کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا (غزل: ماجد صدیقی)

عاطف بٹ

محفلین
کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو ہوا اور نہ دینا​
پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں
گھاؤ کوئی اے موجِ صبا! اور نہ دینا​
کیا درد بٹاؤ گے کہ جس سحر میں ہم ہیں
پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا​
صنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر
اس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دینا​
حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی
اس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا​
ہے اس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم
ماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا​
 
Top