کاشف عمران ہوبہو
اسامہ سرسری کے روبرو
اسامہ سَرسَری: کاشف عمران صاحب! آپ ہیں کون؟​
کاشف عمران نے کہا:
محترم دوستو ، اپنا ابتدائی تعارف تو پہلے ہی دن کراو دیا تھا۔​



اسامہ سَرسَری:وہ تو بہت سرسری سا تھا، کچھ تفصیلی تعارف عنایت ہوجائے۔​
کاشف عمران نے کہا:
تو پھر پوچھیے ، ہم حاضر ہیں۔



اسامہ سَرسَری:اپنے بچپن کے کچھ واقعات پر مختصر سی روشنی ڈالیے۔​
کاشف عمران نے کہا:
میری بے رنگ زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ اسکول کے زمانے میں اردو کی کتابوں میں دی گئی نظمیں اچھی لگتی تھیں۔ مگر اصل دلچسپی عمرو عیار، انسپکٹر جمشید، عمران + ایکس ٹُو، ٹارزن کی کہانیوںوغیرہ میں ہوتی تھی۔آس پاس کا ماحول بھی یہی تھا۔​



اسامہ سَرسَری:یہ سب کہانیاں بشمول تاوان،دیوتا،بازی گر ہم نے بھی پڑھی ہیں ، اس میں کیا کمال کیا آپ نے، جس طرح کراچی شہر میں ہمیں یہ چیزیں بسہولت حاصل ہوگئیں یقینا آپ کو بھی اپنے علاقے میں ہوگئی ہوگی؟​
کاشف عمران نے کہا:
جی نہیں، جناب! ہم بلوچستان کے ایک پس ماندہ علاقے میں رہتے تھے۔ ہم تو گھر میں اردو بولتے تھے۔ مگر وہاں کے اکثر لوگوں کی اردو سے کوئی خاص شناسائی نہ تھی۔اسکول کا حال بھی وہی تھا جو بلوچستان اور اندرونِ سندھ کےسرکاری اسکولوں کا ہوتا ہے۔ سارا بچپن گلی ڈنڈا، فٹبال، کرکٹ، کنچےوغیرہ کھیلنے میں گزرا۔​



اسامہ سَرسَری:ارے ، تو پھر شاعری جیسا فن تمھارے اندر کیسے آگیا؟​
کاشف عمران نے کہا:
اصل میں میٹرک کے امتحان کے بعد فراغت کے دنوں میں (کہ میٹرک کا رزلٹ پانچ چھ ماہ بعد آتا تھا) ایک دن ایک رشتے کی خالہ کے ہاں ردی کے سامان میں "دیوانِ غالب" ہاتھ لگا۔ پڑھا تو مزہ آیا۔ اُسی کو دن رات کا ساتھی بنا لیا۔ پھر گھر میں پڑی "ضربِ کلیم" پر ہاتھ صاف کیے۔ اس دوران رزلٹ بھی آ گیا۔کچھ نقل (رواج یہی تھا ، ٹیچر بھی نقل کرنے میں مدد دیتے تھے تا کہ بچے بورڈ کے امتحان میں پاس ہو کر ان کی جان چھوڑیں) اور کچھ "تیزیِ طبع" کی بدولت نمبر اچھے آ گئے۔​



اسامہ سَرسَری:بہت خوب، پھر آپ نے کیا کیا؟​
کاشف عمران نے کہا:
میں ایف ایس سی (پری میڈیکل) کرنے کوئٹہ چلا آیا اور ایک اچھے سے کالج میں داخلہ لے لیا۔​



اسامہ سَرسَری:ہمم ممم ۔۔۔ وہاں کا معیارِ تعلیم کیسا پایا؟​
کاشف عمران نے کہا:
وہاں کا معیارِ تعلیم بہت بلند اور ٹیچر کافی قابل اور محنتی تھے۔​



اسامہ سَرسَری:پھر تو آپ نے وہاں بھی اپنے خوب جوہر دکھائے ہوں گے؟​
کاشف عمران نے کہا:
آپ کا گمان اپنی جگہ، مگر تیز طرارمحنتی لڑکوں سے مقابلہ کرنا مجھ "شاعرالوجود" کے بس کی بات نہ تھی۔ان حالات میں اصل پڑھائی میں خاک دل لگنا تھا۔​



اسامہ سَرسَری:یعنی آپ کا دل وہاں نہیں لگ رہا تھا، تو آپ نے اس کا حل نکالا؟​
کاشف عمران نے کہا:
میں نے کالج کی عظیم الشان لائبریری میں دستیاب کلاسیکل شعراء کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔کیا کلیاتِ میر اور کیا کلیاتِ سودا۔ سب پڑھ ڈالیں۔ اس دوران تُک بندی بھی شروع کر دی۔کچھ دن مزاحیہ شعر لکھنے کی کوشش کی پھر سنجیدہ موضوعات کی طرف مائل ہو گیا۔​


اسامہ سَرسَری:
مگر شاعری صرف دواوین کا مطالعہ کرنے سے تو نہیں آتی، عروض کی خاردار جھاڑیوں کو آپ نے کیسے پار کیا؟​
کاشف عمران نے کہا:
بچوں کے ماہنامہ "نونہال" میں علمِ عروض پر ایک سلسلہ چھپتا تھا ۔ وہاں سے تقطیع کا ہنر سیکھا اور جلد ہی وزن میں شعر کہنے کے قابل ہو گیا۔​


اسامہ سَرسَری:
اور پڑھائی؟​
کاشف عمران نے کہا:
انٹر کا نتیجہ تو وہی نکلتا جو ان حالات میں نکلنا تھا۔ میں سائنس کے تمام مضامین میں "امتیازی نمبروں سے فیل" ہوا۔ حد یہ کے اردو تک میں بمشکل تمام پاس ہو کر یہ ثابت کیا کہ ممتحن حضرات کالج کے لڑکوں کی فی البدیہہ شاعری سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے۔اب ٹرین پوری طرح پٹری سے اتر چکی تھی۔​


اسامہ سَرسَری:
یعنی آپ ایک تعلیمی ادارے میں ہونے کے باوجود پڑھائی سے کورے تھے، کیا آپ کو اس کا بالکل دکھ نہیں ہورہا تھا؟​
کاشف عمران نے کہا:
مگر شاعری میں (اپنی نظر میں) "استاد" ہو چکا تھا۔ فارسی میں تو شروع سے ہی کچھ شُد بُد تھی کہ آس پاس 'دری' اور 'دہواری' (فارسی کے دو لہجے ہیں) بولنے والے موجود تھے۔ اسی بنا پر حافظ، سعدی اور عطار وغیرہ کا مطالعہ بھی شروع کر چکا تھا۔​


اسامہ سَرسَری:
صرف شاعری سے تو زندگی کی دکان نہیں چلتی نا دوست! اس کے علاوہ آپ نے کچھ نہیں سیکھا؟​
کاشف عمران نے کہا:
میں نے کچھ ماہ ویلڈنگ کا کام سیکھا اور خوب مہارت حاصل کرلی۔​


اسامہ سَرسَری:
پھر۔۔۔ ۔​
:)
کاشف عمران نے کہا:
پھر آنکھوں میں شدید خارش کے سبب اسے چھوڑ کر ایک ترکھان کی شاگردی اختیار کی۔ اسی دوران گرتے پڑتے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر ایف اے (اردو ایڈوانس، انڈین ہسٹری، اکنامکس) کا امتحان بمشکل پاس کیا۔ترکھانی میں دو تین ماہ میں ہی اچھا خاصا استاد ہو گیا تھا۔​


اسامہ سَرسَری:
بہت خوب۔۔۔ یعنی کہیں تو جمے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
مگر طبیعت کی تلوّن مزاجی نے وہاں بھی دم لینے نہ دیا۔ بارہ جماعتیں پاس کر لینے کی بعد جی میں سمائی کہ کچھ نیا کیا جائے۔​



اسامہ سَرسَری:یعنی کچھ محبت وحبت۔۔۔ ۔۔​
کاشف عمران نے کہا:​
نہیں۔۔ پولٹری فارم کھولنے کا خیال آیا (مرغیوں سے ازلی محبت ہے اور انھیں ساری زندگی اشرف المخلوقات کا درجہ دیتا رہا ہوں۔ ذبح کرنے سے پہلے معافی بھی مانگتا ہوں)۔​


اسامہ سَرسَری:
یعنی آپ شیخ چلی کے راستے پر چل پڑے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
مگر مطلوبہ رقم دستیاب نہ ہونے کے سبب یہ خیال، خیال ہی رہا۔​


اسامہ سَرسَری:
وہی تو کہہ رہا ہوں، شیخ چلی نے کونسا مرغیوں کا کاروبار شروع کردیا تھا۔​
کاشف عمران نے کہا:​
پولٹری فارم تو نہ کھل سکا مگر "کچھ اور" کرنے کی لگن ختم نہ ہوئی۔ نتیجہ؟ ایک اور قلابازی ۔ یعنی ترکھانی چھوڑ، ایک مدرسے میں جا کر فارسی، عربی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔​

اسامہ سَرسَری:
اوہ۔۔۔ تو اب ملا بننے چل دیے، یعنی شیخ چلی نہ بن سکے، ملادوپیازہ بننے ٹھان لی۔ واہ ، پھر کیا ہوا؟​
کاشف عمران نے کہا:​
دنوں ہفتوں میں علمِ صَرف میں سارے مدرسے کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اساتذہ سوال کرنے سے قبل مجھے جواب دینے سے منع کر دیتے تھے کہ کچھ دوسرے شاگردوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملے۔ غرض چند ماہ میں ہی تین چار سال کا کورس مکمل کر چکا تھا۔​


اسامہ سَرسَری:
اس عرصے میں اپنی عصری تعلیم کو کچھ بڑھایتے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
بالکل جناب! اسی زمانے میں بی اے کا امتحان بھی پرائیویٹ پاس کیا۔​


اسامہ سَرسَری:
چلو شکر مدرسے میں تو جمے آپ۔​
کاشف عمران نے کہا:​
ہاہاہاہا۔۔۔ بُرا ہو سرِ سودائے جنوں کا۔ مدرسے سے بھی تنگ آیا اور ایک دن چپ چاپ کتابوں کا بکس سر پر رکھے دوسروں کے جاگنے سے پہلے وہاں سے بھاگ لیا۔​

"سبھی سوئے پڑے تھے جب ترے کوچے سے ہم نکلے"​


اسامہ سَرسَری:
ارے۔۔۔ مدرسہ بھی ۔۔۔ ۔ اچھا۔۔۔ پھر۔۔۔ ؟​
کاشف عمران نے کہا:​
ایک مرتبہ پھر نئی منزلوں کی تلاش تھی۔ اب آپ "گیس" کریں کہ میں نے کیا کیا ہو گا؟​


اسامہ سَرسَری:
اب آپ نے ہمارے خیال میں علمِ نجوم و قیافہ سیکھنا شروع کردیا ہوگا۔ کیونکہ کل آپ کے کلام میں لفظ قیافی بہت نظر آیا ہے اگرچہ اس کا مطلب کچھ اور تھا اور ٹائپنگ کی غلطی تھی، بہرحال یہ تو ہماری قیافے بازی ہے، آپ بتائیں کیا یہی کیا یا کچھ اور؟​
کاشف عمران نے کہا:​
جی ، آپ کا جو بھی جواب ہے غلط ہی ہوگا۔ میں نے یہ کیا کہ سر سے صافہ اتارا اور بازار سے سن گلاسز اور جینز کی دو پتلونیں لے لایا۔ داڑھی پر مشین پھروائی۔ کرتہ شلوار اتار، پتلون میں گھسا۔​


اسامہ سَرسَری:
انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ یعنی ملادوپیازہ سے آپ مسٹر بین بن گئے، اس سے آپ کو کیا حاصل ہونے والا تھا اب؟​
کاشف عمران نے کہا:​
اب مدرسے کے سارے جاسوس مل کر بھی میرا سراغ نہ لگا پاتے۔​


اسامہ سَرسَری:
تو آپ کو ایسا کیا تیر مارنا تھا پھر جو آپ چھپتے پھر رہے تھے؟​
کاشف عمران نے کہا:​
پھر میں نے یونیورسٹی جا کر "ایم اے انگریزی ادب" میں داخلہ لے لیا۔​


اسامہ سَرسَری:
زبردست۔۔ یعنی ۔۔۔​
کاشف عمران نے کہا:​
ان دنوں طبیعت کی جولانی عروج پر تھی۔ شیکسپئر سے لے کر ملٹن، اور سپنسر سے لے کر کیٹس، سب کو پڑھا۔ چارلس ڈکنز، تھامس ہارڈی،جیمز جوائس، ڈی ایچ لارنس پر بھی ہاتھ صاف کیے۔ ساتھ میں مشقِ سخن بھی جاری تھی۔​


اسامہ سَرسَری:
آپ تو اب تک اچھے بھلے شاعر بن گئے ہوں گے؟​
کاشف عمران نے کہا:​
اس وقت تک میں خود کو غالب اور میر سے کم کوئی رتبہ نہ دیتا تھا (بعد میں پتہ چلا سب شاعرتمام عمر اسی غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں! خرابی ہو دنیا والوں کی کہ مان کر نہیں دیتے)۔ لیکن یہاں پھر وقت نے میرے ساتھ وہی کیا جو اس کی عادت ہے۔ یعنی ایک سال گزر چکا تھا اور امتحان سر پر کھڑے تھے۔​


اسامہ سَرسَری:
تو کیا ہوا آپ تو بہت ذہین تھے، مدرسے میں سب کو پیچھے چھوڑدیتے تھے، یہاں بھی ٹینشن والی کیا بات تھی؟​
کاشف عمران نے کہا:​
میں تو سارا سال "آؤٹ آف کورس" چیزیں پڑھتا رہا تھا۔ یا الٰہی، اب کیا کروں! پاس ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔​


اسامہ سَرسَری:
تو فیل آنے سے تمھاری زندگی میں کیا فرق پڑنے والا تھا؟​
کاشف عمران نے کہا:​
اگر فیل ہوتا (جو کہ ہونا ہی تھا!) تو عزت خاک میں مل جاتی۔ میں سوچنے لگا کہ وہ بھی جو میری شاعری کی وجہ سے مجھ سے دبتے تھے لہرا لہرا کر اپنا رزلٹ کارڈ مجھے دکھائیں گے اور میرا تماشا لگائیں گے۔​


اسامہ سَرسَری:
ارے لڑکوں کی ایسی کی تیسی۔۔۔ ایک مایہ ناز ادیب کسی جگہ ہو تو وہاں کی لڑکیاں تو اس پر ہر حال میں مرتی ہیں۔​
کاشف عمران نے کہا:​
لڑکیوں کی نظر میں تو خاص طور پر کوئی عزت ہی نہ رہے گی۔ ویسے بھی وہ بیچاری سارا سال مجھ سے نوٹس مانگتی رہیں۔ سب سمجھتے تھے کہ میں کمینہ ہوں اور اپنے نوٹس چھپا کر رکھتا ہوں تاکہ "گولڈ میڈل" لے سکوں۔ میں نے بھی یہی ظاہر کیا ہوا تھا کہ میری سب تیاری مکمل ہے۔ مگر اب کیا ہو گا۔ روزِ حساب آ پہنچا تھا۔​

"مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ"۔​


اسامہ سَرسَری:مگر آپ نے کچھ تو کیا ہوگا؟​
کاشف عمران نے کہا:​
مرتا کیا نہ کرتا۔ سو بار کی آزمائی ترکیب پھر آزمائی۔ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر یونیورسٹی سے بھی بھاگ لیا۔​


اسامہ سَرسَری:
اوہ۔۔۔ بڑا انوکھا حل ہے آپ کے پاس ہر پریشانی کا۔۔۔ خیر۔۔۔ آپ کے دماغ پر تو بڑا بوجھ ہوگا اس وقت۔​
کاشف عمران نے کہا:​
اب تک ناکامیوں اور بھاگنے کی اتنی عادت پڑ چکی تھی کہ طبعیت پر چنداں بوجھ نہ پڑتا تھا۔ "ایم اے انگریزی ادب" کا انجام تو خیر سے وہی ہوا جو اس سے پہلے ویلڈنگ، ترکھانی، فارسی و عربی اور کھِلنے سے پہلے اجڑنے والے باغ المعروف بہ "کاشف عمران اینڈ کمپنی پولٹری فارم" کا ہو چکا تھا۔​


اسامہ سَرسَری:
تو آپ کوئی اچھا سا روزگار تلاش کرکے شادی کرلیتے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
ہاہاہاہاہ۔۔۔ ۔اس وقت کوائف نامہ کچھ یوں بنتا تھا:​

عمر : 23 سال​
تعلیم : بی اے سیکنڈ ڈویژن​
تجربہ: ویلڈنگ 3 ماہ۔ ترکھانی 4 ماہ۔​
اضافی کوائف: شاعری اور باتیں بنانے کا فن، فارسی، عربی سے سرسری واقفیت، علم تجوید و قرائت میں کچھ دسترس۔​
کمزوریاں: 1: سوائے شاعری کے آج تک ہر کام ادھورا چھوڑاہے ۔ 2: جسمانی کمزوری کہ بچپن سے جوانی تک بیمار ہی رہا۔​
سفارش: ندارد​
رشوت کے لیے پیسہ: ندارد​

اسامہ سَرسَری:یعنی آپ کو نوکری تلاش کے باوجود نہ ملی۔​
کاشف عمران نے کہا:​
اب اس کوائف نامہ کے ساتھ کیا نوکری ملتی۔ مگر میں نےاٹھارہ سو ماہوار کی ایک نوکری ڈھونڈ ہی لی۔ قریب کے ایک پرائیویٹ انگلش اسکول میں ٹیچنگ کی اسامی نکلی۔ آپ پھر "گیس" کریں کہ اسامی کس پوسٹ کی ہو گی؟ چلیے میں ہی بتا دیتا ہوں۔ عربی ٹیچر! انٹرویو میں بھانت بھانت کے مولوی حضرات آئے تھے۔ سب ایک ہی کمرے میں بیٹھے انٹرویو دے رہے تھے۔ پوچھے سوالات کے سب نے تقریبًا ایک سے غلط جوابات دیے۔میچ ٹائی ہوتے دیکھ کر پرنسپل صاحب نے فیصلہ کیا کہ آخری معرکہ قرات کے میدان میں ہو گا۔ سب نےباری باری اپنی مرضی کی سورتیں سنائیں۔ میرا نمبر آخر میں آیا۔ باقیوں کے حالات میں دیکھ چکا تھا۔اب میں نے لحنِ داودی میں سورۃ فاتحہ کچھ اس انداز میں سنائی کہ باقی تمام امیدواروں کے منہ لٹک گئے۔ ادھر پرنسپل صاحب کا چہرہ کِھل سا گیا۔ مجھے سلیکٹ کر لیا گیا۔ یہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اسکول کو عربی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عربی ٹیچر تو بس محکمہءِ تعلیم کو مطمئن کرنے کے لیے رکھا گیا تھی۔ اصل ضرورت تو قاری کی تھی کہ جس سے تلاوت کروا کر اور بچوں کوتلاوت سکھا کر آس پاس کی آبادی اور والدین کو بتایا جا سکے کہ:​


"اسکول ہٰذا میں جدید انگلش تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کا خاطر خواہ انتظام ہے"۔​


اسامہ سَرسَری:
بہت خوب، یعنی ماضی کا شیخ چلی نمبر 2 اور ملادوپیازہ نمبر2 اب حال کا قاری کاشف عمران بن چکا تھا، پھر کیا ہوا قاری صاحب!​
کاشف عمران نے کہا:​
سال سے کچھ کم عرصہ اس اسکول میں قرات سکھائی اور خانہ پری کے لیے عربی پڑھائی۔ بچوں میں اصل شہرت داستان گو کی حیثیت سے پائی کہ فری کلاسوں میں جا کر کہانیاں سناتا تھا۔ کئی بچے بلکہ استانیاں بھی ہاف ٹائم میں قرائت سیکھنے کے بہانے میری کلاس میں آ دھمکتیں اور میری چٹخارے دار باتوں کے مزے لیتیں۔​


اسامہ سَرسَری:
ہاہاہاہا۔۔۔ بچوں نے تو آپ کا نام قاری کہانی رکھ دیا ہوگا۔ لیکن ہم اس موقع پر آپ کو ”قاری استانیاں“ کے نام سے یاد کریں گے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
ایسا قاری سب نے پہلی بار دیکھا تھا جس کے تھیلے میں کہانیوں اور مزے مزے کی حکایتوں کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ تھا۔​


اسامہ سَرسَری:
اب میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ یہاں جم گئے، بلکہ میرا سوال اب یوں ہے کہ یہاں سے آپ نے کب راہِ فرار اختیار کی؟​
کاشف عمران نے کہا:​
سال کے اختتام پر اسکول چھوڑا اور ایک دو ماہ بعدصوبائی سول سروس کے مقابلے کا امتحان پاس کر کے سرکاری افسر بن گیا (یہ سب کیسے ہوا، ذکر پھر کبھی)۔ تین سال صوبائی حکومت میں نوکری کی۔ پھر وفاقی حکومت میں آ گیا۔​


اسامہ سَرسَری:یہاں پھر وہی سوال۔۔۔ کب چھوڑا؟​
کاشف عمران نے کہا:​
تقریبًا پانچ سال بعد حسبِ عادت، متعدد محکمے بدلنے کے باوجود، اس کام سے بھی سخت اکتا گیا۔​


اسامہ سَرسَری:
کمال ہے، یہاں کراچی میں بے روزگار بہت ہیں اور وہاں آپ کے پاس روزگار کی کوئی کمی نہیں، اب کونسی نوکری تلاش کی آپ نے؟​
کاشف عمران نے کہا:​
نوکری ترک کی اور پروگرامنگ کر کے پیٹ کے دوزخ کا انتظام کرنے لگا۔​


اسامہ سَرسَری:
ارے یہ تمھاری زندگی میں پروگرامنگ کہاں سے آ ٹپکی؟​
کاشف عمران نے کہا:​
یہ قصہ کہ پروگرامنگ کب اور کیسے سیکھی، اپنی ذات میں خود ایک داستان ہے۔ زندگی رہی اور آپ دوستوں نے چاہا تو اس کا ذکر پھر مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔​


اسامہ سَرسَری:
واہ جی ۔۔۔ ۔ شیخ ، ملا ، شاعر ، قاری ، افسر ، پروگرامر صاحب۔ آگے فرمائیے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
اب پروگرامنگ کرتے ہوئے دو برس بیت چکے۔ابتدا میں فری لانسر کے طور پر کچھ چھوٹے موٹے پراجیکٹ کیے۔ آج کل اپنےہی ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں۔​


اسامہ سَرسَری:
بہت خوب ، یعنی تاحال پروگرامر ہیں، اس کے بعد۔۔۔ ۔ چلے جانے دیجیے۔۔ یہ بتائیے یہاں کیسے بھول پڑے۔​
کاشف عمران نے کہا:​
چند دن پہلے کچھ فراغت نصیب ہوئی تو اپنی پرانی شاعری نکال کر دیکھی۔ پڑھ کر مزہ آیا۔ سوچا اس کوچے سے پھر گزر کر دیکھتے ہیں۔​


اسامہ سَرسَری:اب مزید سوال۔۔۔ ۔​
کاشف عمران نے کہا:​
میں تو تھک گیا۔​


اسامہ سَرسَری:
اچھا ٹھیک ہے ، اللہ آپ کے ساتھ آسانی اور سہولت والا معاملہ فرمائے، آمین، خوش رہیے اور سب خوش رہنے دیجیے۔​
 
آپ کے ’’ایم اے انگریزی‘‘ سے ایک پرانا سوال تازہ ہو گیا۔
والٹر ڈی لا میئر کی نظم ’’The Listeners‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اس کی تشریحات بھی دیکھیں، تاہم مجھے اپنے اس مرکب سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ:
اس نظم کا مرکزی خیال کیا ہے، اور اس گھڑسوار کو اس بات کا یقین کیوں ہے کہ اس کی پکار کو سنا جا رہا ہے، اور وہ جو سن کر بھی جواب نہیں دے رہے وہ کون ہیں، اور اس پورے پس منظر میں نظم کے پیش منظر کی کیا اہمیت ہے، اور کیا اس نظم میں گھوڑا کوئی خاص علامت ہے۔
 
آپ کے ’’ایم اے انگریزی‘‘ سے ایک پرانا سوال تازہ ہو گیا۔
والٹر ڈی لا میئر کی نظم ’’The Listeners‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اس کی تشریحات بھی دیکھیں، تاہم مجھے اپنے اس مرکب سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ:
اس نظم کا مرکزی خیال کیا ہے، اور اس گھڑسوار کو اس بات کا یقین کیوں ہے کہ اس کی پکار کو سنا جا رہا ہے، اور وہ جو سن کر بھی جواب نہیں دے رہے وہ کون ہیں، اور اس پورے پس منظر میں نظم کے پیش منظر کی کیا اہمیت ہے، اور کیا اس نظم میں گھوڑا کوئی خاص علامت ہے۔
کاشف عمران
 
بہت خوب اسامہ بھائی! آپ کا جواب نہیں۔:)
فی البدیہہ انٹرویو:confused: کرنے کے لیے آپ بہت موزوں ہیں۔
نہیں جی، آج تک براہ راست کسی کا انٹرویو نہیں لیا، اس کام کے لیے فورم پر بہت سوں میں مہارت نظر آئی ہے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اصل میں یوں کہنا چاہتا تھا: "سبھی سوئے پڑے تھے جب ترے کوچے سے ہم نکلے"

جب تک غلطی پر نظر پڑی، دیر ہو چکی تھی اور سسٹم نے تدوین کی اجازت نہ دی۔ بہت اچھا ہو اگر کوئی ناظم اصل مقام اور یہاں تصحیح کر سکے۔ کاغذ والی سہولت حاصل نہیں کہ پچاس برس بعد بھی، جب چاہا لکیر پھیر کر بات بدل لی۔ یہ سسٹم تو "قیافی" کو "قوافی" بھی نہیں کرنے دیتا۔ جانے کتنے مبتدی غلط لفظ سیکھ لیں گے۔ وہاں بھی کوئی شکل تصحیح کی نکل آئے تو اچھا ہو۔ نظم درست کرنا کوئی منٹوں، گھنٹوں کی بات تو ہے نہیں۔ اکثر تو دن، ہفتے، مہینے لگ جاتے ہیں۔ میرے معاملے تو برسوں بھی گزر جاتے ہیں کسی ایک تحریر کی نوک پلک سنوارتے۔ محفل فورم کی بڑی مشکل ہے کہ اس بات کو سمجھتا نہیں۔
 
اصل میں یوں کہنا چاہتا تھا: "سبھی سوئے پڑے تھے جب ترے کوچے سے ہم نکلے"

جب تک غلطی پر نظر پڑی، دیر ہو چکی تھی اور سسٹم نے تدوین کی اجازت نہ دی۔ بہت اچھا ہو اگر کوئی ناظم اصل مقام اور یہاں تصحیح کر سکے۔ کاغذ والی سہولت حاصل نہیں کہ پچاس برس بعد بھی، جب چاہا لکیر پھیر کر بات بدل لی۔ یہ سسٹم تو "قیافی" کو "قوافی" بھی نہیں کرنے دیتا۔ جانے کتنے مبتدی غلط لفظ سیکھ لیں گے۔ وہاں بھی کوئی شکل تصحیح کی نکل آئے تو اچھا ہو۔ نظم درست کرنا کوئی منٹوں، گھنٹوں کی بات تو ہے نہیں۔ اکثر تو دن، ہفتے، مہینے لگ جاتے ہیں۔ میرے معاملے تو برسوں بھی گزر جاتے ہیں کسی ایک تحریر کی نوک پلک سنوارتے۔ محفل فورم کی بڑی مشکل ہے کہ اس بات کو سمجھتا نہیں۔
آپ الفاظ میں اسراف بہت کرتے ہیں۔۫(از راہِ مذاق):)
 
مشق مشق مشق۔ لکھوں کا نہیں تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا؟ ویسے آپ اس خیال کو کن الفاظ میں بیان کرتے؟
اصل میں یوں کہنا چاہتا تھا: "سبھی سوئے پڑے تھے ترے کوچے سے ہم نکلے"
بھائی کوئی مدیر آکر یہاں تھے اور ترے کے بیچ میں جب لگادے۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اصل میں یوں کہنا چاہتا تھا: "سبھی سوئے پڑے تھے ترے کوچے سے ہم نکلے"
بھائی کوئی مدیر آکر یہاں تھے اور ترے کے بیچ میں جب لگادے۔
بات تو ہو جاتی، لطف نہ آتا۔ پھر عادت کی تسکین کیسے ہوتی؟

اگر داستان گو سردیوں کی شام میں دہکتے الاؤ کے گرد بیٹھے مجمع سے محض باتیں ہی کرنے لگنے جائے، تو رات کیسے گزرے گی؟ رات تو خیر جیسے تیسے گزر ہی جائے گی، خیالوں کی دنیا کون آباد کرے گا؟ سننے والے، داستان گو کے چلے جانے کے بعد خوابوں میں کیا دیکھیں گے؟

داستان گو تو داستان کہتا ہے۔ بات سے بات ہی نہ نکلے تو کہاں کی داستان گوئی۔ میں تو جب لکھنے بیٹھتا ہوں، یہی تصور کر لیتا ہوں کہ میرے ارد گرد داستان کو ترستی سماعتیں ہیں۔ سماعتوں کو مطمئن کرنے سے پہلے داستان ختم ہو گئی، تو قلم کا قرض ادا نہ ہوا۔ ہاں جہاں کوئی سننے والا ہی نہ رہے، تو الگ بات ہے۔ ایسےمیں بھی اکثر دل کو خود کلامی میں لگا لیتا ہوں۔

جو سنے اس کا بھی بھلا، جو نہ سنے اس کا بھی بھلا!
 
بات تو ہو جاتی، لطف نہ آتا۔ پھر عادت کی تسکین کیسے ہوتی؟

اگر داستان گو سردیوں کی شام میں دہکتے الاؤ کے گرد بیٹھے مجمع سے محض باتیں ہی کرنے لگنے جائے، تو رات کیسے گزرے گی؟ رات تو خیر جیسے تیسے گزر ہی جائے گی، خیالوں کی دنیا کون آباد کرے گا؟ سننے والے، داستان گو کے چلے جانے کے بعد خوابوں میں کیا دیکھیں گے؟

داستان گو تو داستان کہتا ہے۔ بات سے بات ہی نہ نکلے تو کہاں کی داستان گوئی۔ میں تو جب لکھنے بیٹھتا ہوں، یہی تصور کر لیتا ہوں کہ میرے ارد گرد داستان کو ترستی سماعتیں ہیں۔ سماعتوں کو مطمئن کرنے سے پہلے داستان ختم ہو گئی، تو قلم کا قرض ادا نہ ہوا۔ ہاں جہاں کوئی سننے والا ہی نہ رہے، تو الگ بات ہے۔ ایسےمیں بھی اکثر دل کو خود کلامی میں لگا لیتا ہوں۔

جو سنے اس کا بھی بھلا، جو نہ سنے اس کا بھی بھلا!
پھر اسراف۔:)
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
آپ کے ’’ایم اے انگریزی‘‘ سے ایک پرانا سوال تازہ ہو گیا۔
والٹر ڈی لا میئر کی نظم ’’The Listeners‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اس کی تشریحات بھی دیکھیں، تاہم مجھے اپنے اس مرکب سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ:
اس نظم کا مرکزی خیال کیا ہے، اور اس گھڑسوار کو اس بات کا یقین کیوں ہے کہ اس کی پکار کو سنا جا رہا ہے، اور وہ جو سن کر بھی جواب نہیں دے رہے وہ کون ہیں، اور اس پورے پس منظر میں نظم کے پیش منظر کی کیا اہمیت ہے، اور کیا اس نظم میں گھوڑا کوئی خاص علامت ہے۔

میں نے جدید انگریزی نظم کا سرسری مطالعہ ہی کیا ہے کہ وہاں بھی کلاسیکل شعراء کے سامنے جدید شاعر حضرات کل کے بچے لگتے ہیں۔ اور کلاسیکل شعرا کو پڑھنے کے بعد کچھ نیا پڑھنے کو جی ہی نہیں کرتا۔

مایوس کن تمہید اپنی جگہ، جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے جدید انگریزی شاعری ابھی تک اس مخمصے کا شکار ہے کہ اپنی بات کو کس حد تک کھول کر بیان کیا جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انگریزی زبان میں تجریدیت کا اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں گئے دور کی فنکاری کا معدوم ہونا، جدید فلسفے اور نفسیا تی علوم میں شاعر کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے مقابلے میں ان باتوں کے اظہار کے لیے دستیاب اسلوبی وسائل کی کمی، مذہب کا زوال اوراس کے مقابلے میں ذاتی نفسیاتی تجربات کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور کچھ نیا اور مختلف کرنے کی دھن شامل ہیں۔

اٹھائے گئے سوالات کا جواب معروضی انداز میں یوں دوں گا:

مرکزی خیال کیا ہے: پراسرایت
گھڑسوار کو اس بات کا یقین کیوں ہے کہ اس کی پکار کو سنا جا رہا ہے: اس کے یقین یا گمان کی کوئی وجہ نہیں۔ ان پراسرار حالات اور ما حول میں سایوں حتی کہ خیالی صورتوں سے باتیں کرنے کی کوشش کرنا کچھ بعید نہیں۔
جو سن کر بھی جواب نہیں دے رہے وہ کون ہیں: یہ واہمے ہیں جن سے کلام کیا جا رہا ہے۔ جواب ملنے سے رہا۔ مسافر کو خود بھی اس کا احساس ہے۔
اس پورے پس منظر میں نظم کے پیش منظر کی کیا اہمیت ہے: مجھے تو کہیں پیش منظر و پس منظر نظر نہیں آ رہا۔ بس ایک ہی منظر ہے۔
گھوڑا کوئی خاص علامت ہے: گھوڑا شاید یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سفر دور کا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ اس سے بڑھ کر گھوڑا کوئی خاص علامت ہے۔ ہاں یہ اپنے ماحول کا حصہ ضرور ہے۔ خواہ مخواہ کا فلسفہ البتہ پیش کیا جا سکتا ہے مگر میں اس سے احتراز ہی کروں گا۔

اگر انگریزی شاعری پر فلسفیانہ بحث شروع کی گئی، تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ مختصر اتنا کہوں گا کہ مغرب کی بدلتی ہوئی نفسیات کو سمجھے بغیر، اس کی (خاص طور پر) فلسفیانہ اور تجریدی شاعری کو سمجھنا ممکن نہ ہو گا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
کاشف عمران ہوبہو
اسامہ سرسری کے روبرو

پیارے اسامہ، یاد کرنے کا بہت بہت شکریہ!

یہ بات سب سے پہلے کہنا چاہتا تھا، مگر سوالوں جوابوں میں الجھ بیٹھا۔

انٹرویو تو بڑے لوگوں کا کیا جاتا ہے۔ تاہم محفل کی یہ روایت اچھی لگی کہ محفلین ایک دوسرے کا بھی انٹرویو کرتے رہتے ہیں۔ مفت ہی میں اپنے اہم ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے۔ بڑے چالاک ہیں یہ محفلین۔ دل لگانے کے اچھے انداز سیکھے ہوئے ہیں!

اسامہ بڑا ہوشیار نکلا۔ میری کچی پکی سوانح سے ہی انٹرویو کشید کر لیا۔ میں تو اس انتظار میں تھا کہ کب کوئی پیغام بھیج کر "لائیو" انٹرویو کے لیے وقت مانگے گا اور میں بہانے بنا کر لاڈ اٹھواؤں گا!
 
اسامہ بڑا ہوشیار نکلا۔ میری کچی پکی سوانح سے ہی انٹرویو کشید کر لیا۔ میں تو اس انتظار میں تھا کہ کب کوئی پیغام بھیج کر "لائیو" انٹرویو کے لیے وقت مانگے گا اور میں بہانے بنا کر لاڈ اٹھواؤں گا!
آپ کی اس امید پر پانی بہانے پر معذرت خواہ ہوں۔:)
قرۃالعین اعوان بہنا سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ کا ایک عدد انٹرویو لے لیں۔
 
’’علامہ سرسری‘‘ کی ترکیب ذہن میں یوں بھی آتی ہے کہ موصوف نے کاشف کامران کی پہلے کی کہی ہوئی باتوں کو اتنی مہارت سے مکالمے میں ڈھالا ہے! میں اگر پہلے سے وہ باتیں پڑھ نہ چکا ہوتا یا تِیروں کے نشان نظر انداز کر دیتا تو مجھے پتہ بھی نہ چلتا کہ یہ (لائیو) گفتگو نہیں، بلکہ اقتباس کی فن کاری ہے۔
بہت خوب جناب! علامہ صاحب۔
 
’’علامہ سرسری‘‘ کی ترکیب ذہن میں یوں بھی آتی ہے کہ موصوف نے کاشف کامران کی پہلے کی کہی ہوئی باتوں کو اتنی مہارت سے مکالمے میں ڈھالا ہے! میں اگر پہلے سے وہ باتیں پڑھ نہ چکا ہوتا یا تِیروں کے نشان نظر انداز کر دیتا تو مجھے پتہ بھی نہ چلتا کہ یہ (لائیو) گفتگو نہیں، بلکہ اقتباس کی فن کاری ہے۔
بہت خوب جناب! علامہ صاحب۔
استغفراللہ ، کیوں شرمندہ کر رہے ہیں استاد جی۔
آپ حضرات کے ہی فیوضات و برکاتیں ہیں۔
 
Top