جاسم محمد
محفلین
کاغذ کی قوم - محمد عامر خاکوانی
یہ کوئی چونتیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے، جب احمد پورشرقیہ کے سب سے بڑے گورنمنٹ ہائی سکول کی لیبارٹری میں ہم نے زندگی کا پہلا سائنسی تجربہ کیا۔ مجھے درست طریقے سے یاد نہیں، مگر کلورین گیس کا کوئی پریکٹیکل تھا، انھی دنوں فزکس کا بھی ایک تجربہ کیا، روشن دان سے آنے والی سورج کی کرنوں کو شیشے کے پرزم سے گزارا تو ان میں آنے والی تبدیلی کی تفصیل ٹیچر نے بتائی۔ میری یادداشت میں مینڈک پر کیا گیا بیالوجی کا پریکٹیکل بھی یاد ہے، گو نقوش دھندلے سے ہیں۔ اتنا یاد ہے کہ اکا دکا سہی، مگر نویں، دسویں جماعت کے طلبہ لیبارٹری کی شکل دیکھ لیتے تھے، ٹیچر گاہے پریکٹیکل بھی کرا دیتے، اگرچہ جس طرح فردا فرداً ہر طالب علم کو پریکٹیکل کرنے کا موقع ملے، وہ خود اپنے ہاتھ سے ہر کام کرے اور چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرے، ویسا کچھ نہیں تھا۔ شاید اس لیے کہ اچھی خاصی بڑی کلاس تھی، پریکٹیکل کے ایک دو پیریڈز میں انہیں مناسب موقع ملنا ممکن نہیں تھا۔ آلات کی کمی بھی مسئلہ تھی، لیبارٹری اسسٹنٹ کی یہی کوشش ہوتی کہ کسی طرح تمام آلات محفوظ رہیں اور پریکٹیکل کا پیریڈ سکون سے گزر جائے۔
ہم خوش نصیب تھے کہ چلیں بری بھلی جیسی بھی تھی، لیبارٹری تھی، اور برائے نام سہی، مگر ہمیں پریکٹیکل کرنے کا موقع بھی ملا۔ بیشتر جگہوں پر مگر حالات دگرگوں ہی تھے۔ ان دنوں زیادہ تر سرکاری سکول ہی ہوا کرتے، کہیں کچھ سہولت مل جاتی، بیشتر جگہوں پر نہیں۔ نجی شعبے میں جب تعلیمی ادارے کھلنے لگے تو شروع میں یہی کہا گیا تھا کہ یہاں طلبہ کو زیادہ سہولتیں ہوں گی، انھیں پریکٹیکل اور کمپیوٹرز وغیرہ کی عملی تربیت دی جائے گی۔ افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ سرکاری سکولوں کی حالت بھی ابتر ہوتی گئی۔ آج یہ صورتحال ہے کہ بیشتر پرائیویٹ سکولوں میں لیبارٹری نام کی کوئی چیز نہیں، ایک ڈیڑھ کنال میں بنے سکول سے ویسے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ والدین کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کے بچے سائنسی موضوعات کوسمجھ کر پڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ ان کا تمام تر فوکس نمبروں پر ہے۔ سائنسی مضامین کے پریکٹیکل کے لیے باقاعدہ امتحان لیا جاتا ہے، مگر کہیں پر بھی عملی تجربہ نہیں کرایا جاتا، پریکٹیکل کاپی دیکھ کر یا ایک آدھ سوال پوچھ کر نمبر لگ جاتے ہیں۔ زیادہ تر نجی سکولوں والے باقاعدہ کوشش کر کے پریکٹیکل کے سو فیصد نمبر لگواتے ہیں۔ بچے نے میٹرک میں ایک ہزار سے اوپر نمبر لے لیے تو والدین نہال۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ بچوں کو سائنس کا ’’تجرباتی علم‘‘حاصل ہوگیا۔
ادریس آزاد معروف ادیب، شاعر اور استاد ہیں۔ فلاسفی آف سائنس پڑھاتے ہیں، وہ عملی سائنس کے استاد نہیں، مگر ان کی سائنس میں گہری دلچسپی ہے۔ سائنسی موضوعات پر انھوں نے نہایت آسان زبان میں شاندار مضامین لکھے ہیں۔ مشکل ترین سائنسی تھیوری کو وہ اپنی تحریر میں پانی کر دیتے ہیں۔ ادریس آزاد نے سائنس سٹوڈنٹس کو پریکٹیکل کی سہولت نہ ملنے اور اس کے نقصانات پر ایک پرتاثر، آنکھیں کھول دینے والی تحریر لکھی، اس کے چند ٹکڑے نقل کر رہا ہوں۔
ادریس آزاد لکھتے ہیں: ’’میری بیٹی اپنی پریکٹیکل کی کاپی میں ’’ہائیڈروجن کی تیاری‘‘ پر ڈرائنگ بنا کر میرے پاس لائی اور بولی، ’’ابوجی! دیکھیے تو! میں نے کیسی ڈرائنگ بنائی ہے؟‘‘۔ میں نے کاپی تھامی، اْس کی ڈرائنگ دیکھی۔ اچھی تھی، لیکن میں اْسے کوئی داد و تحسین دینے کے بجائے کسی گہری سوچ میں کھو گیا۔ وہ میرے پاس کھڑی کچھ دیر انتظار کرتی رہی اور پھر پوچھنے لگی، ’’کیا بات ہے ابوجی! آپ پریکٹکل کی کاپی دیکھ کر اْداس کیوں ہوگئے ہیں؟‘‘۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا! ایسی ہی پریکٹکل کی کاپی میں نے بھی بنائی تھی۔ میں اب سینتالیس سال کا ہو چکا ہوں۔ آج بھی ہمارے بچے سائنسی تجربات، کاغذ پر ڈرائنگ کر کے کرتے ہیں۔ یہ جو تم نے کاپی بنائی ہے، اس سے تمہیں ہائیڈروجن کی تیاری کا کتنا کچھ پتہ چلا ہوگا؟ کیا یہ ڈرائنگ کا مضمون تھا جس کی تم نے کاپی بنائی؟ بیٹا! تم نے فزکس اور بیالوجی کے تمام تجربات کو بھی ڈرا کرنا ہوگا۔ کچی پنسل سے۔ میٹرک لیول کا طالب علم ہو اور سائنس کے تین بڑے مضمون ہوں جن کی تکمیل خود پاکستان کے تعلیمی قوانین کی رْو سے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان مضامین کے تمام تجربات لیبارٹری میں ہرطالب علم بنفس ِ نفیس پرفارم نہ کرے۔ بورڈ کے قواعد کے مطابق اْس بچے کو میٹرک کی سند نہیں ملتی جسے لیبارٹری میں تجربات کرنے کا موقع نہ ملا ہو لیکن ہم ہیں کہ کچی پنسل سے کاغذ پر ہی تمام تجربات کیے چلے جارہے ہیں۔ پریکٹکل کی کاپیاں بنانے سے بچے کی ڈرائنگ تو ضرور بہتر ہوتی ہے لیکن کیا فزکس، کیمسٹری اوربیالوجی کے تجربات میں بھی کوئی مدد ملتی ہے؟ نہیں نا؟۔ کیونکہ کچی پنسل اور کاغذ سے تجربات تو نہیں ہوسکتے بس صرف ڈرائنگ ہی ہوسکتی ہے۔ تم اگر بیالوجی کی پریکٹکل کی کاپی میں مینڈک کے نظام ِ انہضام (ڈائجسٹو سسٹم) کی تصویر بناؤگی تو تمہیں مینڈک کے نظام ِ انہضام کا پتہ کیسے چلے گا؟ میں نے اتنی باتیں کیں تو میری بیٹی جو حیرت سے میری باتیں سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ سر بھی ہلا رہی تھی کہنے لگی،’’ابوجی! ہمارے سکول میں لیبارٹری تو ہے لیکن ہمیں تجربات کون کروائے؟ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ کیا تمہاری سائنس ٹیچرز کم تعلیم یافتہ ہیں؟ تم خود ہی تو بتارہی تھیں کہ تہمارے سکول کی ٹیچرز یا تو پی ایچ ڈی ہیں یا ایم فل، کم ازکم ایم ایس سی ضرور ہیں۔ اگر وہ اتنی پڑھی لکھی ہیں تو پھر وہ کیوں نہیں کرواسکتیں؟ میری بیٹی خاموش ہوگئی۔
’’حقیقت تو یہ ہے کہ اساتذہ خود جب عملی تجربات کے بغیر اعلیٰ ڈگریاں لے کر آئے ہوں تو پھر وہ اپنے طلبہ کو عملی تجربات کیونکر کروا سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ایسی ہی ایک کاپی میں نے بھی اپنی میٹرک کے زمانہ میں بنائی تھی۔ میری عمر کے اساتذہ بھی تو میری طرح اور میرے جیسے ہونگے۔ پھر مجھے یاد ہے جب میں خود ایک پرائیویٹ سکول میں سائنس ٹیچر تھا تو مجھے جنون ہوا کہ بچوں کو پریکٹیکل کروائے جائیں۔ میں نے سکول کے پرنسپل سے بحثیں کر کے لیبارٹری بنوائی۔ کئی دن ہم سب، یعنی طلبہ اور مَیں لگے رہے۔ اور پھر وہ دن آگیا جب ہمیں پہلا تجربہ کرنا تھا۔ میں نے تھیوڈور کلوزا کی طرح ایک عملی تجربہ کو فقط کتاب میں بار بار پڑھا اور پھر چل پڑا اسے پرفارم کرنے۔ اگلے دن میں نویں اور دسویں کے طلبہ کے درمیان کھڑا کیمسٹری کا کوئی پریکٹیکل کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ زرد فاسفورس کو کھلی ہوا میں لایا جائے تو وہ فوراً جلنے لگ جاتا ہے۔ درمیان میں بڑا سا لکڑی کا ٹیبل تھا اور ہم سب ٹیبل کے چاروں طرف بغیر کسی حفاظتی انتظام کے کھڑے تھے۔ میں نے شیشی میں سے تھوڑی سی زرد فارسفورس نکالی اور ٹیبل پر یونہی رکھ دیا۔ خود میں کسی اور کام میں لگ گیا۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ لڑکوں نے مجھے متوجہ کیا، ’’اوہ ٹیچر! یہ دیکھیں، میز کو آگ لگ گئی۔ میز پر ایک نیلا سا شعلہ جل رہا تھا جبکہ باقی فاسفورس ابھی پگھلی ہوئی شکل میں میز پر آہستہ آہستہ بہہ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے ایک گتا سا اْٹھایا اور آگ کے شعلے پر مار دیا۔ شعلہ تو نہ بجھا البتہ گتے نے بھی آگ پکڑ لی۔ اسی اثنا میں باقی ماندہ فاسفورس بھی آگ بن چکا تھا۔ قصہ مختصر جب تک ہم فاسفورس کو بجھاتے، آدھا میز جل چکا تھا۔ اگلے دن طلبہ کے والدین پرنسپل آفس پہنچ گئے۔ پرنسپل نے مجھے بلوایا۔ خوب ڈانٹ پلائی اور یہ فیصلہ ہوا کہ آج کے بعد اِس سکول میں کوئی پریکٹیکل نہیں کروایا جائے گا۔ اب اگرچہ میں فلسفہ کا مضمون پڑھاتا ہوں لیکن جہاں کہیں سائنس کے طلبہ سے ملوں، پوچھتا رہتا ہوں کہ وہ لیبارٹری میں کیا کرتے رہتے ہیں تو یہ سن کر بے پناہ افسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ اور وہ کچھ، کیوں کرکریں؟ سب ٹیچرز ہی میری طرح ہیں۔
میں نے تھیوڈور کلوزا کا ذکر کیا۔ وہ بھی جرمنی کا ایک کاغذی سائنسدان تھا۔تھیوڈور کلوزا نے سب سے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھاکہ یہ دنیا تھری ڈائمینشنز سے زیادہ ڈائمینشنز کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔کہتے ہیں اس نے تیراکی کے ذریعے اْن ڈائمینشنز کو تصورمیں لانے کا فیصلہ کیا تو بازار سے جاکر ’’تیراکی سیکھیے!‘‘۔۔۔۔۔۔کتاب خرید لایا۔ اور پھر پوری کتاب بار بار پڑھنے کے بعد اس نے گہرے پانی میں چھلانگ لگادی اور مرتے مرتے بچا۔یاد رہے کہ کلوزا کانظریہ جسے بھلا دیا گیا تھا، اب آکر’’ سٹرنگ ‘‘Stringتھیوری کی بنیاد بنا۔پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی جہاں پارٹیکل فزکس پڑھائی جاتی ہے، میں نے اپنے ایک نہایت قریبی جاننے والے ایم فل کے ایک سکالر سے سنا کہ ابھی تک ہم پارٹیکل کی حرکت کا مطالعہ کرنے والے آلات سے محروم ہیں۔ ہمیں ڈمی چیزوں اور ماڈلز کی مدد سے پارٹیکل فزکس پڑھائی جاتی ہے۔ ’’ہمارے سکولوں میں اوّل تو لیبارٹریز ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو عملی تجربات نہیں کروائے جاتے۔ ہم صرف پریکٹکل کی کاپیاں بناتے ہیں۔ کچی پنسل سے ڈرائنگ کرکے تمام تجربات کرتے ہیں ۔ مجھے خود یہ جاننے میں کئی سال لگ گئے تھے کہ پریکٹکل کی کاپی میں جس براسیکا کے پھول کی شکل میں نے بنائی تھی وہ یہی میرے کھیتوں میں اگنے والا سرسوں کا پھول ہے۔ ہم سب کچھ کاغذ پر کرتے ہیں۔ ہم کاغذی قوم ہیں۔ ہمارے کلرک کاغذوں کے بوجھ تلے عمر بِتا دیتے ہیں۔ہمارے سائنسدان تک کاغذی ہیں جو خوابوں اور خیالوں میں ہی ایجادات کرنا جانتے ہیں۔‘‘
یہ کوئی چونتیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے، جب احمد پورشرقیہ کے سب سے بڑے گورنمنٹ ہائی سکول کی لیبارٹری میں ہم نے زندگی کا پہلا سائنسی تجربہ کیا۔ مجھے درست طریقے سے یاد نہیں، مگر کلورین گیس کا کوئی پریکٹیکل تھا، انھی دنوں فزکس کا بھی ایک تجربہ کیا، روشن دان سے آنے والی سورج کی کرنوں کو شیشے کے پرزم سے گزارا تو ان میں آنے والی تبدیلی کی تفصیل ٹیچر نے بتائی۔ میری یادداشت میں مینڈک پر کیا گیا بیالوجی کا پریکٹیکل بھی یاد ہے، گو نقوش دھندلے سے ہیں۔ اتنا یاد ہے کہ اکا دکا سہی، مگر نویں، دسویں جماعت کے طلبہ لیبارٹری کی شکل دیکھ لیتے تھے، ٹیچر گاہے پریکٹیکل بھی کرا دیتے، اگرچہ جس طرح فردا فرداً ہر طالب علم کو پریکٹیکل کرنے کا موقع ملے، وہ خود اپنے ہاتھ سے ہر کام کرے اور چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرے، ویسا کچھ نہیں تھا۔ شاید اس لیے کہ اچھی خاصی بڑی کلاس تھی، پریکٹیکل کے ایک دو پیریڈز میں انہیں مناسب موقع ملنا ممکن نہیں تھا۔ آلات کی کمی بھی مسئلہ تھی، لیبارٹری اسسٹنٹ کی یہی کوشش ہوتی کہ کسی طرح تمام آلات محفوظ رہیں اور پریکٹیکل کا پیریڈ سکون سے گزر جائے۔
ہم خوش نصیب تھے کہ چلیں بری بھلی جیسی بھی تھی، لیبارٹری تھی، اور برائے نام سہی، مگر ہمیں پریکٹیکل کرنے کا موقع بھی ملا۔ بیشتر جگہوں پر مگر حالات دگرگوں ہی تھے۔ ان دنوں زیادہ تر سرکاری سکول ہی ہوا کرتے، کہیں کچھ سہولت مل جاتی، بیشتر جگہوں پر نہیں۔ نجی شعبے میں جب تعلیمی ادارے کھلنے لگے تو شروع میں یہی کہا گیا تھا کہ یہاں طلبہ کو زیادہ سہولتیں ہوں گی، انھیں پریکٹیکل اور کمپیوٹرز وغیرہ کی عملی تربیت دی جائے گی۔ افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ سرکاری سکولوں کی حالت بھی ابتر ہوتی گئی۔ آج یہ صورتحال ہے کہ بیشتر پرائیویٹ سکولوں میں لیبارٹری نام کی کوئی چیز نہیں، ایک ڈیڑھ کنال میں بنے سکول سے ویسے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ والدین کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کے بچے سائنسی موضوعات کوسمجھ کر پڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ ان کا تمام تر فوکس نمبروں پر ہے۔ سائنسی مضامین کے پریکٹیکل کے لیے باقاعدہ امتحان لیا جاتا ہے، مگر کہیں پر بھی عملی تجربہ نہیں کرایا جاتا، پریکٹیکل کاپی دیکھ کر یا ایک آدھ سوال پوچھ کر نمبر لگ جاتے ہیں۔ زیادہ تر نجی سکولوں والے باقاعدہ کوشش کر کے پریکٹیکل کے سو فیصد نمبر لگواتے ہیں۔ بچے نے میٹرک میں ایک ہزار سے اوپر نمبر لے لیے تو والدین نہال۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ بچوں کو سائنس کا ’’تجرباتی علم‘‘حاصل ہوگیا۔
ادریس آزاد معروف ادیب، شاعر اور استاد ہیں۔ فلاسفی آف سائنس پڑھاتے ہیں، وہ عملی سائنس کے استاد نہیں، مگر ان کی سائنس میں گہری دلچسپی ہے۔ سائنسی موضوعات پر انھوں نے نہایت آسان زبان میں شاندار مضامین لکھے ہیں۔ مشکل ترین سائنسی تھیوری کو وہ اپنی تحریر میں پانی کر دیتے ہیں۔ ادریس آزاد نے سائنس سٹوڈنٹس کو پریکٹیکل کی سہولت نہ ملنے اور اس کے نقصانات پر ایک پرتاثر، آنکھیں کھول دینے والی تحریر لکھی، اس کے چند ٹکڑے نقل کر رہا ہوں۔
ادریس آزاد لکھتے ہیں: ’’میری بیٹی اپنی پریکٹیکل کی کاپی میں ’’ہائیڈروجن کی تیاری‘‘ پر ڈرائنگ بنا کر میرے پاس لائی اور بولی، ’’ابوجی! دیکھیے تو! میں نے کیسی ڈرائنگ بنائی ہے؟‘‘۔ میں نے کاپی تھامی، اْس کی ڈرائنگ دیکھی۔ اچھی تھی، لیکن میں اْسے کوئی داد و تحسین دینے کے بجائے کسی گہری سوچ میں کھو گیا۔ وہ میرے پاس کھڑی کچھ دیر انتظار کرتی رہی اور پھر پوچھنے لگی، ’’کیا بات ہے ابوجی! آپ پریکٹکل کی کاپی دیکھ کر اْداس کیوں ہوگئے ہیں؟‘‘۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا! ایسی ہی پریکٹکل کی کاپی میں نے بھی بنائی تھی۔ میں اب سینتالیس سال کا ہو چکا ہوں۔ آج بھی ہمارے بچے سائنسی تجربات، کاغذ پر ڈرائنگ کر کے کرتے ہیں۔ یہ جو تم نے کاپی بنائی ہے، اس سے تمہیں ہائیڈروجن کی تیاری کا کتنا کچھ پتہ چلا ہوگا؟ کیا یہ ڈرائنگ کا مضمون تھا جس کی تم نے کاپی بنائی؟ بیٹا! تم نے فزکس اور بیالوجی کے تمام تجربات کو بھی ڈرا کرنا ہوگا۔ کچی پنسل سے۔ میٹرک لیول کا طالب علم ہو اور سائنس کے تین بڑے مضمون ہوں جن کی تکمیل خود پاکستان کے تعلیمی قوانین کی رْو سے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان مضامین کے تمام تجربات لیبارٹری میں ہرطالب علم بنفس ِ نفیس پرفارم نہ کرے۔ بورڈ کے قواعد کے مطابق اْس بچے کو میٹرک کی سند نہیں ملتی جسے لیبارٹری میں تجربات کرنے کا موقع نہ ملا ہو لیکن ہم ہیں کہ کچی پنسل سے کاغذ پر ہی تمام تجربات کیے چلے جارہے ہیں۔ پریکٹکل کی کاپیاں بنانے سے بچے کی ڈرائنگ تو ضرور بہتر ہوتی ہے لیکن کیا فزکس، کیمسٹری اوربیالوجی کے تجربات میں بھی کوئی مدد ملتی ہے؟ نہیں نا؟۔ کیونکہ کچی پنسل اور کاغذ سے تجربات تو نہیں ہوسکتے بس صرف ڈرائنگ ہی ہوسکتی ہے۔ تم اگر بیالوجی کی پریکٹکل کی کاپی میں مینڈک کے نظام ِ انہضام (ڈائجسٹو سسٹم) کی تصویر بناؤگی تو تمہیں مینڈک کے نظام ِ انہضام کا پتہ کیسے چلے گا؟ میں نے اتنی باتیں کیں تو میری بیٹی جو حیرت سے میری باتیں سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ سر بھی ہلا رہی تھی کہنے لگی،’’ابوجی! ہمارے سکول میں لیبارٹری تو ہے لیکن ہمیں تجربات کون کروائے؟ میں نے کہا، ’’کیوں؟‘‘ کیا تمہاری سائنس ٹیچرز کم تعلیم یافتہ ہیں؟ تم خود ہی تو بتارہی تھیں کہ تہمارے سکول کی ٹیچرز یا تو پی ایچ ڈی ہیں یا ایم فل، کم ازکم ایم ایس سی ضرور ہیں۔ اگر وہ اتنی پڑھی لکھی ہیں تو پھر وہ کیوں نہیں کرواسکتیں؟ میری بیٹی خاموش ہوگئی۔
’’حقیقت تو یہ ہے کہ اساتذہ خود جب عملی تجربات کے بغیر اعلیٰ ڈگریاں لے کر آئے ہوں تو پھر وہ اپنے طلبہ کو عملی تجربات کیونکر کروا سکتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ ایسی ہی ایک کاپی میں نے بھی اپنی میٹرک کے زمانہ میں بنائی تھی۔ میری عمر کے اساتذہ بھی تو میری طرح اور میرے جیسے ہونگے۔ پھر مجھے یاد ہے جب میں خود ایک پرائیویٹ سکول میں سائنس ٹیچر تھا تو مجھے جنون ہوا کہ بچوں کو پریکٹیکل کروائے جائیں۔ میں نے سکول کے پرنسپل سے بحثیں کر کے لیبارٹری بنوائی۔ کئی دن ہم سب، یعنی طلبہ اور مَیں لگے رہے۔ اور پھر وہ دن آگیا جب ہمیں پہلا تجربہ کرنا تھا۔ میں نے تھیوڈور کلوزا کی طرح ایک عملی تجربہ کو فقط کتاب میں بار بار پڑھا اور پھر چل پڑا اسے پرفارم کرنے۔ اگلے دن میں نویں اور دسویں کے طلبہ کے درمیان کھڑا کیمسٹری کا کوئی پریکٹیکل کر رہا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ زرد فاسفورس کو کھلی ہوا میں لایا جائے تو وہ فوراً جلنے لگ جاتا ہے۔ درمیان میں بڑا سا لکڑی کا ٹیبل تھا اور ہم سب ٹیبل کے چاروں طرف بغیر کسی حفاظتی انتظام کے کھڑے تھے۔ میں نے شیشی میں سے تھوڑی سی زرد فارسفورس نکالی اور ٹیبل پر یونہی رکھ دیا۔ خود میں کسی اور کام میں لگ گیا۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ لڑکوں نے مجھے متوجہ کیا، ’’اوہ ٹیچر! یہ دیکھیں، میز کو آگ لگ گئی۔ میز پر ایک نیلا سا شعلہ جل رہا تھا جبکہ باقی فاسفورس ابھی پگھلی ہوئی شکل میں میز پر آہستہ آہستہ بہہ رہی تھی۔ میں نے جلدی سے ایک گتا سا اْٹھایا اور آگ کے شعلے پر مار دیا۔ شعلہ تو نہ بجھا البتہ گتے نے بھی آگ پکڑ لی۔ اسی اثنا میں باقی ماندہ فاسفورس بھی آگ بن چکا تھا۔ قصہ مختصر جب تک ہم فاسفورس کو بجھاتے، آدھا میز جل چکا تھا۔ اگلے دن طلبہ کے والدین پرنسپل آفس پہنچ گئے۔ پرنسپل نے مجھے بلوایا۔ خوب ڈانٹ پلائی اور یہ فیصلہ ہوا کہ آج کے بعد اِس سکول میں کوئی پریکٹیکل نہیں کروایا جائے گا۔ اب اگرچہ میں فلسفہ کا مضمون پڑھاتا ہوں لیکن جہاں کہیں سائنس کے طلبہ سے ملوں، پوچھتا رہتا ہوں کہ وہ لیبارٹری میں کیا کرتے رہتے ہیں تو یہ سن کر بے پناہ افسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ اور وہ کچھ، کیوں کرکریں؟ سب ٹیچرز ہی میری طرح ہیں۔
میں نے تھیوڈور کلوزا کا ذکر کیا۔ وہ بھی جرمنی کا ایک کاغذی سائنسدان تھا۔تھیوڈور کلوزا نے سب سے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھاکہ یہ دنیا تھری ڈائمینشنز سے زیادہ ڈائمینشنز کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔کہتے ہیں اس نے تیراکی کے ذریعے اْن ڈائمینشنز کو تصورمیں لانے کا فیصلہ کیا تو بازار سے جاکر ’’تیراکی سیکھیے!‘‘۔۔۔۔۔۔کتاب خرید لایا۔ اور پھر پوری کتاب بار بار پڑھنے کے بعد اس نے گہرے پانی میں چھلانگ لگادی اور مرتے مرتے بچا۔یاد رہے کہ کلوزا کانظریہ جسے بھلا دیا گیا تھا، اب آکر’’ سٹرنگ ‘‘Stringتھیوری کی بنیاد بنا۔پاکستان کی ایک معروف یونیورسٹی جہاں پارٹیکل فزکس پڑھائی جاتی ہے، میں نے اپنے ایک نہایت قریبی جاننے والے ایم فل کے ایک سکالر سے سنا کہ ابھی تک ہم پارٹیکل کی حرکت کا مطالعہ کرنے والے آلات سے محروم ہیں۔ ہمیں ڈمی چیزوں اور ماڈلز کی مدد سے پارٹیکل فزکس پڑھائی جاتی ہے۔ ’’ہمارے سکولوں میں اوّل تو لیبارٹریز ہی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو عملی تجربات نہیں کروائے جاتے۔ ہم صرف پریکٹکل کی کاپیاں بناتے ہیں۔ کچی پنسل سے ڈرائنگ کرکے تمام تجربات کرتے ہیں ۔ مجھے خود یہ جاننے میں کئی سال لگ گئے تھے کہ پریکٹکل کی کاپی میں جس براسیکا کے پھول کی شکل میں نے بنائی تھی وہ یہی میرے کھیتوں میں اگنے والا سرسوں کا پھول ہے۔ ہم سب کچھ کاغذ پر کرتے ہیں۔ ہم کاغذی قوم ہیں۔ ہمارے کلرک کاغذوں کے بوجھ تلے عمر بِتا دیتے ہیں۔ہمارے سائنسدان تک کاغذی ہیں جو خوابوں اور خیالوں میں ہی ایجادات کرنا جانتے ہیں۔‘‘