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہ کچھ بولتا کہ امام بہزاد اس کو علیحدہ کمرے میں لے گیا۔ اس کو دھمکی دی اگر تم چاہتے ہو تمہیں اس کے ساتھ '' کارو'' نہ کیا جائے تو یہیں پہ اس راز کو اپنے سینے میں دفن کر لو ورنہ تمہارے بعد تمہارے بیٹے کا کوئی وارث نہ ہوگا۔۔۔

سردار شاہ زین ،امام اور ولی خان مجمع کے سامنے کھڑے تھے ۔ سب گاؤں کے مردوں کو اکٹھا کر لیا گیا تھا۔ ایک بہت بڑا ہجوم تھا جس میں یہ اعلان کیا گیا ''گل مینے ،ولی خان کی بیوی ایک فاحشہ ہے ، اسکی سزا قانون کے مطابق دی جائے گی ۔ سردار شاہ زین کو یقین نہیں آرہا تھا ۔وہ کشکمش کی حالت میں تھا کہ وہ اسکا فیصلہ سنائے یہ نہ سنائے ۔ اس نے ولی سے کہا :

'' تم کو یقین ہے اس نے ایسا کیا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوجائے مجھ سے ایک غلط فیصلہ ہوجائے اور روزِ محشر مجھے اپنے اللہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے ۔ میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا ''

'' ولی خان نے کہا: تم کو ہماری بات کو یقین نہیں آتا تو یہ گاؤں کی یہ عورتیں (دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے ) چشم دید گواہ ہیں ، امام بہزاد ہیں ''

سردار شاہ زین نے صورتحال کا جائزہ لیا۔ پوچھ گچھ کرتے ہوئے تمام مجمعے کے سامنے گل مینے کے کاری ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ گل مینے کو آمنہ کے گھر پہنچا دیا گیا۔ جب تک کہ اس کو سزا دینے کی تیاری نہ کرلی جائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواں منظر
گل مینے بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔آمنہ کو ساری بات من و عن بتا دی ۔آمنہ چاہتی تھی اس کو کاری نہ کیا جائے وہ بے قصور ہے ۔ اس نے گل مینے سے کہا تم یہاں سے بھاگ جاؤ ۔ بھاگنے کا سارا منصوبہ ناکارہ گیا۔ گھر کا چاروں طرف مسلحہ افراد نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔


ادھر ولی خان ایک کھلے میدان میں کھڑا ہدایات دے رہا تھا۔ چونے کے پانی سے گول دائرہ بنایا گیا ۔ اس میں چار فٹ جتنا گڑھا کھودا گیا۔ پورے کا پورا گاؤں وہاں موجود تھا۔ سردار شاہ زین اور امام بہزاد بھی وہاں موجود تھے ۔ گاؤں کے اطراف جتنے بھی پتھر اور کنکریاں پڑی ہوئیں تھی وہ اٹھا لی گئی ۔ سب نے اپنی اپنی آستینں ان پتھروں سے بھر لی تھیں ۔ جب گڑھا اچھی طرح کھد گیا۔ تو مسلح افراد نے گل مینے کا پکڑا ، آمنہ نے بے حد کوشش کی اس کو نیچے گرا پھینکا ،زرمینے کو لے گئے ۔

گل مینے کو اس گڑھے میں اس طرح دھنسا دیا گیا کہ اس کا آدھا دھڑ زمین سے اوپر اور آدھا مٹی دب گیا۔ یوں لگ رہا تھا گل مینے کا دھڑ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ نہ زمین سے نکل سکتی تھی نہ ہی کوئی حرکت کرسکتی ۔۔ سوائے اس کی اس کی آنکھیں اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم کو دیکھیں ۔دھوپ ڈھل رہی تھی ۔ یوں لگا بہار جارہی ، ہوا اداس ہو ، پانی غم سے شور مچا رہا ہو ۔انسان سن ہی نہیں رہا تھا ۔

آمنہ شاہ زین کے پاس گئ اس کو کہا گل مینے بے قصور ہے ، روزِ قیامت تم کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ جب کسی پر بھی اس کی التجاؤں کاا ثر نہ ہوا تو اس نے سفید دائرہ پار کرنے کی کوشش کی ۔ کہ وہ گل کو بچا لے ۔اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی۔ مسلح افراد آئے اور گل کو لے گئے ۔وہ ہذیانی انداز میں بولے جارہی تھی

'' گل بے قصور ہے ، گل کا کوئی قصور نہیں ۔ یہ سب ولی خان کا سازش ہے ''

ایسا لگ رہا تھا کوئی بھی آمنہ کی بات اس وقت سننا نہیں چاہتا تھا۔ اعلان کے بعد سب سے پہلے گل کے والد کو کہا گیا کہ وہ گل کی پیشانی پر پتھر مارے ۔

اگر گل بے گناہ ہوگی تو یہ پتھر اس کو نہیں لگے گا، اور گناہ گار ہوئی تو پتھر اس کی پیشانی کو چھوئے گا ۔

گل کے باپ نے گل کو ،اور گل نے با پ کو دیکھا۔ باپ کے ہاتھوں میں رعشہ طاری تھا مگر ایسالگ رہا تھا اس کا ارادہ پختہ ہے وہ پر عزم ہے ۔پتھر مارنے سے پہلے اس نے گُل سے کہا:

'' تم نے بھرے گاؤں میں میرا سر شرم سے جھکا دیا۔ تم کاش پیدا ہی نہ ہوتا اور مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا '' یہ کہتے ہوئے گُل کی طرف منہ کرتے ہوئے تھوکا۔

وہ گل مینے جو جذبات سے عاری تھی ۔پہلی دفعہ اسکی آنکھوں سے ایک لڑی روان ہوئی اور اسکے لباس کو بگھو گئ۔اس نے آپنی کرب سے آنکھیں بند کر لیں ۔

گُل کے باپ نے نشانہ لیا ،پتھر مارا۔۔ وہ پیشانی کیا چھوتا،، وہ اس سے دور جا کے گر پڑا۔ اس نے تین دفعہ مارا ۔۔ایسا ہی ہو۔۔۔امام آیا اس نے پتھر مارے مگر اسکا کوئی پتھر بھی پیشانی کو نہ چھو سکا۔ شاہ زین امام بہزاد کے پاس گیا اس سے کہا مجھے اس وقت سے ڈر لگ رہا ہے جب ایک ناحق کو مارا جا رہا ۔احمد یار خان نے ارادہ کیا وہ آئے اور تمام مجمعے کو اصلی حقیقت بیان کردے ۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کو امام نے اشارہ کیا۔ وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد ولی خان آیا

'' کیسے نی لگے گا پتھر اس کو یہ فاحشہ ہے ۔۔!!!''

پھر بغیر نشانہ لئے لگاتا پتھر مارتا گیا یہاں تک کہ خون اس کے ماتھے سے ابل پڑا ۔ پھر ولی نے عمیر اور اکبر کو بلایا ۔۔ دونون نے پتھر مارے اور اسکے ساتھ ساتھ سارے ہجوم نے پتھر مارنے شروع کردیے ۔ پتھر لگتے رہے اور خون بہتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کی پوری کی پوری قبا رنگین ہوگئی ۔ درد میں اسکی کراہیں نکلتی رہیں وہ ہاتھ پاؤں نہ ہلا سکی ۔۔۔پھر وہ بے جان بت ، مٹی کا پتلا بن گئی ۔اس پر پتھر پڑتے رہے یہاں تک کہ شام ہوگئ۔

''مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ پل کے اصنام تراشے ، تو کون ہے تیری قبا کیا ہے ، لوگوں نے تو مریم پر بھی الزام تراشے ۔۔۔۔۔۔وہ وادی جو صبح کی نوید تھی ۔جہاں صبح خوشی کے گیت گاتی تھی وہ گیت بھول گئی تھی ۔ شام اتنی اداس تھی اسے اپنے ہونے پر ماتم تھا۔ شام ہو رہی تھی ۔ گل مینے زمین میں دھنسی خون آلود مگر بے جان تھی ۔ اس کی روح ظالم لوگوں اور ان کی نا انصافیوں کو دیکھتے ہوئے پرواز کر گئ تھی۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
ختم شد
 
آخری تدوین:

Mystic Enigma

محفلین
کچھ کہنے کو بچا نہیں .. اتنا گہرا مطالعہ ۔۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کر. ہمیں ظالموں سے نہ اٹھانا۔۔ آپ نے ہمیں رُلا دیا: (
 

نور وجدان

لائبریرین
اتنی مختصر سی قسط ہے کہ ہمیں چوّنی والا سینیما یاد آ گیا جسے لوگ کچی ٹاکی بھی کہا کرتے تھے بندہ سیچویشن سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا ہوتا تھا کہ ٹکڑا ختم ہو جاتا۔ اَب نکالیں نئی چوّنی آگے دیکھنے کے لیے :)
چلیں ۔۔چونی
کو چھوڑیں ..اصل میں سینما میں اس وقت یو پی ایس نہ ہوتے ہیں گے ..بجلی کا بحران تو یونیورسل ہے ... بس اس لیے دیر ہوگئی اب اس کو مکمل کر دیا ÷÷÷
شکریہ محترمہ مسٹک :)
 

سلمان حمید

محفلین
مجھے بھی بڑے ہو کر ایسی کہانی لکھنی ہے۔ لمبی سی کہانی، بہت سارے صفحوں والی۔ جو پڑھنے والے کہ اپنے حصار میں جکڑ لے اور قاری ساری پڑھے بغیر رہ نہ سکے۔
چونکہ میں نوک پلک سنوارنے یا تنقید کرنے کا ماہر نہیں ہوں اس لیے میری رائے کو صرف رائے لیا جائے۔
کہانی وہ صحافی بھائی کے بغیر بھی شروع ہو سکتی تھی، اس کا حصہ اضافی لگا کیونکہ اس نے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ ہاں اگر یہ فلمائی جائے کسی ڈرامے کے طور پر تو صحافی بھائی کا وہ کیسیٹ سننے والا سین کام کرے گا۔
املاء کی غلطیاں نظر آئیں جس سے ظاہر ہوا کہ آپ ایک بار لکھ کر دوبارہ نہیں پڑھتیں یا شاید سرسری پڑھتی ہیں۔ جیسے بہت کو بوت لکھا گیا، داڑھی کو ڈارھی لکھا گیا، مسلح افراد آئے اور آمنہ کی بجائے گل کو اٹھا کر لے گئے وغیرہ وغیرہ۔
باقی ٹیکنکلی مجھے کاری یا کارو کی اس رسم کا نہیں پتہ تو میں یہ پیشانی پر پتھر مارنے سے شروع کرنے کے بارے میں جانتا نہیں لیکن تحریر اچھی ہے اور اس میں اتنی جان تو ہے کہ قاری کو ایک ہی نشست میں آخر تک لے جائے :)
 

آوازِ دوست

محفلین
یہ تحریرچونکہ آپ کی فرسٹ فلائٹس میں سے ہے سو غلطیوں کی گنجائش بنتی ہے تنقید کی نہیں۔ منظر نگاری اور سسپنس آپ کی تحریر کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ آپ اِسی کہانی کو ایک دو بار دوبارہ لکھیں گی تو یہ بہت میچور ہو جائے گی۔ بہت اچھی اور با مقصد تحریر لکھی آپ نے۔ جاری رکھئیےگا۔
 
آپ کی تحریر نے واقعی رنجیدہ کر دیا

معاشرے کے ایک حصے میں موجود ایک گھناؤنے جرم سے پردہ اٹھاتی ایک اچھی تحریر جو کہ آپ کے درد مند دل کا پتا دیتی ہے۔ اور ایک ادیب کو ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ وہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے درد اور تکالیف سمجھے اور زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں لکھے۔ املا کی غلطیاں بہر حال پوری تحریر میں موجود رہیں جو کہ با آسانی دوسری دفعہ پڑھنے سے ختم کی جا سکتی ہیں
اسی طرح لکھتی رہیے۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔۔۔ میری ایک غزل کے دو اشعار آپ کی اس تحریر کے نام

مری غزل میں تغزل ملے گا کیا تم کو
کہ میرے عہد میں محفوظ نقدِ جان نہیں

دکھوں میں خلقِ خدا ہر گھڑی یہاں پر ہے
ادب وہ کیا کہ جو ان کا ہی ترجمان نہیں
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
مجھے بھی بڑے ہو کر ایسی کہانی لکھنی ہے۔ لمبی سی کہانی، بہت سارے صفحوں والی۔ جو پڑھنے والے کہ اپنے حصار میں جکڑ لے اور قاری ساری پڑھے بغیر رہ نہ سکے۔
چونکہ میں نوک پلک سنوارنے یا تنقید کرنے کا ماہر نہیں ہوں اس لیے میری رائے کو صرف رائے لیا جائے۔
کہانی وہ صحافی بھائی کے بغیر بھی شروع ہو سکتی تھی، اس کا حصہ اضافی لگا کیونکہ اس نے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ ہاں اگر یہ فلمائی جائے کسی ڈرامے کے طور پر تو صحافی بھائی کا وہ کیسیٹ سننے والا سین کام کرے گا۔
املاء کی غلطیاں نظر آئیں جس سے ظاہر ہوا کہ آپ ایک بار لکھ کر دوبارہ نہیں پڑھتیں یا شاید سرسری پڑھتی ہیں۔ جیسے بہت کو بوت لکھا گیا، داڑھی کو ڈارھی لکھا گیا، مسلح افراد آئے اور آمنہ کی بجائے گل کو اٹھا کر لے گئے وغیرہ وغیرہ۔
باقی ٹیکنکلی مجھے کاری یا کارو کی اس رسم کا نہیں پتہ تو میں یہ پیشانی پر پتھر مارنے سے شروع کرنے کے بارے میں جانتا نہیں لیکن تحریر اچھی ہے اور اس میں اتنی جان تو ہے کہ قاری کو ایک ہی نشست میں آخر تک لے جائے :)

شوق کے ناظے جس طرح آپ لکھتے میں بھی .. غلطیاں تو ہونی ہوتی ... بس اتنا شکر ہے کہ اچھا لگا ..حوصلہ افزائی بھی کی ... کچھ پوئینٹس بھی اٹھائے..بے لاگ تبصرہ ہے ..یہ جو سرخ رنگ کیا ہے اسکی وضا حت فرما دیں ... اور جو سبز ہے وہ بے ادب نے لب و لہجہ کے لیے '' بہت کو بوت '' کیا... غلطی بتائی ..ممنون ...:act-up::act-up::act-up::skywalker::snicker::embarrassed1:



یہ تحریرچونکہ آپ کی فرسٹ فلائٹس میں سے ہے سو غلطیوں کی گنجائش بنتی ہے تنقید کی نہیں۔ منظر نگاری اور سسپنس آپ کی تحریر کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ آپ اِسی کہانی کو ایک دو بار دوبارہ لکھیں گی تو یہ بہت میچور ہو جائے گی۔ بہت اچھی اور با مقصد تحریر لکھی آپ نے۔ جاری رکھئیےگا۔
آپ بت لاگ تنقید کر دیں ،،،تاکہ لکھنے سے پہلے سوچوں ÷÷÷ ڈر ڈر کے مرنا ہے تو زہر کا پیالہ ایک ہی دفعہ لے لوں ... مجھے ویسے بھی زہر پسند÷÷پی

خصوصیات بتانے کی مشکور ....:bashful::thumbsup2::thinking::great:



آپ کی تحریر نے واقعی رنجیدہ کر دیا

معاشرے کے ایک حصے میں موجود ایک گھناؤنے جرم سے پردہ اٹھاتی ایک اچھی تحریر جو کہ آپ کے درد مند دل کا پتا دیتی ہے۔ اور ایک ادیب کو ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ وہ معاشرے میں بسنے والے لوگوں کے درد اور تکالیف سمجھے اور زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں لکھے۔ املا کی غلطیاں بہر حال پوری تحریر میں موجود رہیں جو کہ با آسانی دوسری دفعہ پڑھنے سے ختم کی جا سکتی ہیں
اسی طرح لکھتی رہیے۔۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔۔۔ میری ایک غزل کے دو اشعار آپ کی اس تحریر کے نام

مری غزل میں تغزل ملے گا کیا تم کو
کہ میرے عہد میں محفوظ نقدِ جان نہیں

دکھوں میں خلقِ خدا ہر گھڑی یہاں پر ہے
ادب وہ کیا کہ جو ان کا ہی ترجمان نہیں

اللہ آپ کی سخن طرازیاں بڑھائے ..ماشائ اللہ ..خوب کہا....
اس سے بڑھ کر تحفہ نہیں کوئی کہ آپ نے اشعار نام کر دئے ...سبحان اللہ ... واللہ کیا خوب کہا ہے ...بس اعتراض ہے مجھ ناچیز کو ادیب کہ ڈالا ...ارے میں اس قابل نہیں
:great::best::khoobsurat::best:
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر۔ سادی مگر قاری کو گرفت میں کر لینے والی۔ املاء پر دھیان دو نور۔ املاء تو میری بھی بری ہے لیکن دھیان دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ بھی کرو۔ باقی یہ کہ بہت پختہ خیال تھا جسے عمدگی سے نبھایا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر۔ سادی مگر قاری کو گرفت میں کر لینے والی۔ املاء پر دھیان دو نور۔ املاء تو میری بھی بری ہے لیکن دھیان دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ بھی کرو۔ باقی یہ کہ بہت پختہ خیال تھا جسے عمدگی سے نبھایا ہے۔
شکریہ فصیح ..جی کڑا کرکے بیٹھی تھی شکریہ آپ نے تھوڑا حوصلہ بڑھا دیا ..
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ارے بھئی اساتذہ اور سینئرز جب کان کھینچیں تو گھبراتے نہیں۔ قلم بردار لوگ حساس ہوتے ہیں کیوں کہ یہ ان کے فن کے لیئے لازم ہے۔ لیکن جب ڈانٹ پڑے بڑوں سے تو کچھ دیر کے لیئے حساسیت کو در گزر کر دیا کرو۔ میں آپ کی قلمی صلاحیتوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ مگر ہم مکمل تو کبھی بھی نہیں ہو سکتے نا۔ اور اپنی تو یہی خواہش ہوتی ہے کہ اچھا لکھنے والے کو درست طریقے سے سراہا جائے۔ نا تو بہت ڈانٹ اور نا ہی بے جا لاڈ۔ اللہ اپنی امان میں رکھے :) :)
 
Top