محمد عمر بن عبد العزیز
محفلین
وہ نہیں جانتا تھا کہ وہاں کیسے جاتے ہیں، بس وہ وہاں جانا چاہتا تھا۔ وہ دیوانہ وار لوگوں سے پوچھتا رہتا تھا کہ لوگ وہاں کیسے جاتے ہیں؟ تولوگ مختلف جواب دے کر اسے ٹال دیتے تھے ایک مرتبہ اسے کسی نے بتا ہی دیا کہ یہاں سے ریل پر سوار ہوکر کراچی جاتے ہیں، وہاں سے جہاز پر سوار ہوکر جانا پڑتا ہے۔
وہ لاہور کا رہنے والا ایک گوالا تھا غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا آمدنی اتنی تھی نہیں جس سے وہ یہ سفر کرسکتا لیکن اسے بس ایک ہی دھن لگی رہتی تھی اور ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔
چنانچہ کسی نہ کسی طرح وہ کراچی پہنچ گیا اب یہاں سے آگے جانے کا مسئلہ تھا وہ پریشان تھا کہ آگے کیسے جاسکتا ہوں؟ اس نے دیکھا کہ بعض لوگ مخصوص لباس پہن کر جہاز میں سامان لاد رہے ہیں تو اس نے ان میں سے ایک کی منت کی کہ میں وہاں جانا چاہتا ہوں آپ مہربانی کریں اپنی جگہ مجھے کام کرنے دیں اور اپنی وردی مجھے دے دیں میں یہ وردی آپ کو واپس کردوں گا وہ بندہ مان گیا اور اپنا لباس اسے دے دیا اب وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح سامان اٹھا اٹھا کر جہاز میں لادنے لگااس نے کچھ سامان جہاز میں پہنچایا اورجب دیکھا کہ سامان پہنچ گیا ہے تو سامان کے ساتھ ہی کسی جگہ چھپ گیا اور وردی کسی طرح واپس بھیج دی۔ کسی کواس کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔
کافی دیر تو سامان والی جگہ میں چھپا رہا پھر موقع پاکر جہاز کے عرشے پر چڑھ گیا اور باقی لوگوں کے ساتھ گھل مل گیا۔ باتوں باتوں میں جہاز کے اندر ایک شخص سے تعارف بھی ہوا۔اسے کہا کہ جب جدہ قریب آجائے تو بتا دینا۔ چلتے چلتے جب جہاز جدہ کے قریب پہنچا اور جدہ کی عمارتیں دور سے نظر آنے لگیں تو اس نے سوچا کہ وہاں تو کسی کو پتا نہیں چلا یہاں تو پکڑا جائوں گا تو اس نے اپنے نئے ساتھی سے کہا میں جہاز میں اس طرح آیا ہوں اب مجھے خطرہ ہے کہ کہیں پکڑا نہ جائوں لہذ اب میں چلتا ہوں یہ کہا اور اس نے اللہ کا نام لے کر سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
وہ بندہ بڑا غمگین ہوا کہ پتا نہیں اس کا کیا بنے گا؟ اللہ کی شان کہ بعد میں اس سے ملاقات ہوگئی تو اس نے کیا دیکھا کہ وہ بندہ جس نے سمندر میں چھلانگ لگائی تھی اس نے عمدہ لباس پہنا ہوا ہے اور بیت اللہ کا طواف کررہا ہے وہ بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا تو اس نے کہا باہر نکل کر بتاتا ہوں۔ چنانچہ وہ اسے باہر لے آیا۔ باہر ایک گاڑی کھڑی تھی اور ڈرائیور اس کا انتظار کررہا تھا تو وہ بندہ اور حیران ہوا بالآخر وہ اسے اپنے گھر لے گیا جو ایک عمدہ کوٹھی کی شکل میں تھا اب تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی تو بے تابی بڑھتی جارہی ہے تو اس نے بتانا شروع کیا:
جب میں نے دیکھا کہ جدہ کی عمارتیں نظر آرہی ہیں تو میں نے اللہ سے دعا مانگی اے اللہ یہاں تک آپ نے پہنچا دیا ہے اب آگے بھی پہنچا دیجیے خطرے کی وجہ سے میں آگے تو نہیں پہنچ سکتا لہذا میں خود کو آپ کے حوالے کرتا ہوں یہ کہہ کر میں نے سمندر میں چھلانگ لگادی۔ اللہ کی شان کہ لہروں نے مجھے سمندر کے کنارے پر پہنچادیا اس دوران میں بے ہوش ہوچکا تھا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ دو بندے بھینس کا دودھ نکالنا چاہتے ہیں لیکن نکال نہیں پارہے۔ میں چونکہ اس کام میں ماہر تھا اس لیے میں نے کہا میں کوشش کرتا ہوں۔ جونہی میں اپنے انداز کے مطابق بھینس پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اچھے رد عمل کا اظہار کیااور دودھ دینے کےلیے آمادہ ہوگئی لہذا میں نے اس سے آٹھ دس کلو دودھ نکال لیا تو وہ بندہ بڑا خوش ہوا۔ اس کے سسر کے پاس بہت سی بھینسیں ہیں اس نے مجھ سے کہا تم اس طرح کرو میرے پاس رہو اور تمہارا کام یہ ہوگا کہ تم نے صرف بھینسوں کا دودھ نکالنا ہے میں تمہیں تنخواہ بھی دوں گا گھر بھی دوں گا گاڑی بھی دوں گا ڈرائیور بھی دوں گا بس تم میرا یہ کام کرکے دیتے رہنا۔ میں نے اسے کہا میں تو حج کرنے کے لیے آیا ہوں تو اس نے کہا ٹھیک ہے تم حج کر آئو یہ گاڑی لے جائو اور یہ ڈرائیور تمہارے ساتھ ہی جائے گا۔ اب میں لاہور سے اپنے گھر والوں کو بھی ادھر ہی بلارہا ہوں۔ اللہ نے گھر بھی دیا ہے گاڑی بھی دی ہے اور حج بھی کروادیا ہے۔ سبحان اللہ
جب انسان اللہ تعالی سے مانگتا ہے تو اللہ تعالی ضرور اسے عطا فرمادیتے ہیں بلکہ گمان سے بھی بڑھ کر عطا فرماتے ہیں۔
یقیناً حج کا سفر ایسا ہی سفر ہے جس کی چاہت، تڑپ ہر مسلمان کے سینے میں موجود ہے۔ بڑے بڑے اکابر دعائیں مانگا کرتے تھے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ حج کے دنوں میں بعض دفعہ کھانا کھاتے ہوئے اچانک فرماتے: ’’معلوم نہیں عشاق کیا کررہے ہوں گے۔‘‘ (وہ حاجیوں کو عشاق فرمایا کرتے تھے) یہ کہتے ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور کھانا ان سے چھوٹ جاتا تھا۔
خود نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہ چاہت رکھتے تھے۔ نبیb نے ہجرت کے بعد خواب میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کررہا ہوں ہجرت کے بعد ابھی تک آپ نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا اس لیے آپ کو بیت اللہ کی یاد نے ستایا تو آپ ۱۴۰۰ صحابہ کو ساتھ لے کر بیت اللہ کی طرف چل دیے اگر چہ کافروں نے عمرہ نہ کرنے دیا اور آپ کو واپس ہونا پڑا پھر دوسرے سال آپ نے عمرہ ادا فرمایا۔
ایک بار پھر حج کا موسم آرہا ہے اللہ کے مقبول بندے لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے عازم سفر ہیں اور ہم جیسے گنہگار بندے ایک بار پھر محرومی کا شکار ہورہے ہیں نہ جانے کب ہماری باری آئے گی کہ ہم دیوانہ وار اس عظیم گھر کا دیدار کررہے ہوں، طواف کررہے ہوں اللہ کرے وہ وقت ضرور اور جلدی آئے کہ ہم بھی ان جگہوں کو دیکھیں جن پر میرے آقا کے قدم لگے۔
مجھے اپنی پستیوں کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے
تڑپ رہا ہوں تیرے در کی حاضری کے لیے
کاش! ایسا ہوجائے، کاش! ایسا ہوجائے، کاش! ایسا ہوجائے۔
چمکتا رہے تیرے روضے کا منظر سلامت رہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں بھی عطا ہو وہ شوق ابو ذر ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہ بلالی
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
ہو سگان مدینہ میں نام میرا شمار
جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مرغ ومار
خدایا ایسا کوئی انتظام ہوجائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہوجائے
میری قسمت سے الٰہی! پائیں یہ رنگِ قبول
پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لیے
وہ لاہور کا رہنے والا ایک گوالا تھا غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا آمدنی اتنی تھی نہیں جس سے وہ یہ سفر کرسکتا لیکن اسے بس ایک ہی دھن لگی رہتی تھی اور ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔
چنانچہ کسی نہ کسی طرح وہ کراچی پہنچ گیا اب یہاں سے آگے جانے کا مسئلہ تھا وہ پریشان تھا کہ آگے کیسے جاسکتا ہوں؟ اس نے دیکھا کہ بعض لوگ مخصوص لباس پہن کر جہاز میں سامان لاد رہے ہیں تو اس نے ان میں سے ایک کی منت کی کہ میں وہاں جانا چاہتا ہوں آپ مہربانی کریں اپنی جگہ مجھے کام کرنے دیں اور اپنی وردی مجھے دے دیں میں یہ وردی آپ کو واپس کردوں گا وہ بندہ مان گیا اور اپنا لباس اسے دے دیا اب وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح سامان اٹھا اٹھا کر جہاز میں لادنے لگااس نے کچھ سامان جہاز میں پہنچایا اورجب دیکھا کہ سامان پہنچ گیا ہے تو سامان کے ساتھ ہی کسی جگہ چھپ گیا اور وردی کسی طرح واپس بھیج دی۔ کسی کواس کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔
کافی دیر تو سامان والی جگہ میں چھپا رہا پھر موقع پاکر جہاز کے عرشے پر چڑھ گیا اور باقی لوگوں کے ساتھ گھل مل گیا۔ باتوں باتوں میں جہاز کے اندر ایک شخص سے تعارف بھی ہوا۔اسے کہا کہ جب جدہ قریب آجائے تو بتا دینا۔ چلتے چلتے جب جہاز جدہ کے قریب پہنچا اور جدہ کی عمارتیں دور سے نظر آنے لگیں تو اس نے سوچا کہ وہاں تو کسی کو پتا نہیں چلا یہاں تو پکڑا جائوں گا تو اس نے اپنے نئے ساتھی سے کہا میں جہاز میں اس طرح آیا ہوں اب مجھے خطرہ ہے کہ کہیں پکڑا نہ جائوں لہذ اب میں چلتا ہوں یہ کہا اور اس نے اللہ کا نام لے کر سمندر میں چھلانگ لگا دی۔
وہ بندہ بڑا غمگین ہوا کہ پتا نہیں اس کا کیا بنے گا؟ اللہ کی شان کہ بعد میں اس سے ملاقات ہوگئی تو اس نے کیا دیکھا کہ وہ بندہ جس نے سمندر میں چھلانگ لگائی تھی اس نے عمدہ لباس پہنا ہوا ہے اور بیت اللہ کا طواف کررہا ہے وہ بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا تو اس نے کہا باہر نکل کر بتاتا ہوں۔ چنانچہ وہ اسے باہر لے آیا۔ باہر ایک گاڑی کھڑی تھی اور ڈرائیور اس کا انتظار کررہا تھا تو وہ بندہ اور حیران ہوا بالآخر وہ اسے اپنے گھر لے گیا جو ایک عمدہ کوٹھی کی شکل میں تھا اب تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی تو بے تابی بڑھتی جارہی ہے تو اس نے بتانا شروع کیا:
جب میں نے دیکھا کہ جدہ کی عمارتیں نظر آرہی ہیں تو میں نے اللہ سے دعا مانگی اے اللہ یہاں تک آپ نے پہنچا دیا ہے اب آگے بھی پہنچا دیجیے خطرے کی وجہ سے میں آگے تو نہیں پہنچ سکتا لہذا میں خود کو آپ کے حوالے کرتا ہوں یہ کہہ کر میں نے سمندر میں چھلانگ لگادی۔ اللہ کی شان کہ لہروں نے مجھے سمندر کے کنارے پر پہنچادیا اس دوران میں بے ہوش ہوچکا تھا۔
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ دو بندے بھینس کا دودھ نکالنا چاہتے ہیں لیکن نکال نہیں پارہے۔ میں چونکہ اس کام میں ماہر تھا اس لیے میں نے کہا میں کوشش کرتا ہوں۔ جونہی میں اپنے انداز کے مطابق بھینس پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اچھے رد عمل کا اظہار کیااور دودھ دینے کےلیے آمادہ ہوگئی لہذا میں نے اس سے آٹھ دس کلو دودھ نکال لیا تو وہ بندہ بڑا خوش ہوا۔ اس کے سسر کے پاس بہت سی بھینسیں ہیں اس نے مجھ سے کہا تم اس طرح کرو میرے پاس رہو اور تمہارا کام یہ ہوگا کہ تم نے صرف بھینسوں کا دودھ نکالنا ہے میں تمہیں تنخواہ بھی دوں گا گھر بھی دوں گا گاڑی بھی دوں گا ڈرائیور بھی دوں گا بس تم میرا یہ کام کرکے دیتے رہنا۔ میں نے اسے کہا میں تو حج کرنے کے لیے آیا ہوں تو اس نے کہا ٹھیک ہے تم حج کر آئو یہ گاڑی لے جائو اور یہ ڈرائیور تمہارے ساتھ ہی جائے گا۔ اب میں لاہور سے اپنے گھر والوں کو بھی ادھر ہی بلارہا ہوں۔ اللہ نے گھر بھی دیا ہے گاڑی بھی دی ہے اور حج بھی کروادیا ہے۔ سبحان اللہ
جب انسان اللہ تعالی سے مانگتا ہے تو اللہ تعالی ضرور اسے عطا فرمادیتے ہیں بلکہ گمان سے بھی بڑھ کر عطا فرماتے ہیں۔
یقیناً حج کا سفر ایسا ہی سفر ہے جس کی چاہت، تڑپ ہر مسلمان کے سینے میں موجود ہے۔ بڑے بڑے اکابر دعائیں مانگا کرتے تھے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ حج کے دنوں میں بعض دفعہ کھانا کھاتے ہوئے اچانک فرماتے: ’’معلوم نہیں عشاق کیا کررہے ہوں گے۔‘‘ (وہ حاجیوں کو عشاق فرمایا کرتے تھے) یہ کہتے ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور کھانا ان سے چھوٹ جاتا تھا۔
خود نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہ چاہت رکھتے تھے۔ نبیb نے ہجرت کے بعد خواب میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کررہا ہوں ہجرت کے بعد ابھی تک آپ نے بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا اس لیے آپ کو بیت اللہ کی یاد نے ستایا تو آپ ۱۴۰۰ صحابہ کو ساتھ لے کر بیت اللہ کی طرف چل دیے اگر چہ کافروں نے عمرہ نہ کرنے دیا اور آپ کو واپس ہونا پڑا پھر دوسرے سال آپ نے عمرہ ادا فرمایا۔
ایک بار پھر حج کا موسم آرہا ہے اللہ کے مقبول بندے لبیک اللہم لبیک کہتے ہوئے عازم سفر ہیں اور ہم جیسے گنہگار بندے ایک بار پھر محرومی کا شکار ہورہے ہیں نہ جانے کب ہماری باری آئے گی کہ ہم دیوانہ وار اس عظیم گھر کا دیدار کررہے ہوں، طواف کررہے ہوں اللہ کرے وہ وقت ضرور اور جلدی آئے کہ ہم بھی ان جگہوں کو دیکھیں جن پر میرے آقا کے قدم لگے۔
مجھے اپنی پستیوں کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے
تڑپ رہا ہوں تیرے در کی حاضری کے لیے
کاش! ایسا ہوجائے، کاش! ایسا ہوجائے، کاش! ایسا ہوجائے۔
چمکتا رہے تیرے روضے کا منظر سلامت رہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں بھی عطا ہو وہ شوق ابو ذر ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبہ بلالی
امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
ہو سگان مدینہ میں نام میرا شمار
جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مرغ ومار
خدایا ایسا کوئی انتظام ہوجائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہوجائے
میری قسمت سے الٰہی! پائیں یہ رنگِ قبول
پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لیے