کاش بدلے ملال کا موسم

کچھ پچھلے سال میں اور کچھ نئے سال میں کہی ہوئی ایک غزل آپکے ذوق کی نذر۔


کاش بدلے ملال کا موسم
سبز ہو اگلے سال کا موسم

پھول ہی پھول ہو زمیں ساری
دشت پہنے کمال کا موسم

امن ہو ، آشتی ہو ہر جانب
ختم ہو اب یہ قال کا موسم

رنگ ہی رنگ ہوں جدھر دیکھوں
پھر نہ آئے یہ حال کا موسم

روتی تھی ماں سسکتا تھا بچا
گذرا کتنے جلال کا موسم

موت بھی گھبرا جائے آنے سے
ایسا تھا وہ قتال کا موسم


آنکھ دیکھے نہ اے خدا میری
پھر سے وہ پچھلے سال کا موسم​
 

مغزل

محفلین
ارے ۔۔۔ ماشا اللہ، کیا کہنے ، ثمرینہ جی، بہت خوب ماشا اللہ، ایک دو جگہ غالباً آپ سے لکھنے میں سہو ہوا، ۔۔ فنی معاملت پر گفتگو اگلی نشست میں ، فی الحال ، مجھ خاکسار کی جانب سے ہدیہ تحسین قبول کیجے ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ، بہت خوب ماشا اللہ
 
ما شاء اللہ کیا خوبصورت تحفہ ہے سال نو پر۔

باقی جو فنی مسائل ہیں وہ اہم فن ہی جانیں محسوس تو مجھے بھی ہوئی ہیں پر استذہ یقینام بہتر رائے دیں گے۔
 
ارے ۔۔۔ ماشا اللہ، کیا کہنے ، ثمرینہ جی، بہت خوب ماشا اللہ، ایک دو جگہ غالباً آپ سے لکھنے میں سہو ہوا، ۔۔ فنی معاملت پر گفتگو اگلی نشست میں ، فی الحال ، مجھ خاکسار کی جانب سے ہدیہ تحسین قبول کیجے ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ، بہت خوب ماشا اللہ

بہت شکریہ مغل صاحب، ایک جگہ مجھ سے واقعی وزن میں غلطی ہوئی تھی دوسرے مصرعہ کے شعرِ ثانی میں اسے ٹھیک کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، اگر پوائنٹ آؤٹ کر دیتے تو شکر غذار رہتی، بحرحال بہت بہت شکریہ اور امید ہیکہ آپکا تعاون ساتھ رہے گا۔ شکریہ۔
 
ما شاء اللہ کیا خوبصورت تحفہ ہے سال نو پر۔

باقی جو فنی مسائل ہیں وہ اہم فن ہی جانیں محسوس تو مجھے بھی ہوئی ہیں پر استذہ یقینام بہتر رائے دیں گے۔

جی محترم ابنِ سعید صاحب بہت بہت شکریہ، لیکن اگر آپ غلطیاں پوائینٹ آؤٹ کردیتے تو مجھ نا علم بندی کو بہت آسانی ہوتی میں کوئی شاعرہ تو نہیں لیکن آپ سے اچھے شعرا کو سن اور پڑھ کر کچھ لکنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ بہت بہت شکریہ امید ہیکہ آپکا تعاون ناچیز کے ساتھ رہے گا۔ شکریہ۔
 
محترم وارث صاحب یقینن اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے تعریفات سن چکی ہوں مگر صرف شکریہ ادا کر کے چلے گئے، وارث صاحب کیا یہ غزل اس قابل نہیں تھی کہ اس پر آپ کچھ لکھنے کی زحمت فرماتے۔ بحرحال شکریہ کا شکریہ، امید ہیکہ نظرِ ثانی کے لیئے ضرور تشریف لائیں گے۔ شکریہ۔
 
محترمہ:
غزل اچھی ہے۔ مسائل کی نشان دہی ضرور کرتا لیکن آپ نے غزل اصلاحِ سخن کے زمرے میں نہیں رکھی۔

بہت بہت شکریہ محترم نوید صادق صاحب، بس یہ میری کم علمی تھی کے یہاں پوسٹ کر کے شاید انجانے میں مستند شعراء کی صف میں کھڑے ہونے کی کوشش کر بیٹھی ہوں جسکے لیئے معذرت، مگر آپکی قیمتی آراء کا شدت سے انتظار رہے گا۔ بہت بہت شکریہ۔
 
ثمرینہ بٹیا در اصل جن اشعار پر اصلاح کی ضرورت محسوس ہوا کرے اسے "اصلاحِ سخن" والے زمرے میں رکھنے پر جواب جلدی آتا ہے۔ ورنہ لوگ کسی قسم کی تنقید و تبصرہ کرنے میں متامل ہوتے ہیں۔ بہر کیف اب جبکہ آپ نے لوگوں سے مسائل کی نشاندہی کی درخواست کی ہے تو ان شاء اللہ سبھی اصحاب سخن توجہ ضرور دیں گے۔

بٹیا میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی عروض کی الف ب سے واقف ہوں۔ بس یہاں احباب کو باتیں کرتے دیکھ کر کبھی کبھی سر ہلا لیتا ہوں کہ یہ بھی کچھ ہوتی ہونگی۔ جہاں آپ کا مصرع وزن سے خارج ہو رہا تھا وہ تو غالباً آپ نے درست کر لیا ہے۔ ایک جگہ معنویت میں ابہام ہے یا شاید میرے سمجھ میں نہیں آ رہا، "ختم ہو اب یہ قال کا موسم" یہاں قال کے موسم سے کیا مراد ہے؟
 

نوید صادق

محفلین
فی الحال وزن پر بات کرتے ہیں:

کاش بدلے ملال کا موسم
سبز ہو اگلے سال کا موسم

پھول ہی پھول ہو زمیں ساری
دشت پہنے کمال کا موسم

امن ہو ، آشتی ہو ہر جانب
ختم ہو اب یہ قال کا موسم

رنگ ہی رنگ ہوں جدھر دیکھوں
پھر نہ آئے یہ حال کا موسم

روتی تھی ماں سسکتا تھا بچا
(بچہ)
ویسے یہ مصرعہ وزن میں تو ہے لیکن نجانے طبیعت پر گراں گزر رہا تھا؟ کیوں؟
روتی کے فورا" بعد تھی سے "ت" کی تکرار بوجھل ہے۔ سسکتا بھی کچھ موزوں نہیں۔ اور آپشن پر غور کریں۔

گذرا کتنے جلال کا موسم

موت بھی گھبرا جائے آنے سے
(موت بھی کانپنے لگی تھی جبیں)
(موت بھی خوف کھا رہی تھی جبیں)

( "موت گھبرا رہی تھی آنے سے")
ایسا تھا وہ قتال کا موسم
(قتال میں "ت" پر تشدید کا مسئلہ دیکھنا پڑے گا۔ میں اس وقت دفتر میں ہوں. شام کو دیکھوں گا)
آنکھ دیکھے نہ اے خدا میری
پھر سے وہ پچھلے سال کا موسم

( لیجیے! ہم نے ایک سرسری سا جائزہ لیا ہے اس غزل کا۔ باقی بشرطِ‌فرصت)
 
جی نوید بھائی یقیناً بغیر ریفرینس کے تحقیق کا کوئی مطلب بھی نہیں ہوتا۔ میں نے تو بس یوں ہی کہہ دیا تھا کیوں کہ میں نے اسے ہمیشہ اسی طرح پڑھا کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ نوید بھائی ، قتال بغیرِ تشدید ہے ، ملاحظہ ہو،
قِتال [قِتال] (عربی)
-------------------------------------
ق ت ل---- قَتْل قِتال
عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے 1822ء کو "موسٰیؑ کی توریت مقدس" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع غیر ندائی: قِتالوں [قِتا + لَوں (واؤ مجہول)]
1. ہتھیاروں کی لڑائی، خون ریزی، جنگ وجدل، باہمی کٹا چھنی، معرکہ، لڑائی کا میدان۔
"انسانی قربانی، غلامی، جنگ و قتال بغیر حق وغیرہ تمام مقاصد، و خبائث کے شیوع کی تاریخ پر غور کیئجیے۔" ( 1984ء، افادات آزاد، 69 )
 

مغزل

محفلین
ضرور ۔۔ مگر جمعہ کے بعد، ابھی تو آپ کی نظم پر سر دھن کر آیا ہوں۔ سانس تو لینے دیں
 

الف عین

لائبریرین
مبارک ہو ثمرینہ آپ کی غزل اچھی لگی۔ بس ایک دو جگہ کچھ اغلاط ہیں جن کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔ کچھ تو نوید صادق نے نشان دہی کر دی ہے۔ ’گھبرا‘ کا الف کا گرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
 
Top