کالا باغ ڈیم‘ایک ڈراؤنا خواب ۔۔از جمیل مرغز

Dilkash

محفلین
کالا باغ ڈیم‘ایک ڈراؤنا خواب
سیلاب کے بعد پنجاب سے مسلسل یہ آوازیں آرہی ہیں کہ اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو یہ سیلاب نہ آتا یہ ایک غلط تاثر ہے جو بعض مفاد پرست عناصر نے پیدا کیا ہے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA)کے سابق چئر مین اور ملک کے ایک مایہ ناز انجنےئرمحترم فتح اللہ گنڈاپور نے ایک انٹرویو میں کالا باغ ڈیم کے بارے میں چند حقائق بیان کئے ہیں یہ حقائق قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہیں ۔

محترم فتح اللہ نے کہا ہے کہ بعض مفاد پرست حلقوں کی وجہ سے واپڈا نے کالاباغ ڈیم کی ناجائز رٹ لگا کر قوم کے 36سال ضائع کر دیے قوم کو اس وقت نہیں بلکہ ہمیشہ سے ڈیموں کی سخت ضرورت تھی اور ہے حکومت کو چاہیے کہ اہمیت کے پیش نظر اس مسئلے کو ترجیحات میں سر فہرست رکھے ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کالاباغ ڈیم کے سراب کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی پوری توجہ کٹ زرہ ڈیم پر مرکوز کرے‘ کٹ زرہ سکردو سے 20 میل نیچے دریائے سندھ پر واقع ہے اس ڈیم میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت کالاباغ ڈیم سے6گنا زیادہ ہے اس ڈیم میں 35ملین ایکڑ فٹ (MAF)پانی جمع کرنے کی گنجائش موجود ہے

اگر یہ ڈیم وقت پر بن جاتا تو حالیہ سیلابوں کی شدت میں بہت زیادہ کمی ہوتی حکومت کو ضلع دیر میں دریائے پنچکوڑہ پر گورہ ڈوپ ڈیم (Guroh Dop)کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دریائے سوات پر کالام کے مقام پر بھی ڈیم تعمیر کرنا چاہیے ان ڈیموں کی تعمیر سے مستقبل میں نچلے علاقوں جیسے چارسدہ ‘پشاور ‘ نوشہرہ ‘پنجاب اور سندھ میں سیلابوں کے خطرات بہت کم ہو سکتے ہیں انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ منڈہ ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سوات اور پنچکوڑہ کا پانی چارسدہ اور نوشہرہ میں تباہی نہیں پھیلا سکے گا منڈا ڈیم ایک بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے اور یہ بجلی دریا کی سطح برقرار (run of the river)رکھتے ہوئے پیدا کی جائے گی منڈا ڈیم کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا نہیں ہے ۔

ان کے مطابق یہ مفروضہ بھی غلط اندازوں پر قائم ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے موجودہ سیلاب کی تباہی کو روکا جا سکتا تھا کالاباغ ڈیم کی فزیبیلٹی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ سیلابی پانی کو روکنے کا منصوبہ نہیں ہے اس ڈیم کی موجودگی میں سیلاب کی تباہ کاری بہت زیادہ ہوتی ان کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ سیلابوں سے قبل کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہوچکی ہوتی تو پبی سے آگے تک تمام وادی پشاور‘مردان اور صوابی کے اضلاع پانی میں ڈوب چکے ہوتے دریائے سندھ کا پانی جب اٹک سے ٹکرا کر واپس آتا تو دریائے کابل کے پانی کے ساتھ مل کر وہ تباہی وادی پشاور اور ملحقہ اضلاع میں پھیلاتا کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کالاباغ کی جھیل کی وجہ سے یہ محسوس ہوتا کہ جیسے اٹک کی پہاڑیوں کے درمیان دریا کے تنگ راستے پر ڈیم تعمیر ہوا ہو۔

ہنزہ ‘گلگت بلتستان ‘کوہ ہمالیہ کے دیگر ندی نالوں‘ضلع کو ہستان ‘ضلع شانگلہ ‘ضلع بٹگرام ‘ضلع مانسہرہ ‘وادی کاغان ‘ضلع تور غر‘ضلع ایبٹ آباد اور ضلع ہری پور کے تمام ندی نالوں اور دریا ئے سندھ کا پانی ایک طرف سے اور ضلع سوات ‘ضلع دیر ‘ضلع چترال ‘ملاکنڈ ایجنسی ‘باجوڑایجنسی ‘مہمند ایجنسی ‘خیبر ایجنسی اور کوہ ہندو کش کے تمام دریاؤں ‘ندی نالوں کا پانی دریائے کابل کے پانیوں سے مل کر دوسری طرف سے اٹک کے مقام پر اکٹھاہوتا ہے یہ تمام پانی یہاں پر ایک تنگ گھاٹی سے گزرتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے اٹک کی اس تنگ گھاٹی کی چوڑائی 1000 میٹرسے کم ہے اتنا زیادہ پانی جب بغیر رکاوٹ کے یہاں سے گزرتا ہے تو اس کی رفتار کم ہوکر پچھلے علاقوں میں تباہی پھیلاتا ہے اب اگر اس پانی کے سامنے ایک دیوار کھڑی کردی جائے تو پختونخواہ میں جو تباہی ہوگی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا سیلاب کا یہ پانی سطح سمندر سے 970فٹ کی بلندی تک ہر شے کو بہا کر لے جاتا یہ امکان بھی ہوتا کہ سیلاب کا یہ ریلا کالاباغ ڈیم کے کناروں سے نکل کر ڈیم کو اور نچلے علاقوں کو بھی زیادہ نقصان پہنچاتا ۔

واپڈا نے جن ماہرین (consultants) کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی فیزیبلیٹی رپورٹ تیار کروائی تھی ان کے ٹرمز آف ریفرنس میں یہ بات لکھ دی گئی تھی کہ اس ڈیم کا ڈیزائن ایسا تیا رکیا جائے جس میں ایک ہائی لیول نہر کی گنجائش رکھی گئی ہو یہ نہر 170میل لمبی ہوتی اس میں پانی کی گنجائش 15000کیوسک ہوتی اس نہر کا مقصد جہلم دریا کے سسٹم کو تقویت دینا تھا یہ تمام مراحل ابتدائی اندازے تھے جب ماہرین نے اس ڈیم کا بغور مطالعہ کیا تو اس منصوبے کی کمزوریاں اور ان کے ساتھ جڑے ہوئے تباہی کے خطرات ان پر آشکارہ ہوئے اس کے علاوہ واپڈا نے ماہرین سے کہا تھا کہ اس ڈیم میں ایک ایسی پانی کی جھیل بنانی ہے جس کی بلندی سطًح سمندر سے 925 فٹ ہو اس ڈیم کے لئے تجویز کیا گیا تھا کہ اس کی آدھی بلندی پر ایک ہائیڈرالک نکاسی آب کا ایک سسٹم بنایا جائے یہ سسٹم 50سیلابی پانی کے دنوں کے لئے ہو جب کہ سیلابی پانی کا دورانیہ یہاں 100دن ہوتا ہے ۔

اس ڈیم کا ایک بڑا مسئلہ اس میں مٹی کا جمع ہونا ہے دریائے سندھ میں بھی ریت آتی ہے لیکن دریائے کابل میں بہت زیادہ مٹی آتی ہے واپڈا کا خیال تھا کہ یہ مٹی نکالی جاسکتی ہے ماہرین کی رائے تھی کہ اگر اس ڈیم میں بیراجوں کی طرح بالکل نیچے دروازے بنائے جائیں تو 100 سیلابی پانی کے دنوں میں اس میں جمع شدہ مٹی کا اخراج ممکن ہے ان ماہرین نے واپڈا کو خبر دار کیا تھا کہ اس ڈیم میں بہت تیزی سے مٹی جمع ہوگی اور سیلاب کے دنوں میں اس ڈیم کے ساتھ ٹکرا کردریائے کابل میں واپس جانے والا پانی وادی پشاور کے لئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے اس ڈیم کی پراجیکٹ رپورٹ کے مطابق ’’ کالاباغ کے مقام پر دریائے سندھ میں آنے والی ریت اور دریائے کابل میں آنے والی مٹی کی وجہ سے اس ڈیم کے ڈیزائن اور اس میں بننے والے ذخیرہ آب پر بہت برااثر پڑ سکتا ہے

اس مٹی اور ریت کی زیادتی کی وجہ سے اس ڈیم کے ذخیرہ آب میں پانی کی مقدار میں کمی ہوسکتی ہے اس طرح اس ڈیم سے آبپاشی کے لئے استعمال ہونے والے پانی کا فائدہ بھی کم ہوسکتا ہے ڈیم کی جھیل میں جمع ہونے والی یہ ریت اور مٹی دریا کے سیلابی پانی کو واپس نوشہرہ اور وادی پشاور میں جانے میں کردار ادا کر سکتی ہیں اس طرح یہ ثابت ہوگیا کہ اگر مٹی اور ریت کے نکالنے کے لئے ڈیم کی بنیادوں میں بیراج کی طرح دروازے نہیں بنائے گئے جو جھیل کو بالکل خالی کرکے دریا کے لیول تک لے آتے اس وقت تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ الٹا ڈیم بھر جانے کی وجہ سے پشاور کی وادی میں سیلاب کا اندیشہ رہے گا

اس طرح ماہرین کی رائے ہے کہ اس ڈیم میں مٹی اور ریت اتنی تیزی سے جمع ہوگی کہ آخرکار بجلی اسی پانی سے پیدا ہوگی جو دریا میں آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کچھ عرصے کے بعد آبپاشی کے مقاصد کے لئے بھی نا قابل استعمال ہو جائے گا ان ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ ڈیم بننے سے دریا کی رفتار میں کمی ہوگی اس طرح اوپر کے علاقوں میں بھی دریا کی تہہ میں مٹی جمع ہوکر دریا کی سطح میں اضافے کا باعث بنے گی جس سے ہر وقت سیلابوں کا خدشہ بڑھتا جائے گا ۔

واپڈا کے چئرمین شکیل درانی نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ آئندہ آٹھ دس سال تک پاکستان صرف بھاشا ڈیم ہی بنا سکتا ہے اس لئے کسی اور ڈیم کے متعلق سوچنا بھی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم موجود ہوتا تو موجودہ سیلاب کی تباہی اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ان کا کہنا ہے کہ اس صورت میں وادی پشاور اور مردان صوابی بھی ڈوب جاتے اس لئے سیاسی رہنماؤں ‘صحافیوں اور دیگر دانشوروں سے گزارش ہے کہ وہ کالاباغ ڈیم کی بجائے عوام کو درپیش دیگر مسائل کی طرف توجہ دیں اب کالاباغ ڈیم کے متعلق بحث بند ہونی چاہیے کالابا غ ڈیم کے متعلق صوبہ پختونخواسے زیادہ تحفظات صوبہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو ہیں وہ کبھی بھی اس منصوبے کو تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔
 

Dilkash

محفلین
اس انٹر ویو کا کوئی ربط ؟

ربط بولے تو؟


اگر ریفرینس حوالہ چاہیئے تو یہ رھا۔
http://dailyaaj.com.pk/Columns-New-Details.php?ColumnistId=9&ColumnId=2202

اور یہ انٹرویو شائید نہیں ہے بلکہ کسی نے کالم لکھا ہے۔

اب یہ نہ پوچھنا کہ کالم او انٹرویو میں کیا فرق ھے؟ میں اسکا جوب نہیں دے سکتا کیونکہ میں خود ادب کا ایک ادنی قاری ھوں
 

طالوت

محفلین
سیلاب کے بعد پنجاب سے مسلسل یہ آوازیں آرہی ہیں کہ اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو یہ سیلاب نہ آتا یہ ایک غلط تاثر ہے جو بعض مفاد پرست عناصر نے پیدا کیا ہے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA)کے سابق چئر مین اور ملک کے ایک مایہ ناز انجنےئرمحترم فتح اللہ گنڈاپور نے ایک انٹرویو میں کالا باغ ڈیم کے بارے میں چند حقائق بیان کئے ہیں یہ حقائق قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش
اگر حوالہ پہلے فرما دیا کریں تو ایسے سوالا ت کی نوبت نہ آئے ۔ کالم انٹرویو کا فرق مجھے پتا ہے آپ اپنے ادنی سے قاری کے دماغ پر بوجھ نہ ڈالیں ۔
 

طالوت

محفلین
ویسے ان “پرمغز حقائق“ کو افشاء کرنے والے محمد جمیل کے تعارف سے اس کے حقائق کا اندازہ ہو رہا ہے اور موصوف نے بھی یہ نہیں بتایا کہ یہ انٹرویو کب اور کس نے کیا ؟
 

Dilkash

محفلین
چلو اچھا ہے کہ اپکو اندازہ تو ہوا۔
اپ کے شہرت کے تو ڈنکے بج رہے ہیں۔ اردو ادب کے مشاہیروں اور منورین میں اپکا شمار ہوتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
آپ تو غصہ فرما گئے حالانکہ غصہ ہونے والی کوئی بات نہیں اس میں۔ اگر آپ ہی /بھی محمد جمیل ہیں تو بجا فرمایا ۔;)
 

Dilkash

محفلین
جنا ب اچھا ہوا رمضان کی خاطر شائید نے معاف فرمایا۔
اللہ اپکو اجر دیگا۔
محمد جمیل بہت ہی سنئیر لکھاری ہیں اور پشاور میں اردو کے جتنے بھی اخبار ہیں وہ سوچے اور سچے محب الوطن پاکستانیوں کے ھیں۔جن میں زیادہ تر ہندکو پوٹہاری سپیکنگ کشمیری وغیرہ ہیں
وہ کبھی ایسے لکھاری کا مضمون شائیع نہیں کریں گے جس میں فرقہ پرستی یا صوبائی تعصب کا عنصر پایا جاتا ھو۔
لھذا میری گزارش یہ ہے کہ ہم اپنے سنئیر پر اعتماد کرکے انکی باتوں میں سچائی تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
بہت شکریہ
 

طالوت

محفلین
تربیلا اور منگلا کے مخالفین کو آج اگر ان کی قبروں سے نکال کر خاکستر کیا جائے تو زیادتی نہ ہو گی ، اگلے پچاس برسوں میں اگر یہی بات کالاباغ مخالفوں کے بارے میں کسی نے کہی تو حیرانگی کی بات ہرگز نہ ہو گی ۔ پنجابیوں کو تو ایک طرف رکھیں لٹیرے کہیں کے اور ماہرین آب پاشی پر لعنت بھیجیں فرنگی اوڑھنے بچھونے فرنگی تعلیم فرنگی ایجنٹ، شمس الملک (پختون) سابق چئیر مین واپڈا کی باتوں پر ہی یہ سینئرحضرات کان دھر لیں تو اس قوم پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔۔
وسلام
 

Dilkash

محفلین
تربیلا اور منگلا کے مخالفین کو آج اگر ان کی قبروں سے نکال کر خاکستر کیا جائے تو زیادتی نہ ہو گی ، اگلے پچاس برسوں میں اگر یہی بات کالاباغ مخالفوں کے بارے میں کسی نے کہی تو حیرانگی کی بات ہرگز نہ ہو گی ۔ پنجابیوں کو تو ایک طرف رکھیں لٹیرے کہیں کے اور ماہرین آب پاشی پر لعنت بھیجیں فرنگی اوڑھنے بچھونے فرنگی تعلیم فرنگی ایجنٹ، شمس الملک (پختون) سابق چئیر مین واپڈا کی باتوں پر ہی یہ سینئرحضرات کان دھر لیں تو اس قوم پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔۔
وسلام
بھائی میرے یہ سب سیاست کے مداریوں کا کھیل ہے۔
ہر کوئی اپنی سیاسی دکان کسی نہ کسی طور پہ چلان رہا ہے بھلا کوئی تعمیر کس طرح ملک اور قوم کے خلاف یا ایک ملک کے عوام کے خالف استعمال کی جاسکتی ہے؟
اگر کالا باغ ڈیم بنتا تو کم از کم اج ہم لوگ تو بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم تو ہوتے
مگر ہمارے سیاسی مداریوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اس ملک کو خوسحالی کی طرف لے جانے نہیں دینا
انگریز جب جارہے تھے تو اپنے پیچھے اپنے نمک خواروں سے یہ عہد لے کر گئے کہ یہ ملک محب وطن لوگوں کے ھاتھوں میں نہ جانے پائے ورنہ نہ تم ھونگے نہ تماری جائیداد۔
جاگیرداروں ، وڈیروں، خانوں، اور نوابوں نے اگر پاکستان بنانے کی بات کی تھی تو صرف اپنی جائیداد کو قومی ملکیت سے بچانے کی خاطر کی تھی ورنہ نہ وہ اسلام چاہتے تھے اور نہ کوئی نیا ملک ۔
کیونکہ باقی سہولتیں انکو مشترک انڈیا میں بھی حاصل تھی صرف یہ خوف تھا کہ ہندوستان کی قومی پالیسی کے تحت ہماری انگریزوں اور مغلوں کی وقت سے منتقل ہونی والی جائیداد کہیں قومی ملکیت میں ضم نہ ھوجائے۔
 
Top