کاشفی
محفلین
غزل
(حرماں خیر آبادی)
کاش کچھ بہتر ہو انجامِ سفر میرے لئے
رات دن گردش میں ہیں شمس و قمر میرے لئے
کیا یہی ہے حاصلِ لیل و نہارِ زندگی
شام سے اک کشمکش ہے تاسحر میرے لئے
آج کس رفعت پہ ہوں تیری نگاہِ لطف سے
سر بہ سجدہ ہو نہ جائیں بام و در میرے لئے
ایک نظارے نے اس کے دل کے ٹکڑے کر دیئے
آج قاتل بن گئی میری نظر میرے لئے
کون سن سکتا ہے اس دل کے دھڑکنے کی صدا
ایک اک آواز ہے جادو اثر میرے لئے
صاف اوجھل ہے نگاہوں سے وہ حُسنِ بے نقاب
کس قدر دشوار ہے تابِ نظر میرے لئے
آج اُس راہِ محبت میں قدم رکھتا ہوں میں
ذرہ ذرہ ہے جہاں سینہ سپر میرے لئے
کون ہے میرے سوا حرماں تڑپنے کا مجاز
اک عطائے خاص ہے دردِ جگر میرے لئے