فرحت کیانی
لائبریرین
“تم فی الحال اپنے بارے میں سوچو کہ تمہارا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے۔!“
“کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔!“
“اسی برتے پر اکیلے نکل کھڑی ہوئی تھیں۔!“
“یہاں کس میں اتنی جرات ہے کہ خان کے خلاف میرا ساتھ دے سکے۔!“
وہ گاڑی سے اتر کر چاروں طرف نظریں دورانے لگی۔ پھر پلٹ کر عمران سے بولی ۔“دو ڈھائی میل کا سفر اور باقی ہے۔ اگر ہم ابھی روانہ ہو جائیں تو غروبِ آفتاب سے قبل سبوچہ پہنچ جائیں گے۔!“
عمران نے جوزف کو پھر کچھ ہدایات دی تھیں اور گاڑی پھر سڑک پر آ نکلی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ بستی میں داخل ہوئے تھے اور زینو نے ایک ایسے باغ کی طرف رہنمائی کی تھی جہاں متعدد خیمے نصب تھے اور کچھ گاڑیاں بھی کھڑی ہوئی تھیں۔!
“کچھ سیاح یوں بھی گزر کرتے ہیں یہاں۔۔۔۔!“ اُس نے کہا۔
“ہمارے لئے بھی یہی مناسب رہے گا۔!“ جوزف بولا۔ “کسی ہوٹل کی گھٹن سے لاکھ درجہ بہتر۔!“
“لیکن اس کے باوجود بھی گاڑی کی نگرانی کرنی پڑے گی۔!“
“میری موجودگی میں کوئی اُسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔“ جوزف نے کہا۔
“ویسے بھی کوئی جرات نہیں کرے گا۔۔۔۔ کیونکہ اس پر قومی فوج کا نشان موجود ہے۔!“ عمران نے کہا۔
“اوہ۔۔۔۔تو تمہارا تعلق فوج سے ہے۔!“ زینو اُسے غور سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“پھر یاد دلاؤں کہ یہ ایک شعبدہ باز کی گاڑی ہے۔!“ عمران نے کہا۔“ خیر۔۔۔۔! ہاں تو صورت یہ ہوگی کہ تم گاڑی میں سوؤ گی اور ہم دونوں خیمے میں رہیں گے۔۔۔۔ایک چھوٹا سا خیمہ میں بھی لایا ہوں۔!“
میری وجہ سے۔۔۔۔تم لوگ بھی زحمت میں پڑے ہو۔!“ زینو نے کہا اور آئینہ اٹھا کر پھر اپنا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔پھر اس طرح چونک پڑی جیسے کسی نئے خیال نے ذہن میں جنم لیا ہو۔!
سنو دوست۔۔۔۔!“ اُس نے عمران کو مخاطب کیا۔ “میں یوریشین نہیں بلکہ ایک فرانسیسی لڑکی ہوں۔۔۔۔زینو نہیں بلکہ زیاناں نام ہے۔!“
“کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔!“
“اسی برتے پر اکیلے نکل کھڑی ہوئی تھیں۔!“
“یہاں کس میں اتنی جرات ہے کہ خان کے خلاف میرا ساتھ دے سکے۔!“
وہ گاڑی سے اتر کر چاروں طرف نظریں دورانے لگی۔ پھر پلٹ کر عمران سے بولی ۔“دو ڈھائی میل کا سفر اور باقی ہے۔ اگر ہم ابھی روانہ ہو جائیں تو غروبِ آفتاب سے قبل سبوچہ پہنچ جائیں گے۔!“
عمران نے جوزف کو پھر کچھ ہدایات دی تھیں اور گاڑی پھر سڑک پر آ نکلی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ بستی میں داخل ہوئے تھے اور زینو نے ایک ایسے باغ کی طرف رہنمائی کی تھی جہاں متعدد خیمے نصب تھے اور کچھ گاڑیاں بھی کھڑی ہوئی تھیں۔!
“کچھ سیاح یوں بھی گزر کرتے ہیں یہاں۔۔۔۔!“ اُس نے کہا۔
“ہمارے لئے بھی یہی مناسب رہے گا۔!“ جوزف بولا۔ “کسی ہوٹل کی گھٹن سے لاکھ درجہ بہتر۔!“
“لیکن اس کے باوجود بھی گاڑی کی نگرانی کرنی پڑے گی۔!“
“میری موجودگی میں کوئی اُسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔“ جوزف نے کہا۔
“ویسے بھی کوئی جرات نہیں کرے گا۔۔۔۔ کیونکہ اس پر قومی فوج کا نشان موجود ہے۔!“ عمران نے کہا۔
“اوہ۔۔۔۔تو تمہارا تعلق فوج سے ہے۔!“ زینو اُسے غور سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“پھر یاد دلاؤں کہ یہ ایک شعبدہ باز کی گاڑی ہے۔!“ عمران نے کہا۔“ خیر۔۔۔۔! ہاں تو صورت یہ ہوگی کہ تم گاڑی میں سوؤ گی اور ہم دونوں خیمے میں رہیں گے۔۔۔۔ایک چھوٹا سا خیمہ میں بھی لایا ہوں۔!“
میری وجہ سے۔۔۔۔تم لوگ بھی زحمت میں پڑے ہو۔!“ زینو نے کہا اور آئینہ اٹھا کر پھر اپنا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔پھر اس طرح چونک پڑی جیسے کسی نئے خیال نے ذہن میں جنم لیا ہو۔!
سنو دوست۔۔۔۔!“ اُس نے عمران کو مخاطب کیا۔ “میں یوریشین نہیں بلکہ ایک فرانسیسی لڑکی ہوں۔۔۔۔زینو نہیں بلکہ زیاناں نام ہے۔!“