آٹھواں منظر
گل مینے صبح صبح اُٹھی ۔ گھر میں ناشتہ بنایا اور کام کاج کرکے وہ اب برقعہ پہن رہی تھی ۔آمنہ نے اس سے پوچھا کہ تم کہا جارہی ہو ۔اس نے بتایا اسے کہ اس نے نوکری شروع کردی ہے ۔
''وہ بیچ بازاز میں احمد یار خان کا گھر ہے ، وہ رنڈوا ہے ، اسکا بیٹا چھوٹا ہے اس کی دیکھ بھال اور گھر کا کام کاج کرتا ہے ، پیسا کماتا ہے ۔ وہ معذور ہے دوسرا شادی بھی نہی کر سکتا '' یہ کہ کر گھر سے روانہ ہوگئی۔
احمد یار خان کے گھر جانے سے پہلے وہ بازار گئی ۔سودا لیا تاکہ وہاں کا کام بھی کرسکے ۔ وہاں کی عورتوں سے بات چیت کی ۔ وہیں اس نے ولی خان کو کھڑے دیکھا جو اس کے جانے کے بعد بھی وہاں کی عورتوں سے رازداری ست گفت و شنید میں مصروف تھا ۔اس کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ احمد کے گھر روانہ ہوگئ ۔ تین کمروں کا گھر تھا ۔ جس میں کچن لاؤنج سے منسلک تھا ۔گھر کے پچھلے حصے میں اصطبل تھا ۔ احمد کو گھوڑے پالنے کا بہت شوق تھا۔ احمد لگ بھگ پینتالیس کے قریب تھا۔ میانہ قد ، جسامت میں بھاری تھا۔اسکے بال ترشے ہوئے تھے ،روز کی طرح وہ آج کام پر نہ جا سکا ، اسکے بیٹے بہرام کی طبیعت خراب تھی ۔ اصطبل میں چلا گیا ۔ اسکے پاؤں میں لنگ اسکے چلنے پر اور واضح ہوتا تھا۔ گل مینے جب آئی وہ اپنے عربی النسل گھوڑں کی نگاہ ہی نگاہ میں ستائش میں مصروف تھا۔ اس نے گھر میں کھانا پکایا ۔پھر بہرام کے پاس آکر اس کا بخار چیک کیا۔ وہ تپ رہا تھا۔ اسکے ماتھے پر ٹھنڈی پانی سے پٹیاں رکھنے لگی ۔ساتھ ساتھ اس کو ناشتہ کرایا ۔
جب دوپہر ہونے کو تھی وہ جانے لگی ۔ بہرام نے اسکو ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکا۔ چھوٹا سا آٹھ سال کا بچہ ماں کی ممتا سے محروم اکیلے پن سے خوف کھا رہا تھا۔ وہ وہیں اس کے پاس بیٹھی رہی ۔ کام سے اتنی چور تھی اس کو پتا ہن نہ چلا اسے کب نیند آئی ۔۔۔ جب وہ اٹھی تو شور مچا ہوا تھا ۔ اسکے شوہر نے احمد یار خان کے گھر کے قریب سب کو اکٹھا کیا ہوا تھا ۔احمد یار خان شور سن کے گھر کےاندر والے حصے میں آیا تو عبد الولی کو چیختے پایا۔
'' یہ عورت فاحشہ ہے ، یہ دیکھو احمد یار خان کے سوئی ہوئی تھی ۔ اس کو جینے کا کوئی حق نہیں ''
گاؤں کی سب عورتیں اور مرد اکٹھے ہوگئے ۔ سب اس پر تھو تھو کرنے لگے ۔ اتنے میں ولی امام بہروز خان کو بلا لایا ۔۔۔ !!! اور بولا :
'' امام دیکھو ، اس فاحشہ کو ۔۔۔۔ !! اس نے بوت بڑا گناہ کیا ہے ۔ اس کو سزا ملنا چاہیے ۔۔ اسکی سزا قتل ہے ''
امام نے گل مینے اور احمد یار خان کو دیکھا اور مجمع کو دیکھا ۔ اور کہا
''اس عورت کو 'کاری ' کیا جائے گا ۔ اس نے گناہ کیا ہے ۔۔۔ یہ اسکے بستر پر سوئی ہوئی تھی ۔۔۔ یہ گناہ ہے ''
گل مینے اس صورتحال میں بے چارگی و لاچارگی کی مکمل تصویر لگ رہی تھی ۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا ۔ جیسے وہ کوئی وضاحت نہیں دینا چاہتی ۔ احمد تذبذب کے عالم میں کھڑا صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وہ کچھ بولتا کہ امام بہزاد اس کو علیحدہ کمرے میں لے گیا۔ اس کو دھمکی دی اگر تم چاہتے ہو تمہیں اس کے ساتھ '' کارو'' نہ کیا جائے تو یہیں پہ اس راز کو اپنے سینے میں دفن کر لو ورنہ تمہارے بعد تمہارے بیٹے کا کوئی وارث نہ ہوگا۔۔۔
سردار شاہ زین ،امام اور ولی خان مجمع کے سامنے کھڑے تھے ۔ سب گاؤں کے مردوں کو اکٹھا کر لیا گیا تھا۔ ایک بہت بڑا ہجوم تھا جس میں یہ اعلان کیا گیا ''گل مینے ،ولی خان کی بیوی ایک فاحشہ ہے ، اسکی سزا قانون کے مطابق دی جائے گی ۔ سردار شاہ زین کو یقین نہیں آرہا تھا ۔وہ کشکمش کی حالت میں تھا کہ وہ اسکا فیصلہ سنائے یہ نہ سنائے ۔ اس نے ولی سے کہا :
'' تم کو یقین ہے اس نے ایسا کیا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوجائے مجھ سے ایک غلط فیصلہ ہوجائے اور روزِ محشر مجھے اپنے اللہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے ۔ میں خدا کو کیا منہ دکھاؤں گا ''
'' ولی خان نے کہا: تم کو ہماری بات کو یقین نہیں آتا تو یہ گاؤں کی یہ عورتیں (دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے ) چشم دید گواہ ہیں ، امام بہزاد ہیں ''
سردار شاہ زین نے صورتحال کا جائزہ لیا۔ پوچھ گچھ کرتے ہوئے تمام مجمعے کے سامنے گل مینے کے کاری ہونے کا فیصلہ سنا دیا۔ گل مینے کو آمنہ کے گھر پہنچا دیا گیا۔ جب تک کہ اس کو سزا دینے کی تیاری نہ کرلی جائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواں منظر
گل مینے بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔آمنہ کو ساری بات من و عن بتا دی ۔آمنہ چاہتی تھی اس کو کاری نہ کیا جائے وہ بے قصور ہے ۔ اس نے گل مینے سے کہا تم یہاں سے بھاگ جاؤ ۔ بھاگنے کا سارا منصوبہ ناکارہ گیا۔ گھر کا چاروں طرف مسلحہ افراد نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔
ادھر ولی خان ایک کھلے میدان میں کھڑا ہدایات دے رہا تھا۔ چونے کے پانی سے گول دائرہ بنایا گیا ۔ اس میں چار فٹ جتنا گڑھا کھودا گیا۔ پورے کا پورا گاؤں وہاں موجود تھا۔ سردار شاہ زین اور امام بہزاد بھی وہاں موجود تھے ۔ گاؤں کے اطراف جتنے بھی پتھر اور کنکریاں پڑی ہوئیں تھی وہ اٹھا لی گئی ۔ سب نے اپنی اپنی آستینں ان پتھروں سے بھر لی تھیں ۔ جب گڑھا اچھی طرح کھد گیا۔ تو مسلح افراد نے گل مینے کا پکڑا ، آمنہ نے بے حد کوشش کی اس کو نیچے گرا پھینکا ،زرمینے کو لے گئے ۔
گل مینے کو اس گڑھے میں اس طرح دھنسا دیا گیا کہ اس کا آدھا دھڑ زمین سے اوپر اور آدھا مٹی دب گیا۔ یوں لگ رہا تھا گل مینے کا دھڑ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ نہ زمین سے نکل سکتی تھی نہ ہی کوئی حرکت کرسکتی ۔۔ سوائے اس کی اس کی آنکھیں اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم کو دیکھیں ۔دھوپ ڈھل رہی تھی ۔ یوں لگا بہار جارہی ، ہوا اداس ہو ، پانی غم سے شور مچا رہا ہو ۔انسان سن ہی نہیں رہا تھا ۔
آمنہ شاہ زین کے پاس گئ اس کو کہا گل مینے بے قصور ہے ، روزِ قیامت تم کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ جب کسی پر بھی اس کی التجاؤں کاا ثر نہ ہوا تو اس نے سفید دائرہ پار کرنے کی کوشش کی ۔ کہ وہ گل کو بچا لے ۔اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتی۔ مسلح افراد آئے اور گل کو لے گئے ۔وہ ہذیانی انداز میں بولے جارہی تھی
'' گل بے قصور ہے ، گل کا کوئی قصور نہیں ۔ یہ سب ولی خان کا سازش ہے ''
ایسا لگ رہا تھا کوئی بھی آمنہ کی بات اس وقت سننا نہیں چاہتا تھا۔ اعلان کے بعد سب سے پہلے گل کے والد کو کہا گیا کہ وہ گل کی پیشانی پر پتھر مارے ۔
اگر گل بے گناہ ہوگی تو یہ پتھر اس کو نہیں لگے گا، اور گناہ گار ہوئی تو پتھر اس کی پیشانی کو چھوئے گا ۔
گل کے باپ نے گل کو ،اور گل نے با پ کو دیکھا۔ باپ کے ہاتھوں میں رعشہ طاری تھا مگر ایسالگ رہا تھا اس کا ارادہ پختہ ہے وہ پر عزم ہے ۔پتھر مارنے سے پہلے اس نے گُل سے کہا:
'' تم نے بھرے گاؤں میں میرا سر شرم سے جھکا دیا۔ تم کاش پیدا ہی نہ ہوتا اور مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا '' یہ کہتے ہوئے گُل کی طرف منہ کرتے ہوئے تھوکا۔
وہ گل مینے جو جذبات سے عاری تھی ۔پہلی دفعہ اسکی آنکھوں سے ایک لڑی روان ہوئی اور اسکے لباس کو بگھو گئ۔اس نے آپنی کرب سے آنکھیں بند کر لیں ۔
گُل کے باپ نے نشانہ لیا ،پتھر مارا۔۔ وہ پیشانی کیا چھوتا،، وہ اس سے دور جا کے گر پڑا۔ اس نے تین دفعہ مارا ۔۔ایسا ہی ہو۔۔۔امام آیا اس نے پتھر مارے مگر اسکا کوئی پتھر بھی پیشانی کو نہ چھو سکا۔ شاہ زین امام بہزاد کے پاس گیا اس سے کہا مجھے اس وقت سے ڈر لگ رہا ہے جب ایک ناحق کو مارا جا رہا ۔احمد یار خان نے ارادہ کیا وہ آئے اور تمام مجمعے کو اصلی حقیقت بیان کردے ۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس کو امام نے اشارہ کیا۔ وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد ولی خان آیا
'' کیسے نی لگے گا پتھر اس کو یہ فاحشہ ہے ۔۔!!!''
پھر بغیر نشانہ لئے لگاتا پتھر مارتا گیا یہاں تک کہ خون اس کے ماتھے سے ابل پڑا ۔ پھر ولی نے عمیر اور اکبر کو بلایا ۔۔ دونون نے پتھر مارے اور اسکے ساتھ ساتھ سارے ہجوم نے پتھر مارنے شروع کردیے ۔ پتھر لگتے رہے اور خون بہتا رہا ۔ یہاں تک کہ اس کی پوری کی پوری قبا رنگین ہوگئی ۔ درد میں اسکی کراہیں نکلتی رہیں وہ ہاتھ پاؤں نہ ہلا سکی ۔۔۔پھر وہ بے جان بت ، مٹی کا پتلا بن گئی ۔اس پر پتھر پڑتے رہے یہاں تک کہ شام ہوگئ۔
''مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ پل کے اصنام تراشے ، تو کون ہے تیری قبا کیا ہے ، لوگوں نے تو مریم پر بھی الزام تراشے ۔۔۔۔۔۔وہ وادی جو صبح کی نوید تھی ۔جہاں صبح خوشی کے گیت گاتی تھی وہ گیت بھول گئی تھی ۔ شام اتنی اداس تھی اسے اپنے ہونے پر ماتم تھا۔ شام ہو رہی تھی ۔ گل مینے زمین میں دھنسی خون آلود مگر بے جان تھی ۔ اس کی روح ظالم لوگوں اور ان کی نا انصافیوں کو دیکھتے ہوئے پرواز کر گئ تھی۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
ختم شد