سعود الحسن
محفلین
میرے خیال میں جب بندہ پہلے ہی تعصب کی عینک لگالے تو اسے ہر درست چیز بھی شعبدہ بازی نظر آنے لگتی ہے، بحر حال اچھی بات یہ ہے کہ آپ نےاپنے پرانے موقف پر اسرار نہیں کیا، تو پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کے دستور اور قوانین کے مطابق تھا بلکہ یہ دنیا بھر میں مروجہ اور تسلیم شدہ قانونی اصولوں کے مطابق بھی تھا ۔سعود، عدالتی کاروائیوں میں ایسی ایسی پیچیدگیاں پیدا کرنے کے گر بہت پرانے ہیں اور آپ کو ایسی قانونی شعبدہ بازیاں وہاں پر بھی نظر آ جائیں گے جہاں سپریم کورٹ بقول آپکے آمروں کے حق میں فیصلے دے رہی ہے۔
آپ کا یہ اسرار کہ اسی طرح کی قانونی شعبدہ بازی آمرو کے حق میں دیے گئے فیصلوں میں بھی گئی ہوتی ہے ، اصل میں یہ آپ کے عصب کو ظاہر کرتا ہے ورنہ تھوڑی سی سمجھ رکھنے والا بندہ سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں کیا فرق ہے ، چلیں پاکستانیوں کو چھوڑ دیتے ہیں ، پوری دنیا کی وکلا کی نتظیموں اور ججز کے مطالق آپکا کیا خیال ہے۔
واہ کتنی سیدھی سی بات ہے جو پوری دنیا کی سمجھ نہیں آرہی ،سیدھی سی بات ہے کہ:
1۔ چیف جسٹس کے خلاف الزامات ہیں
2۔ حکومت نے اس بنا پر اپنی فہم کے مطابق جو قانون ہے، اس پر عمل کرتے ہوئے کاروائی کی درخواست کورٹ میں بھیجی۔
3۔ مگر عوام کو چونکہ مشرف کے خلاف کیا جا چکا تھا اور اس لیے انصاف کی بجائے عوامی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے قانونی پیچیدگیاں اور شعبدہ بازیاں استعمال کرتے ہوئے یہ کاروائی ہی نہ ہونے دی گئی۔
جناب حقائق اس سے بلکل مختلف ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ
1۔ جس وقت چیف جسٹس کو صدارتی محل میں بلا کر پانچ جرنیلوں کے ذریعے دباو دالا گیا ، اس وقت تک چیف جسٹس کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا تھا۔
2- جس وقت چیف جسٹس کو پکڑ کر اس کے گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا ، اس وقت تک چیف جسٹس پر کوئی الزام نہ تھا۔
3۔ جس وقت نیا چیف جسٹس حلف لے رہا تھا ، اس وقت تک اصل چیف جسٹس پر کوئی الزام نہ تھا-
4- جس وقت چیف جسٹس کوجبری چھٹی پر بھیجا جارہا تھا ، اس وقت بھی چیف جسٹس پر کوئی الزام نہ تھا ،
لہذا یہ تمام اقدامات بغیر کسی اختیا ر کے بلکہ دستور میں بتائے گئے بلکل صاف طریقہ کار کو نظر انداز کر کے اٹھائے گئے تھے یعنی غیر دستوری تھے۔
5- جس وقت صدر کی طرف سے چیف جسٹس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (کونسل) میں ریفرینس دائر کیا گیا ، اس وقت کونسل کے پاس مختلف ججوں کے خلاف پہلے ہی کئی کیس پینڈینگ تھے، جن میں سے ایک لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف بھی تھا۔ اور اس پینڈینسی کی وجہ کونسل کے نئے ڈرافٹ کیے گے رولز تھے، جو اپروول کے لیے وزارت انصاف کے پاس عرصہ سے پڑے ہوے تھے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پہلے سے پڑے ریفرینسس کو نظر انداز کر کے صرف ایک نئے ریفرینس کو ہی سنا جائے۔
6- دستور میں بتائے گئے طریقے کے مطابق کوئی بھی ریفرنس سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کیا جاتا ہے، جو کونسل کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے، کونسل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، سپریم کورٹ کے دوسرے اور تیسرے سب سے سئیبر ججز اور کسی دو ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز پر مشتمل ہوتی ہے، اگر معاملہ کونسل کے کسی ممبر ہی کے خلاف ہوتو ، اس ممبر سے جونئیر اس کونسل کا ممبر بن جاتا ہے۔ یہ کونسل کسی بھی کیس میں صرف اپنی سفارشات صدر کو بھیجتی ہے ، اور صدر ان کے مطابق عمل درامد کراتا ہے۔ اس کونسل کے پاس کسی بھی جج کو کام سے روکنے کا کوئی اختیا ر نہیں ہوتا، نہ ہی آج تک ایسا ہوا ہے۔
7- کیونکہ ریفرنس چیف جسٹس کے خلاف تھا لہذا کونسل سپریم کورٹ کے دوسرے (جو کونسل کا سربراہ بھی ہوتا) ، تیسرے اور چوتھے سب سے سئنیر ججز اور کسی دو ہایئکورٹس کے چیف جسٹسز مشتمل ہوتی۔ (لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر ایک ریفرینس پہلے ہی کونسل کے سامنے پینڈینگ تھا لہذا ان کو چھوڑ کر)۔ ہوا یہ کہ پہلے چیف جسٹس کو زبردستی قید کر دیا گیا، بعد میں کہا گیا کہ جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے، پھر ایک چیف جسٹس کے ہوتے ہوے ایک اور چیف جسٹس بنا دیا گیا، پھر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی فورا بلا لیا گیا اتفاق سے من چاہے ممبر پہلے سے موجود تھے، اگر کوئی دستوری سپریم جوڈیشل کونسل بن سکتی تھی تو اس کے دستوری چیئرمین رانا بھاگوان داس ، سپریم کورٹ کے دوسرے سب سے سیئنر جج تھے ، کا انتظار ہی نہیں کیا گیا ، اور خود بخود من چاہی کونسل بنالی گئی-
8- اس من چاہی کونسل نے بھی فورا ہی اجلاس بلا کر ، پہلے ریفرنس کو بغیرمبینہ الزامات اور ثبوتوں کے قبول کرلیا ( جی ہاں ، بغیرمبینہ الزامات اور ثبوتوں کہ جو اجازت سے کافی بعد میں پیش کیے گئے،) ، اور پھر ملزم یعنی چیف جسٹس کو سنوائی کا موقعہ دیے بغیر ہی ان کی معطلی کو درست قرار دے دیا گیا۔
جناب یہ وہ اقدامات ہیں جنہیں قانونی شعبدہ بازی بلکہ کھلے عام دستور اور قانون کی دھجیاں اڑانا کہتے ہیں، اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان جیسے فیصلوں کی مثال نہیں ملتی۔
جاری ہے----