سید ذیشان
محفلین
عام طور پر کاغان جانے والوں کی لئے جھیل سیف الملوک دیکھنا لازمی ہوتا ہے اور دوسری جن جگہوں کے لئے جیپ ڈرائیور راضی کر لے۔
بہت سی چیزوں کا انحصار حالات پر ہوتا ہے، جن میں سیاحت کا کل دورانیہ، موسم، بارش، لینڈسلائیڈ، سیلاب اور ہمراہی شامل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ جس جگہ آپ ٹھہرتے ہیں، وہاں پہنچنے کا وقت۔ ناران زیادہ سے زیادہ دوپہر تک پہنچ جائیں(اگر ہوٹل میں بکنگ نہیں ہے تو) اور ہوٹل تلاش کریں۔ اس وقت کمرے کا کرایہ کم ہوتا ہے اور شام تک بتدریج بڑھتا جاتا ہے۔ شام میں آپ جھیل سیف الملوک جا سکتے ہیں۔
ناران سے آگے چار جگہیں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ 1- لالہ زار، 2- جھیل لولوسر، 3- بابوسر ٹوپ (درہ بابوسر: درہ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ٹوپ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔)، 4- نوری ٹوپ(درہ نوری نار)۔ 1 اور 2 تقریباً لازمی ہیں اس کے بعد 3 اور اگر موقعہ ملتا ہے تو 4۔ ایک دن میں چاروں جگہوں کو بمشکل چھوا تو جا سکتا ہے لیکن کسی جگہ وقت گزارنا مشکل ہے۔
ناران سے پہلے تین جگھیں اکٹھی ہیں، 1- شوگراں، 2- سری، 3- پائے۔ شوگراں مری اور ناران کی طرح تباہ ہو چکا ہے اور سوائے ہوٹلوں کے وہاں کچھ نہیں ہے، سری اور پائے دیکھنے کے قابل ہیں- شوگراں تک عام گاڑی جا سکتی ہے لیکن سری اور پائے کے لئے جیپ لینی پڑتی ہے۔ بہتر ہے کہ کیوائی سے سری اور پائے کے لئے جیپ لے لی جائے۔ ایبٹ آباد سے ناران جاتے ہوئے یا واپسی پر آپ یہ جگہیں دیکھ سکتے ہیں۔
وادی نیلم کے لئے اسلام آباد سے مظفرآباد جانا بہتر ہو گا۔
پچھلے سال مسلمانوں کے ایک فرقے (شیعہ) کے لوگوں کو قتل کرنے کا واقعہ بابوسر ٹوپ پر پیش آیا تھا(جہاں جانے کا مشورہ میں آپ کو دے رہا ہوں)۔ کچھ لوگوں نے پاکستانی سیاحوں کی 20 سے زاید گاڑیاں بھی شمالی وادی کاغان میں لوٹی تھیں (غالباً جھیل لولوسر کے آس پاس)۔ اس سال ان علاقوں میں پولیس موجود ہے۔
جو لوگ کسی جاہل دہشتگرد مولوی کے کہنے پر یا کمائی کی غرض سے ایک دن میں ایک ویگن کے تمام مسافروں کو قتل کر دیتے ہیں، وہ آپ کے خیال میں سال کے باقی 364 دن کسی مسجد میں چلے کاٹتے ہوں گے؟؟؟
آپ کی بات درست ہے۔ احتیاط بہرحال لازم ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ واقعہ ایک خاص پس منظر میں ہوا تھا۔ اگرچہ دہشت گردوں کو کسی بہانے کے ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر آپ وڈیو دیکھیں تو ہزار کے قریب لوگ جمع تھے۔ یہ دہشت گردی سے زیادہ ایک بلوا تھا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ نفرت پھیلانے والوں کو کھلے عام چھوٹ دی گئی ہے۔
لیکن اس دھاگے میں ایسی باتیں کر کے شہزاد بھائی کا موڈ خراب نہیں کرتے کہیں وہ بالکل ہی انکاری نہ ہو جائیں۔