فنا بلند شہری کافرِعشق کو کیا سے کیا کر دیا - فنا بلند شہری

کافرِ عشق کو کیا سے کیا کر دیا
بت پرستی نے حق آشنا کر دیا

کوئی دیکھے حقیقت مرے کفر کی
میں نے جس بت کو پوجا خدا کر دیا

پارسائی دھری رہ گئی شیخ کی
چشمِ جادو اثر تو نے کیا کر دیا

دیکھنے والے کعبہ سمجھنے لگے
کتنا روشن ترا نقشِ پا کر دیا

بت برستی میں کی میں نے وہ بندگی
بت کدے کو بھی قبلہ نما کر دیا

اے فناؔ میری میت پہ کہتے ہیں وہ
آپ نے اپنا وعدہ وفا کر دیا​
فنا بلند شہری
 
آخری تدوین:
کافرعشق کو کیا سے کیا کر دیا
بت پرستی نے حق آشنا کر دیا

کوئی دیکھے حقیقت مرے کفر کی
میں نے جس بت کو پوجا خدا کر دیا

پارسائی دھری رہ گئی شیخ کی
چشمِ جادو اثر تو نے کیا کر دیا

دیکھنے والے کعبہ سمجھنے لگے
کتنا روشن ترا نقشِ پا کر دیا

بت برستی میں کی میں نے وہ بندگی
بت کدے کو قبلہ نما کر دیا

اے فناؔ میری میت پہ کہتے ہیں وہ
آپ نے اپنا وعدہ وفا کر دیا

فنا بلند شہری
عام لوگوں کے سامنے ایسے اشعار کہنے سے منع فرمایا گیا ہے
 
آخری تدوین:
یہ لڑی تو متنازع ہورہی ہے۔۔۔
ویسے ظاہری طور پر دوسرا شعر ہمیں بھی سمجھ میں نہیں آیا!!!
عام لوگوں کے سامنے ایسے اشعار کہنے سے منع فرمایا گیا ہے
واہ بھائی بہت زبردست کلام ہے۔عمدہ شراکت
یہ کلام اکثر قوال حضرات نے پڑھا ہے ۔آپ کی خدمت میں یہ کلام قوالی کی صورت میں حاضر ہے۔
بھائی حضرت ابرہیم کا ایک واقعہ اس کے بعد شاید شعر کے کچھ اور ہی معنی سمجھ میں آئے جائے:)
"حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رات جب نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے دیکھے تو سوچنے لگے کہ یہ چمکتے دمکتے ستارے خدا ہوں گے، مگر تھوڑی دیر کے بعد جب ستارے بھی غائب ہو گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سوچنے لگے کہ جن چیزوں پر زوال آ جائے وہ تو خدا نہیں ہوسکتیں اور اب آپ نے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا تو کہنے لگے ستارے تو نہیں یہ چاند ضرور خدا ہو گا۔ مگر جب وہ بھی غائب ہو گیا تو آپ کہنے لگے کہ یہ بھی خدا نہیں ہو سکتا اور اگر خدا مجھے ہدایت نہ دیتا تو یقیناً میں گمراہ ہو گیا ہوتا۔ اب آپ نے جگمگاتے ہوئے روشن سورج کو دیکھا کہ یہ سب سے بڑا ہے، یہی میرا رب ہو گا، لیکن شام کو جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا، اے قوم میں تمہارے ان معبودوں سے سخت بیزار ہوں، جن کو تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اور فرمایا کہ میں اس خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور میں مشرک نہیں ہوں۔"
 

سید عمران

محفلین
بھائی حضرت ابرہیم کا ایک واقعہ اس کے بعد شاید شعر کے کچھ اور ہی معنی سمجھ میں آئے جائے:)
"حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رات جب نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے دیکھے تو سوچنے لگے کہ یہ چمکتے دمکتے ستارے خدا ہوں گے، مگر تھوڑی دیر کے بعد جب ستارے بھی غائب ہو گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سوچنے لگے کہ جن چیزوں پر زوال آ جائے وہ تو خدا نہیں ہوسکتیں اور اب آپ نے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا تو کہنے لگے ستارے تو نہیں یہ چاند ضرور خدا ہو گا۔ مگر جب وہ بھی غائب ہو گیا تو آپ کہنے لگے کہ یہ بھی خدا نہیں ہو سکتا اور اگر خدا مجھے ہدایت نہ دیتا تو یقیناً میں گمراہ ہو گیا ہوتا۔ اب آپ نے جگمگاتے ہوئے روشن سورج کو دیکھا کہ یہ سب سے بڑا ہے، یہی میرا رب ہو گا، لیکن شام کو جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا، اے قوم میں تمہارے ان معبودوں سے سخت بیزار ہوں، جن کو تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اور فرمایا کہ میں اس خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور میں مشرک نہیں ہوں۔"
اس شرح سے بھی شرح صدر نہیں ہوا۔۔۔
شعر میں خدا بنایا جارہا ہے جبکہ شرح میں بچایا جارہا ہے!!!
 
اس شرح سے بھی شرح صدر نہیں ہوا۔۔۔
شعر میں خدا بنایا جارہا ہے جبکہ شرح میں بچایا جارہا ہے!!!
میرے بھائی اس میں بھی پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام محتلف چیزوں کو خدا ہی مانتے ہیں اور پھر بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اصل خدا کی پہچان ہوتی ہے:)
 

محمد وارث

لائبریرین
باقی اس موضوع پر خسرو کا شعر حرفِ آخر ہے

خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آرے آرے می کنم، با خلق ما را کار نیست
لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں کرتا ہوں، لوگوں سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں (کہ یہ میرا اور میرے خالق کا معاملہ ہے)۔
 
پیارے بھائی، جو شاعری مجھے سمجھ نہیں آتی، اس سے دور ہی رہتا ہوں۔ :)

میرے خیال میں ایسے اشعار لطف و وجدان کے لیے ہی ہوتے ہیں نہ کہ شرح و بسیط کے لیے۔ شعر سنیے پڑھیے، جھومیے، اللہ اللہ کیجیے۔ :)
شکریہ سر:)
 

سید عمران

محفلین
وَٱلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ ٱلۡغَاوُ ۥنَ (٢٢٤) أَلَمۡ تَرَ أَنَّهُمۡ فِى ڪُلِّ وَادٍ۬ يَهِيمُونَ (٢٢٥) وَأَنَّہُمۡ يَقُولُونَ مَا لَا يَفۡعَلُونَ (٢٢٦)

اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ ہی کرتے ہیں. کیا تم نےنہیں دیکھاکہ وہ ہر میدان میں بھٹکتے پھرتے ہیں. اور جو وہ کہتے ہیں کرتے نہیں.
 
Top