کالی کہکشاں ۔۔۔۔ ص 366-400

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
“تم فی الحال اپنے بارے میں سوچو کہ تمہارا اگلا قدم کیا ہونا چاہئے۔!“
“کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔!“
“اسی برتے پر اکیلے نکل کھڑی ہوئی تھیں۔!“
“یہاں کس میں اتنی جرات ہے کہ خان کے خلاف میرا ساتھ دے سکے۔!“
وہ گاڑی سے اتر کر چاروں طرف نظریں دورانے لگی۔ پھر پلٹ کر عمران سے بولی ۔“دو ڈھائی میل کا سفر اور باقی ہے۔ اگر ہم ابھی روانہ ہو جائیں تو غروبِ آفتاب سے قبل سبوچہ پہنچ جائیں گے۔!“
عمران نے جوزف کو پھر کچھ ہدایات دی تھیں اور گاڑی پھر سڑک پر آ نکلی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ بستی میں داخل ہوئے تھے اور زینو نے ایک ایسے باغ کی طرف رہنمائی کی تھی جہاں متعدد خیمے نصب تھے اور کچھ گاڑیاں بھی کھڑی ہوئی تھیں۔!
“کچھ سیاح یوں بھی گزر کرتے ہیں یہاں۔۔۔۔!“ اُس نے کہا۔
“ہمارے لئے بھی یہی مناسب رہے گا۔!“ جوزف بولا۔ “کسی ہوٹل کی گھٹن سے لاکھ درجہ بہتر۔!“
“لیکن اس کے باوجود بھی گاڑی کی نگرانی کرنی پڑے گی۔!“
“میری موجودگی میں کوئی اُسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکے گا۔“ جوزف نے کہا۔
“ویسے بھی کوئی جرات نہیں کرے گا۔۔۔۔ کیونکہ اس پر قومی فوج کا نشان موجود ہے۔!“ عمران نے کہا۔
“اوہ۔۔۔۔تو تمہارا تعلق فوج سے ہے۔!“ زینو اُسے غور سے دیکھتی ہوئی بولی۔
“پھر یاد دلاؤں کہ یہ ایک شعبدہ باز کی گاڑی ہے۔!“ عمران نے کہا۔“ خیر۔۔۔۔! ہاں تو صورت یہ ہوگی کہ تم گاڑی میں سوؤ گی اور ہم دونوں خیمے میں رہیں گے۔۔۔۔ایک چھوٹا سا خیمہ میں بھی لایا ہوں۔!“
میری وجہ سے۔۔۔۔تم لوگ بھی زحمت میں پڑے ہو۔!“ زینو نے کہا اور آئینہ اٹھا کر پھر اپنا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔پھر اس طرح چونک پڑی جیسے کسی نئے خیال نے ذہن میں جنم لیا ہو۔!
سنو دوست۔۔۔۔!“ اُس نے عمران کو مخاطب کیا۔ “میں یوریشین نہیں بلکہ ایک فرانسیسی لڑکی ہوں۔۔۔۔زینو نہیں بلکہ زیاناں نام ہے۔!“​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میری طرف سے کھلی اجازت ہے جو قومیت چاہو اختیار کرلو۔ لیکن اس سے فائدہ کیا ہوگا۔!“
“ہم کہکشاں میں داخل ہو سکیں گے۔۔۔۔ خان غیرملکیوں کو محل دیکھنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی مہمان بھی بنا لیتا ہے۔۔۔۔اور فوجیوں سے بھی نہیں اُلجھتا۔۔۔۔کبھی کبھی فوجی آفیسر بھی کہکشاں میں دیکھے گئے ہیں۔ تم کیوں نہ کسی فوجی آفیسر کا سوانگ رچاؤ۔۔۔۔میں فرانس سے آئی ہوں۔۔۔۔ اور یہ تمہارا نیگرو باڈی گارڈ میرا باڈی گارڈ بن جائے۔۔۔۔یعنی یہ میرے ساتھ فرانس ہی سے آیا ہے۔۔۔۔ میری اور تمہاری پرانی دوستی ہے۔۔۔۔اور میں یہاں تمہاری مہمان ہوں۔۔۔۔ اگر اس طرح کہکشاں میں رسائی ہو گئی تو پھر سمجھو کام بن گیا۔۔۔۔ میں عمارت کے چپے چپے سے واقف ہوں لیکن ٹھہرو۔۔۔۔ کیا تم میں اتنی ہمت ہے کہ صدر کے پولیٹیکل ایجنٹ سے مل کر اُس سے محل میں داخلے کی سفارش کرا سکو۔۔۔۔!“
“فکر نہ کرو۔۔۔۔ یہ بھی ہو جائے گا۔۔۔۔ ویسے تمہیں سوجھی خوب ہے۔۔۔!“
“ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔!“
“خیر تو اب تم مجھے کرنل عمران کہہ کر مخاطب کر سکتی ہو۔۔۔۔!“
دفعتاً جوزف کی آواز سنائی دی۔ “باس۔۔۔۔! وہ لوگ پھر ادھر ہی آرہے ہیں۔!“
“آنے دو۔۔۔۔!“ عمران نے کہا اور زینو سے بولا “ہماری گفتگو کے دوران میں اس طرح غیرمتعلق نظر آنے کی کوشش کرنا جیسے زبان کو سمجھ نہیں سکتیں۔!“
“میں احتیاط رکھوں گی۔!“
وہ قریب آ گئے۔۔۔۔ اس بار اُن کے ساتھ ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا اور یہ چہرہ قوت اور درندگی کا مظہر بھی تھا۔
گاڑی کے قریب پہنچ کر اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ “فوج کی گاڑی ہے۔!“
وہ صرف گاڑی ہی کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔۔۔۔اُن لوگوں سے کچھ پوچھا نہ تھا۔
پھر وہ خیموں میں جھانکتے پھرے تھے زینو انہیں بغور دیکھتی رہی تھی۔ عمران اور جوزف لاتعلق نظر آ رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد عمران نے کہا تھا۔ “شاید تمہاری ہی تلاش جاری ہے۔!“
“تم نے اُس آدمی کو دیکھا۔۔۔۔وہ جس کی پیشانی پر لمبا سا زخم کا نشان تھا۔!“ زینو نے پوچھا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ہاں۔۔۔۔ لیکن گاڑی کی تلاشی لیتے وقت ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھا۔!“
“میں نے اُسے حلئے سے پہچانا ہے۔۔۔۔داراب، وہی تھا۔۔۔۔! خان کا خصوصی مصاحب، صرف نام سنتی رہی تھی۔۔۔۔آج پہلی بار دیکھا ہے۔۔۔۔ بابا کو اسی نے گرفتار کیا تھا۔! لیکن سنو۔۔۔۔ کیا تمہاری گاڑی پر اُس وقت فوج کا نشان موجود نہیں تھا جب انہوں نے تلاشی لی تھی۔!“
“موجود تھا۔۔۔۔ انہوں نے توجہ نہ دی ہوگی۔۔۔۔ ویسے نشانات بدلے بھی جا سکتے ہیں۔۔۔۔ کہو تو پل بھر میں اسے کسی فلم کمپنی کی ملکیت بنا دوں۔!“
“آخر تم ہو کیا چیز۔۔۔۔؟“
“اس نشان کے ساتھ تو کرنل ہوں۔۔۔۔ فلم کمپنی والے نشان کے ساتھ ماسٹر جھاپک کہلاؤں گا۔ ویسے بات صرف اتنی سی ہے کہ مجھے کتے نے کاٹا تھا۔۔۔۔!“
وہ اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔۔۔۔ دفعتاً بولی۔ “ یہ تم نے کتوں کی تصویریں گاڑی میں کیوں لٹکا رکھی ہیں۔!“
“جب سے کتے نے کاٹا ہے۔۔۔۔ یہ کیفیت ہو گئی ہے۔!“
“میں اُنہیں اتار کر پھینک دوں گی۔۔۔۔ مجھے کتے اچھے نہیں لگتے۔!“
“اچھے تو مجھے بھی نہیں لگتے۔۔۔۔ لیکن بہرحال کتوں ہی میں زندگی بسر کرنی ہے۔!“
“بسااوقات تمہاری کوئی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔!“
“آج تو پہلا ہی دن ہے۔!“
“لیکن مجھے پورا ایک سال لگ رہا ہے۔!“
“کبھی کتے نے تو نہیں کاٹا تھا۔!“
“ختم کرو فضول باتیں۔۔۔۔ اب ہمیں صرف اس کی فکر ہونی چاہئیے کہ جلدازجلد کہکشاں تک رسائی ہو جائے۔!“
“وہ بھی ہو جائے گا۔۔۔۔ میں پولیٹیکل ایجنٹ سے ملوں گا۔!“
“نہیں دوست۔۔۔۔!“ وہ پُرتفکر لہجے میں بولی۔ “یہ طریقہ کار کارگر نہیں ہوگا۔ اگر اس طرح ہم کہکشاں میں داخل بھی ہو گئے تو اذیت خانے تک ہرگز نہ پہنچ سکیں گے۔۔۔۔ ہر وقت ہماری نگرانی کی جائے گی۔!“​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“یہ بات تو ہے۔۔۔۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔
“اگر کسی اور طریقے سے کہکشاں والوں کی لاعلمی میں داخل ہو سکیں تو وہاں ہفتوں چھپے رہ سکتے ہیں۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی۔۔۔۔ وہ قلعہ نما عمارت ضرور ہے لیکن وہاں کوئی قاعدہ قسم کی فوج نہیں رہتی۔۔۔۔ خان کے ایک درجن سپاہیوں کے علاوہ چند ہی افراد اور ہیں۔!“
“اگر میں پہلے کبھی یہاں آ چکا ہوتا تو آج دوسری صورت ہوتی۔۔۔۔ خود ہی کوئی راستہ پیدا کر لیتا۔!“
“میری ایک تجویز ہے اگر تم اُس پر عمل کر سکو۔۔۔۔مسئلہ صرف قزاتوغا تک پہنچنے کا ہے۔ ہم اس طرح جائیں کہ اجنبی نہ معلوم ہوں۔ تم میک اپ کے ایکسپرٹ ہو کیا یہ ممکن نہیں۔!“
“ہر طرح کا میک اپ ممکن ہے۔۔۔۔!“
“یہاں ایک دوکان علاقائی ملبوسات کی بھی ہے۔۔۔۔ ہم چرواہوں کا بھیس بدل سکیں گے بس قزاتوغا پہنچ جائیں۔۔۔۔ پھر کہکشاں میں داخل ہونے کی تدبیر میں کروں گی۔!“
“مجھے منظور ہے۔۔۔۔!“
“لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ہے کہ میں کسی طرح کی یقین دہانی نہیں کرا سکتی ہوسکتا ہے۔۔۔۔ ہماری موت ہمیں اُس طرف لے جا رہی ہو۔!“
“لے جانے دو۔۔۔۔!“
“کیا مطلب۔۔۔۔؟“
“زیادہ دور کی باتیں سوچنا میرے بس کی بات نہیں۔!“
“کیا تمہارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔!“
“آگے سناٹا اور پیچھے تاریکی ہے۔۔۔۔!“
“میں نہیں سمجھی۔!“
“کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔! اگر مجھ پر اعتماد کر سکتی ہو تو کرو ورنہ تمہاری راہ اور میری اور۔۔۔۔!“
وہ خاموش ہو گئی تھی۔۔۔۔ پھر عمران اور جوزف بڑی دیر تک سر جوڑے آہستہ آہستہ باتیں کرتے رہے تھے اور وہ انہیں کشمکش کے سے عالم میں دیکھے جا رہی تھی۔!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس آدمی کو سمجھنے کی کوشش میں مبتلا ہو کر زینو اپنی الجھنیں بھی بھول گئی۔ کبھی وہ اُسے دیوانہ معلوم ہوتا کبھی احمق اور کبھی اتنا عاقل و فہیم کہ اپنی سماعت پر یقین نہ آتا۔ وہ اُس سے اس بات پر پوری طرح متفق ہو گیا تھا کہ چرواہوں کے بھیس میں قزاتوغا کا سفر کیا جائے۔۔۔۔!“
دوسرے دن انہوں نے اس سلسلے کی ساری تیاریاں مکمل کی تھیں اور شام ہوتے ہی وہاں سے چل پڑے تھے۔!
مقامی پوشاکیں خریدی گئی تھیں اور پھر انہیں عمران نے جانے کن تدبیروں سے اس حال کو پہنچا دیا تھا کہ وہ مہینوں کی استعمال شدہ معلوم ہونے لگی تھیں۔!
پیدل روانگی ہوئی تھی اور جوزف گاڑی سمیت سبوچہ ہی میں مقیم رہا تھا۔ ویسے وہ بڑی مشکل سے اس پر آمادہ ہوا تھا۔ عمران کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔! لیکن حکم کی تعمیل سے روگردانی بھی ناممکن تھی۔!
کچھ دور چلنے کے بعد عمران نے کہا۔ “ایک کام تو رہ ہی گیا۔!“
“کیا۔۔۔۔؟“ زینو چلتے چلتے رک گئی۔!
“ہم نے اپنے گلے میں ایسی تختیاں تو لٹکائی ہی نہیں جن پر تحریر ہوتا کہ ہم چرواہے ہیں۔!“
“او بابا۔۔۔۔وہ بھی ہو جائے گا۔۔۔۔!“ زینو نے کہا۔“یہاں سے تین چار میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے۔۔۔۔! وہاں سے ہم چند بھیڑیں خرید لیں گے۔!“
کچھ دور سڑک پر چلنے کے بعد زینو نے ایک جانب کی ڈھلان میں اُترنا شروع کیا تھا اور پھر اُس کے بعد دشوارگزار راستوں پر چلنا پڑا تھا۔
اندھیرے میں کہاں کہاں بھٹکاؤ گی۔۔۔۔!“ عمران نے کہا۔
“ذرا دیر میں چاند نکل آئے گا۔۔۔۔! میں چاہتی ہوں کہ ہم اس طرح اُس بستی میں داخل ہوں کہ کسی کو علم نہ ہو سکے۔!“​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کس بستی میں۔۔۔۔!“
“جہاں سے بھیڑیں خریدنی ہیں۔! باتیں کرتے چلو۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ اور بتاؤ۔!“
“میں اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔!“
“تو پھر مجھے یہ سمجھنا چاہئیے کہ تم کوئی فرشتہ ہو، جسے خدا نے میری مدد کے لئے بھیج دیا ہے۔!“
“میرے بارے میں جاننے کی خواہش کرنے کے بجائے میری مدد کرو۔۔۔۔!“ عمران بولا۔
“میں نہیں سمجھی۔!“
“اپنے بابا کے بارے میں باتیں کرو۔۔۔۔ کیا وہ مال کے ساتھ خود بھی سفر کرتے ہیں۔!“
“زیادہ تر یہی ہوتا ہے۔۔۔۔!“
“کبھی انہیں رخصت بھی کیا ہے ایسے کسی موقع پر۔۔۔۔!“
“بارہا۔۔۔۔!“
“روانگی کے وقت وہ مضطرب نظر آتے ہیں یا پُرسکون۔۔۔۔!“
زینو نے فوراً ہی جواب نہیں دیا تھا۔ کچھ سوچنے لگی تھی۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد بولی “ بڑا عجیب سوال کیا ہے تم نے۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔اب میں سوچتی ہوں۔۔۔۔میں نے انہیں ہمیشہ مضطرب پایا ہے۔!“
“میرا بھی یہی خیال تھا۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “خان کی تجارت قانونی نہیں معلوم ہوتی۔ وہ ضروریاتِ زندگی کی اسمگلنگ کراتا ہے۔۔۔۔!“
“نہیں۔۔۔۔یہ غلط ہے۔۔۔۔بابا کہہ رہے تھے کہ خان کے پاس اجازت نامہ ہے۔!“
“صرف فرٹیلائیزر برآمد کرنے کا اجازت نامہ ہے اُس کے پاس۔۔۔۔میں نے آج ہی تصدیق کی ہے۔۔۔۔ تم غلے، شکر اور گھی کا بھی تذکرہ کر چکی ہو۔۔۔۔!“
“میں نے غلط نہیں کہا تھا۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ٹرکوں پر کون سی اشیاء لادی جاتی ہیں۔!“
“اسمگلنگ اچھی لڑکی اسمگلنگ۔۔۔۔!“
“ہوسکتا ہے۔۔۔۔ادھر اتنی سختی بھی نہیں ہے۔!“
“خیر ہوگا۔۔۔۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔ دیکھنا یہ ہے کہ تمہارے بابا پر غداری کا الزام کیوں عائد کیا گیا ہے۔!“​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میں صرف اُن کی رہائی چاہتی ہوں۔!“
چاند چڑھتے ہی وہ ایک جگہ بیٹھ گئے تھے اور تھیلے سے کھانا نکالا تھا۔ کھانے کے دوران میں زینو نے کہا۔ “بستی میں پہنچ کر تم گونگے بن جانا۔۔۔۔ بھیڑوں کا سودا میں کروں گی۔!“
“یعنی میں تمہارا گونگا ملازم۔۔۔۔!“
“ہوش کی دوا کرو۔۔۔۔یہاں کے چرواہے اتنے مال دار نہیں ہیں کہ ملازم رکھ سکیں۔ میں تمہیں اپنا۔۔۔۔اپنا۔۔۔۔شوہر ظاہر کروں گی۔!“
“وہ تو گونگا ہوتا ہے۔۔۔۔ظاہر واہر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔!“
“میں تم سے متفق نہیں ہوں۔۔۔۔! شوہر بہت بکواس کرتے ہیں۔!“
“اُسی صورت میں اگر بیوی سچ مچ گونگی ہو۔۔۔۔!“
“میں سمجھ گئی۔۔! تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ بیویاں انہیں زبان کھولنے کا موقع ہی نہیں دیتیں۔!“
عمران کچھ نہ بولا۔ پھر اُس نے ہاتھ اٹھا کر اسے بھی خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کچھ سننے کی کوشش کر رہا ہو اور پھر اُس نے تھیلے سے نکالی ہوئی اشیاء کو سمیٹ کر دوبارہ تھیلے میں رکھنا شروع کر دیا تھا۔ زینو بھی کھانا کھا چکی تھی۔۔۔۔! عمران کے روئیے پر وہ بھی اٹکنے لگی۔۔۔پھر ہاتھ کے اشارے سے اس کی وجہ پوچھی تھی اور عمران نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر پھر چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔
اور پھر قدموں کی آوازیں واضح ہوتی گئی تھیں۔۔۔۔زینو نے ایک دم اٹھنا چاہا لیکن عمران اُس کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے بولا۔ “بیٹھی رہو۔۔۔۔آوازیں کئی اطراف سے آ رہی ہیں۔!“
اندازہ غلط نہیں نکلا تھا۔۔۔۔ چھ افراد نے دائرے کی شکل میں انہیں گھیر لیا تھا۔!
“تم لوگ کون ہو۔۔۔۔اور یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟“ کسی نے ڈپٹ کر پوچھا تھا۔
“مسافر ہیں۔۔۔۔!“ زینو بولی۔
اور پھر کئی ٹارچوں کی روشنیاں اُن کے چہروں پر پڑی تھیں۔۔۔۔ عمران نے الوؤں کی طرح دیدے نچائے اور پھر کسی گونگے کی طرح شور مچانے لگا جیسے آنکھوں میں تیز روشنی پڑنے کی وجہ سے بلبلا اٹھا ہو۔!“
“کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔؟“ پھر پوچھا گیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“سعد گنج۔۔۔۔!“ زینو بولی۔
“لیکن تم لوگ سعد گنج کے تو نہیں معلوم ہوتے۔۔۔۔!“
“جا رہے ہیں سعد گنج۔۔۔۔زمانیہ سے آئے ہیں۔۔۔۔!“
“سعد گنج میں کس کے گھر جا رہے ہو۔۔۔۔؟“
“کلاں پیر کی زیارت کو آئے ہیں۔!“
دفعتاً ان میں سے ایک نے دوسرے کا بازو سے پکڑا اور اُسے دور لے جا کر آہستہ آہستہ کچھ کہنے لگا۔ عمران نے طویل سانس لی۔۔۔۔ جس بات کا خدشہ تھا وہی پیش آئی تھی غالباً زینو کی آواز پہچان لی گئی تھی۔۔۔۔ ذرا سی بھی تبدیلی اپنی آواز میں نہیں کر سکی تھی۔
وہ دونوں پھر پلٹ آئے۔۔۔۔ اور دوبارہ ٹارچ روشن کی اور اُسی روشنی میں عمران نے اُس شخص کو پہچان لیا جس کے بارے میں زینو نے بتایا تھا کہ وہ داراب ہی ہو سکتا ہے۔!“
روشنی کا دائرہ زینو کی طرف رینگ گیا۔۔۔! عمران پھر شور مچاتا ہوا ٹارچ والے اور زینو کے درمیان آ گیا۔!“
“اسے پکڑ لو۔۔۔۔!“ داراب نے اپنے آدمیوں سے کہا تھا۔
تین آدمی عمران کی طرف بڑھے ہی تھے کہ زینو بھی اُچھل کر کھڑی ہو گئی۔
“خبردار جو اُسے ہاتھ لگایا بدبختو۔۔۔۔!“ زینو نے عمران کا ڈنڈا اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
لیکن تین آدمی پہلے ہی عمران پر جھپٹے تھے اور پھر زینو یہ نہیں دیکھ سکی تھی۔۔۔۔ وہ کس بناء پر اُچھل اُچھل کر دور جا پڑے تھے۔!
ویسے خود اُس نے اُس شخص پر ڈنڈا گھمایا تھا جسے داراب کی حیثیت سے شناخت کر چکی تھی وہ اچھل کر پیچھے ہٹتا ہوا دہاڑا۔ “عورت تو پاگل تو نہیں ہوگئی ہے۔۔۔۔ جانتی ہے میں کون ہوں۔!“
“کلاں پیر کے زائروں کو پریشان کرنے والے شیطان ہی ہو سکتے ہیں۔!“ زینو بھی چیخی تھی۔
اُدھر عمران اُن پانچوں کی درگت بنائے دے رہا تھا۔! کسی طرح اُن کے قابو ہی میں نہیں آ رہا تھا۔
“اُس گونگے کو روک لے ورنہ پچھتائے گی۔۔۔۔ ہم خان کے آدمی ہیں۔!“ داراب نے کہا۔
“ارے تو پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔۔۔۔!“ وہ عمران کی طرف دوڑی تھی۔​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
"ہٹ جاؤ۔۔۔۔ہٹ جاؤ۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔تم لوگ۔۔۔۔!" داراب نے اپنے آدمیوں کو للکارا۔
جو جہاں تھا وہیں رک گیا۔۔۔۔! لیکن عمران ہاتھ ہلا ہلا کر انہیں للکارتا رہا۔۔۔۔زینو اُس کے قریب پہنچی تھی اور اُس کا شانہ تھپک تھپک کر اشاروں سے کچچھ سمجھانے کی کوشش کرنے لگی اور پھر عمران نے اُن سبھوں کو جھک جھک کر سلام کرنا شروع کر دیا تھا۔! داراب کے آدمی ہانپ رہے تھے۔
داراب نے زینو سے کہا۔ “ہمیں ایک پاگل عورت کی تلاش ہے جو گھر سے نکل گئی ہے لیکن ہم اُسے پہچانتے نہیں ہیں۔۔۔۔ میرے ایک آدمی کو تمہاری آواز اُسی کی سی لگی تھی۔“
“جاؤ۔۔۔۔کوئی بات نہیں۔۔۔۔!“ زینو نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔
“یہ۔۔۔۔یہ۔۔۔۔تمہارا۔۔۔۔!“ داراب نے عمران کی طرف ہاتھ اٹھا کر کچھ کہنا چاہا اور زینو جلدی سے بولی “میرا آدمی ہے۔۔۔۔!“
“بہت تیز معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔!“
“تمہیں جلد ہوش آ گیا تھا۔۔۔۔ ورنہ تمہارے کسی ساتھی کی گردن ضرور توڑ دیتا۔۔۔۔!“
زینو نے اپنے لہجے میں پیار اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
“چلو۔۔۔۔دل صاف کرو۔۔۔۔ کہو تو ہم تمہیں سعد گنج پہنچا دیں۔ ہمارے پاس گاڑی ہے۔!“
“میرے باپ دادا بھی پیدل زیارت کو جاتے تھے۔۔۔۔!“
“اچھا۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔!“ اُس نے اپنے آدمیوں کو چلنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔۔پھر وہ ڈھلان میں اترتے چلے گئے تھے۔
“خوامخواہ۔۔۔۔!“ عمران سر ہلا کر آہستہ سے بولا۔
“کیا شاندار اداکاری کی تھی تم نے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔!“ زینو نے کہا۔
“مجھے یقین ہے کہ اُسے تمہاری باتوں پر یقین نہیں آیا۔۔۔۔ اب وہ چھپ کر ہماری نگرانی کریں گے۔۔۔۔لہٰذا مجھے گونگا ہی بنا رہنے دو۔۔۔۔!“ بولنے پر مجبور نہ کرو۔۔۔۔!“
“اور اب ہمیں زیارت گاہ پر بھی حاضری دینی پڑے گی۔۔۔۔چلو اچھا ہے۔۔۔۔تھکن بھی دور ہو جائے گی۔!“
“بھیڑیں نہ خرید سکیں گے۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیوں۔۔۔۔؟“
“اُس صورت میں اگر انہوں نے چھپ کر نگرانی کی۔۔۔۔مضحکہ خیز بات ہوگی کہ زیارت کرنے کے بعد بھیڑیں خرید کر انہیں چراتے ہوئے قزاتوغا کی طرف چل پڑیں۔!“
“ٹھیک کہتے ہو۔۔۔۔ کھیل بگڑ گیا ہے۔۔۔۔لیکن ٹھہرو۔۔۔۔ہم دیکھیں گے کہ وہ ہماری نگرانی کرتے بھی ہیں یا نہیں۔۔۔۔ محض قیاس کی بناء پر۔۔۔۔!“
“چلو بیٹھ جاؤ۔۔۔۔فوراً ہی روانگی بھی مناسب نہ ہو گی۔۔۔۔!“ عمران نے کہا۔
“لیکن ایسی جگہ بیٹھنا چاہئیے کہ چاروں طرف نظر رکھ سکیں۔“
مطلع صاف تھا اور چاندنی بڑی شفاف لگ رہی تھی۔۔۔۔!“
تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے جگہ کا انتخاب کر لیا۔
“تم بہت پھرتیلے ہو۔۔۔۔!“ زینو نے کہا۔
“شعبدہ بازوں کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔۔۔۔!“
“یقین نہیں آتا کہ تم محض شعبدہ باز ہو۔۔۔۔!“
“تمہاری اس بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔!“
“یہ طریقہ جو ہم نے اختیار کیا ہے۔۔۔۔ کیا یہ مضحکہ خیز نہیں ہے۔۔۔۔!“ زینو نے کہا۔
“تم جانو۔۔۔۔تجویز تمہاری ہی تھی۔۔۔۔میں نے تو کہا تھا کہ پولیٹیکل ایجنٹ سے سفارش نامہ حاصل کرکے خان کے مہمان ہی بن جائیں گے۔!“
“بس پھر مہمان ہی بنے رہتے۔۔۔۔یقین کرو۔۔۔۔ہر وقت نگرانی ہوتی۔۔۔۔!“
“اوہ۔۔۔۔ختم کرو۔۔۔۔دیکھا جائے گا۔۔۔۔!“ کیوں نہ ہم کوئی مناسب سی جگہ تلاش کر کے آرام کریں اور صبح ہوتے ہی سعدگنج کی طرف روانہ ہو جائیں۔!“
“چلو یونہی سہی۔۔۔۔اب تو سیدھے کلاں پیر کے مزار پر پہنچنا ہے۔۔۔۔!“ زینو نے کہا اور جگہ کی تلاش کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

عمران اتنا مجبور تو نہیں تھا کہ دوسرا میک اپ نہ کر سکتا۔۔۔۔ضرورت کی ساری چیزیں اُس کے دونوں تھیلوں میں موجود تھیں۔۔۔۔پچھلی رات انہوں نے ایک چھوٹا سا غار تلاش کر لیا تھا اور باری باری سوتے جاگتے رہے تھے۔ دوسرئ صبح زینو نے عمران سے کہا۔ “ہم بھیڑیں ضرور خریدیں گے۔۔۔۔ کیا تم دوسرا میک اپ نہیں کر سکتے۔۔۔۔؟“
“زیارت گاہ تک ہم اسی میک اپ میں جائیں گے۔۔۔۔!“ عمران نے جواب دیا۔ “وہاں ٹھہر کر دیکھیں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جا رہی۔!“
“اب میں مطمئن ہوں۔۔۔۔!“ زینو نے طویل سانس لی۔
وہ پھر چل پڑے تھے۔ لیکن شام سے پہلے زیارت گاہ تک نہ پہنچ سکے۔
اُن کا تعاقب تو نہیں کیا گیا تھا۔۔۔۔لیکن جب وہ زیارت گاہ پہنچے تھے تو داراب اور اُس کے ساتھیوں کو وہاں موجود پایا تھا۔ غالباً وہ زینو کے بیان کی تصدیق کرنے کے لئے وہاں رکے تھے۔! زیارت گاہ میں زائروں کے قیام کے لئے ایک بڑا سائبان تعمیر کیا گیا تھا جس میں عورتوں اور مردوں کے قیام کے لئے الگ الگ حصے بنائے گئے تھے۔
زینو خواتین والے حصے میں پہنچی تو اُسے اپنی بستی کی تین عورتیں نظر آئیں جن کے یہاں ہونے کا جواز تو تھا لیکن یہ وقوعہ ناممکن نظر آتا تھا۔!
زینو نے سوچا کیا داراب انہیں لایا ہے۔۔۔۔ اگر وہی لایا ہے تو مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ میک اپ کا شبہ ہونے کی بناء پر وہ آواز اور نقل و حرکت کے انداز کی شناخت کرانا چاہتا ہے۔!
زینو نے اپنی چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ پیدا کی اور اُن کے قریب سے گزرتی چلی گئی۔ انہوں نے اُسے بغور دیکھا تھا۔ لیکن وہ اُن کی طرف متوجہ نہیں ہوئی تھی۔ اس روئیے کا ان اُن تینوں پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ آگے بڑھی تھیں اور اُس سے پوچھنے لگی تھیں کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔!
زینو کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی ورد کر رہی ہو۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پھر اُس نے اسی طرح آنکھیں نکال کر سر کو احتجاجی جنبش دی تھی جیسے ورد کے دوران میں گفتگو پر مجبور کر کے وہ اس پر زیادتی کر رہی ہوں۔۔۔۔ تینوں چپ چاپ دور جا بیٹھیں اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔۔۔۔پھر اٹھ کر باہر چلی گئی تھیں۔
ادھر مردانہ حصے میں داراب اور اُس کے پانچوں ساتھی عمران کے گرد منڈلا رہے تھے۔۔۔۔اور وہ ان سے اس درجہ لاتعلق نظر آرہا تھا جیسے انہیں پہچانا تک نہ ہو۔!
کچھ دیر بعد داراب نے شائد کچھ کر گزرنے کی ٹھانی تھی اور اس کے قریب پہنچ کر بولا تھا۔ “کہاں سے آئے ہو بھائی۔!“
عمران نے اونٹ کی طرح منہ اٹھا کر “ لی ای ای۔۔۔۔ایل۔۔۔یع۔۔۔۔“ شروع کر دی تھی۔
“اوہو۔۔۔۔!“ داراب نے چہرے پر شرمندگی کے آثار پیدا کئے تھے قور دوسری طرف مڑ گیا تھا!“
عمرن اور زینو نے وہ رات وہیں گزاری تھی اور صبح ہونے پر داراب اور اس کے ساتھی نہیں دکھائی دیئے تھے۔ زینو کی بستی کی تینوں عورتیں بھی چلی گئی تھیں۔
دن چڑھے وہ بھی واپسی کی تیاریاں کرنے لگے تھے۔ زیارت گاہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر زینو نے اُس جگہ کا تعین پہلے ہی کر لیا تھا جہاں انہیں دوسرا میک اپ کرنا تھا۔!
وہ جگہ واپسی کے راستے پر تھی۔۔۔۔لیکن عمران کے روئیے میں کسی قدر ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔!
“کیا بات ہے۔۔۔۔! اب کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔!“ زینو نے پوچھا۔
“میں اُس شخص داراب کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں۔ چالاک آدمی معلوم ہوتا ہے۔!“
تب زینو نے اُسے اپنی بستی کی اُن تین عورتوں کے بارے میں بتایا جن سے زنانہ قیام گاہ میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے کہا “وہ مجھ سے گفتگو کرنا چاہتی تھیں۔۔۔۔ لیکن میں نے موقع ہی نہیں دیا۔ چادر بچھا کر نفلیں پڑھنی شروع کر دی تھیں۔!“
“ یہ دوسری ہوئی۔۔۔۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “داراب سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔! اُن سیدھی سادی عورتوں سے گفتگو نہ کر کے تم نے اچھا نہیں کیا۔! آواز میں معمولی سا بھاری پن پیدا کرکے تم انہیں مطمئن کر سکتی تھیں۔!“
“تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔۔ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“داراب کو اس پر بھی یقین نہیں ہے کہ میں گونگا ہوں۔!“
“یہ کیسے کہہ سکتے ہو۔۔۔۔؟“
“بس اندازہ ہے میرا۔۔۔۔!“
“پھر اب کیا ہوگا۔۔۔۔!“
“میرا خیال ہے کہ ابھی ہم یہیں رُکے رہیں۔۔۔۔! ذرا یہ تو بتاؤ۔۔۔۔ کیا وہ یہاں کوئی ہنگامہ برپا کرنے کی جراءت کر سکیں گے۔!“
“سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ اس سے مزار کی بے حرمتی ہوگی۔۔۔۔ جسے کوئی بھی نہیں برداشت کر سکتا۔!“
“میرا بھی یہی خیال تھا۔۔۔۔ اس لئے فی الحال یہ تمہارے لئے محفوظ ترین جگہ ہے۔۔۔۔!“
“بہت دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔!“ کہیں وہ بابا کو ختم ہی نہ کر دیں۔!“
“آخر انہیں تمہاری تلاش کیوں ہے۔۔۔۔؟“
“میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ داراب نے بابا سے میرا رشتہ مانگا تھا۔۔۔۔!“
“بات سمجھ میں نہیں آتی۔۔۔۔!“
“ خان اگر کسی گھرانے کے ایک آدمی سے ناراض ہوتا ہے تو اُس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے متعلقین میں سے کوئی بھی نہ بچے۔!“
“پھر رشتے کا کیا ہو گا۔!“
“ یہی تو الجھن ہے۔۔۔۔!“
“ کہو تو میں بات کروں داراب سے۔۔۔۔؟“
“ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔!“ وہ آنکھیں نکال کر بولی۔ “بات سمجھا کرو۔ میں کہہ رہی تھی اگر داراب یہی چاہتا ہے تو اُسے میری حفاظت کرنی چاہئیے نہ کہ میری بھی گرفتاری کے درپے ہے۔۔۔۔!“
“ معلوم نہیں۔۔۔۔ وہ کیا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسی لئے تمہاری تلاش میں ہو کہ تمہیں کہیں چھپا دے تاکہ خان کی دستبرد سے بچ سکو۔۔۔۔!“
“ خدا جانے۔۔۔۔ بس اب کوئی ایسی تدبیر کرو کہ کہکشاں تک پہنچ سکیں۔!“
“احتیاط ضروری ہے۔ اگر اس علاقے میں پہلے بھی کبھی آنا ہوا ہوتا تو تمہیں اتنی پریشانی نہ ہوتی۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران اُسے زنانہ اقامت گاہ کی طرف بھیج کر خود نکل کھڑا ہوا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ داراب اور اُس کے ساتھی کہیں آس پاس ہی موجود ہیں۔!
ٹہلنے کے سے انداز میں وہ اُس طرف جا رہا تھا کہاں اپنا کچھ سامان زیارت گاہ تک پہنچنے سے پہلے چھپا دیا تھا اور وہیں دوسرا میک اپ کرنے کی بھی تجویز ہوئی تھی۔ پچھلی رات نیند پوری نہیں ہوئی تھی اس لئے ذہن کچھ بوجھل سا ہو رہا تھا ورنہ شائد اسی حد تک بےخبری نہ ہوتی کہ کوئی اپنا کام کر جاتا۔
جیسے ہی دو چٹانوں کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھنا چاہا تھا سر کے پچھلے حصے پر قیامت ٹوٹی تھی۔۔۔۔ جھونجھل میں منہ کے بل نیچے چلا آیا۔ پھر دوبارہ اٹھنے کی مہلت نہیں ملی تھی بیک وقت کئی آدمی چھاپ بیٹھے تھے۔ ایک بار اور ضرب لگائی گئی تھی سر پر۔۔۔۔ اور وہ تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا تھا۔
زینو بےچینی سے اُس کی منتظر تھی۔ نہ جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔! کئی بار مردانہ اقامت گاہ کی طرف گئی تھی لیکن وہ دکھائی نہیں دیا تھا۔! الجھن بڑھتی رہی۔ دوپہر کے کھانے کے لئے لنگرخانے میں پہنچی تھی۔۔۔۔ جہاں ایک عورت نے اُس کے “شوہر“ کی خیریت پوچھی۔
“اُسے ہوش آیا کہ ابھی تک بیہوش ہے۔۔۔۔!“
“نہ جانے کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔!“ زینو اُسے گھورتی ہوئی بولی۔
“ارے تو تمہیں پتا ہی نہیں ۔!“ عورت کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
“خدا کے لئے جلدی بتاؤ۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔۔ میں دیر سے اُسے ڈھونڈ رہی ہو نہ جانے کدھر نکل گیا۔۔۔۔!“
“ارے وہ زخمی بھی تھا اور بیہوش بھی، کوئی دو گھڑی کی بات ہے۔۔۔۔! وہ لوگ اُسے جراح کے حجرے میں لے گئے ہیں۔!“
“کدھر ہے جراح کا حجرہ۔۔۔۔ مجھے وہاں لے چلو۔۔۔۔!“ اور پھر وہ کھانا کھائے بغیر اُس عورت کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی تھی۔!“
“وہ لوگ کون تھے جو اُسے لے گئے ہیں۔!“ زینو نے پوچھا۔
“میں انہیں نہیں جانتی۔۔۔۔ تمہاری ہی طرح میں بھی زیارت کو آئی ہوں۔ میں نے سنا تھا جراح کے حجرے میں لے گئے ہیں۔ جراح کا حجرہ بھی نہیں جانتی۔۔۔۔! کسی سے پوچھ لیں گے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جراح کے حجرے تک پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ بستی کی مشہور جگہ تھی۔۔۔۔ اور پھر جب وہ اندر پہنچی تو بےخبری میں وہ ہی عورت اُس پر ٹوٹ پڑی۔ کسی جانب سے تین عورتیں اور بھی برآمد ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اُسے باندھ کر ایک طرف ڈال دیا۔
“ آخر تم لوگ چاہتی کیا ہو۔۔۔۔!“ وہ حلق پھاڑ کر چیخی تھی لیکن وہ وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے چلی گئی تھیں۔!
زینو اُسی طرح بندھی پڑی رہی۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے شور مچانا شروع کیا تھا۔ اور وہ عورتیں پھر اندر آئی تھیں اور اُس کے منہ میں حلق تک کپڑا ٹھونس دیا تھا پھر اُس پر بھی غشی طاری ہو گئی تھی۔
دوبارہ ہوش آنے پر اُس نے محسوس کیا تھا کہ وہ جسمانی طور پر آزاد ہے۔ منہ میں ٹھونسا جانے والا کپڑا بھی نکال لیا گیا تھا۔۔۔۔ لیکن اس قدر اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا تھا۔۔۔۔ وہ اٹھ بیٹھی اور بیٹھے ہی بیٹھے ایک جانب کھسکنے لگی۔۔۔۔ فرش ہموار تھا۔۔۔۔! جیسے کسی کمرے کا فرش ہو۔۔۔۔ لیکن وہ تاریکی۔۔۔۔عجیب تھی۔۔۔۔دفعتاً وہ چونک پڑی تھی۔۔۔۔ کہیں وہ بینائی ہی تو نہیں کھو بیٹھی۔!
پھر دیر تک آنکھیں مل مل کر اندھیرے میں گھورتی رہی تھی۔!
“ارے کوئی ہے آس پاس۔۔۔۔!“ دفعتاً وہ زور سے چیخی تھی۔!
“کک۔۔۔۔کون ہے۔۔۔۔!“ کسی جانب سے مردانہ آواز آئی تھی۔!
“یہ کون سی جگہ ہے۔۔۔۔!“ زینو نے چیخ کر پوچھا۔
“ خداوندا۔۔۔۔ میری بچی۔۔۔۔ کیا تو ہے۔۔۔۔زینو۔۔۔۔!“ کراہتی ہوئی سی آواز آئی۔
“بابا۔۔۔۔!“ زینو کی آواز اس بار حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔
“تو۔۔۔۔زخمی۔۔۔۔ہے کیا میری بچی۔۔۔۔!“
“نہیں بابا۔۔۔۔ تم کس حال میں ہو۔۔۔۔!“
“خدا کرے یہ اندھیرا کبھی دور نہ ہو۔۔۔۔!“
“کیا کہہ رہے ہو بابا۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ میرا حال تجھ سے نہ دیکھا جا سکے گا۔۔۔۔!“
“تم کدھر ہو۔۔۔۔! میں آ رہی ہوں۔۔۔۔!“
“نہیں۔۔۔۔ہر گز نہیں۔۔۔۔ جہاں ہے وہیں ٹھہر۔۔۔۔! ظالموں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کوئی خانہ خالی نہ چھوڑیں گے۔۔۔۔ شائد میری آنکھوں کے سامنے تجھے بھی اذیت دیں گے۔۔۔۔ اے اللہ مجھے ثابت قدم رکھیو۔۔۔۔!“
“تو کیا سچ مچ غدارہ کے مرتکب ہوئے ہو بابا۔۔۔۔!“
“ ہر گز نہیں۔۔۔۔ ہر گز نہیں۔۔۔۔!“
“ تو پھر۔۔۔۔ خدارا مجھے بتاؤ کہ یہ سب کیا ہے۔۔۔۔!“
“میں نہیں جانتا۔۔۔۔! کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔!“
“ پھر کس معاملے میں ثابت قدم رہنے کی دعا مانگ رہے تھے۔!“
“رحم کی بھیک کسی آدمی سے نہیں مانگوں گا۔۔۔۔ تو جانتی ہے کہ میرا پردادا قزاتوغا کا حکمران تھا۔! فرنگیوں سے ٹکرایا اور شہید ہو گیا۔۔۔ پھر سرداری موجودہ خان کے اجداد کی طرف منتقل ہو گئی۔۔۔۔! لیکن میں نے کبھی موجودہ خان کے خلاف کوئی بُرا خیال اپنے دل میں نہیں رکھا۔ خدا شاہد ہے کہ میں اُس کا وفادار رہا ہوں۔۔۔۔! لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں کسی حقیر آدمی کی طرح اُس کے سامنے گڑگڑاؤں گا۔۔۔۔ اُس کا ملازم تھا۔۔۔۔ اپنی محنت کا معاوضہ لیتا تھا۔۔۔۔ زرخرید غلام تو نہیں ہوں۔!“
“ آخر کس بناء پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے۔۔۔۔!“
“ میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔! خاموش رہو۔۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔۔!“
“ مجھے اپنے قریب‌ آنے دو بابا۔۔۔۔!“
“ کیا تو میرا کہنا نہیں مانے گی۔۔۔۔ میں کہتا ہوں مجھ سے دور رہ۔۔۔۔!“
“ تمہیں سُن کر خوشی ہوگی کہ میں آسانی سے اُن کے ہاتھ نہیں آئی۔ مجھے دھوکے سے پکڑا گیا ہے۔۔۔۔!“ زینو نے کہا اور اپنی روداد دہرانے لگی۔۔۔۔ خاموش ہوئی تو جابر خان کی آواز آئی۔! “ شاباش۔۔۔۔! تو نے اجداد کا نام روشن کر دیا۔۔۔۔ اب دیکھنا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ مگر وہ آدمی کون تھا۔!“
“ میں نہیں جانتی۔۔۔۔! آنکھ بند کر کے میرے ساتھ اس آگ میں آ کودا تھا۔ خدا جانے اُس کا کیا حشر ہوا۔!“
“ اب حالات اور پیچیدہ ہو جائیں گے۔!“
“ میں نہیں سمجھی بابا۔۔۔۔!“
“ کچھ نہیں۔۔۔۔ صبر سے کام لو اور خدا سے دعا کرو۔۔۔۔!“
“کس بات کی دعا بابا۔۔۔۔!“
“ میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔۔ خاموش رہو۔۔۔۔!“

۔۔۔۔۔۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران کے سر میں کئی جگہ ورم تھا۔۔۔۔ اور وہ مسلسل ان جگہوں کو سہلائے جا رہا تھا اور اس کا اندازہ تو ہوش میں آتے ہی ہو گیا تھا کہ میک اپ صاف کر دیا گیا ہے۔۔۔۔!
ہرچند کہ اس نے سر گھما کر دیکھا نہیں تھا۔۔۔۔ لیکن ہوش میں آتے ہی احساس ہو گیا تھا کہ وہ کمرے میں تنہا نہیں ہے کوئی اور بھی موجود ہے۔۔۔۔! اُس نے طویل سانس لی تھی اور عجیب سی ہنسی کے ساتھ بولا۔ “ایمان داری کی بات ہے کہ میں گونگا نہیں ہوں۔!“
“ شاباش۔۔۔! اب تو یہی کہو گے۔۔۔۔“ بائیں جانب سے آواز آئی۔
یہ داراب کی آواز تھی۔۔۔۔ عمران نے فوراً ہی پہچان لیا۔
“ لیکن میں کہاں ہوں۔۔۔ اور تم کون ہو۔۔۔۔!“
“ اٹھو۔۔۔۔ اٹھو بیٹھو۔۔۔۔!“ داراب غرایا۔
بڑی پھرتی سے وہ اٹھ بیٹھا تھا اور داراب کی طرف گھومتا ہوا بولا تھا۔ “اچھا تو تم ہو،!“
“ لیکن تم کون ہو۔۔۔۔!“
“ ایک شعبدہ باز۔۔۔۔ اور اُس نامعقول لڑکی کے بہکانے میں آ گیا تھا۔!“
“ جھوٹ مت بولو۔۔۔۔ تم حکومت کے جاسوس ہو۔!“


“ بڑی خوشی ہوئی اس اطلاع پر۔۔۔۔!“ عمران چہک کر بولا۔
“بکواس مت کرو۔۔۔۔ اگر تم نے اپنے بارے میں صحیح معلومات فراہم نہ کیں تو بڑی اذیت دے کر ہلاک کئے جاؤ گے۔!“
“ پہلے تم بتاؤ کہ میں کہاں ہوں۔!“
“ کہاں ہونا چاہئیے۔!“
“ اگر لڑکی سچ کہہ رہی تھی تو یہ خان قزاتوغا کا محل ہی ہو سکتا ہے۔!“
“ تمہارا خیال درست ہے۔۔۔۔!“
“ چلو کسی طرح بھی ہوا۔۔۔۔ میری خواہش پوری ہو گئی۔!“
“ کھل کر بات کرو۔۔۔۔!“ داراب دھاڑا۔
“ اُس نے اپنی رام کہانی سنائی تھی اور میں اس کا ساتھ دینے پر اس لئے آمادہ ہو گیا تھا کہ قزاتوغا تک پہنچنا چاہتا تھا۔! ویسے تو رسائی ممکن نہ ہوتی کیونکہ پہلے ہی سن رکھا تھا کہ اجنبیوں کو قزاتوغا میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ سوچا تھا کسی موقع پر اُس بےحد چالاک لڑکی کو قابو میں کروں گا اور لے کر خان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں‌گا۔!“
“ مجھے بیوقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔ تمہاری گاڑی پر میں نے فوج کا نشان دیکھا تھا۔!“
“ ہر طرح کے نشان موجود ہیں میرے پاس۔۔۔۔! لڑکی نے کہا تھا کہ فوجیوں سے یہاں کوئی بازپرس نہیں ہوتی۔ لہٰذا میں نے فوج کا نشان لگا دیا تھا۔ بہرحال مجھے اُس کے ساتھ پہلے بھٹکنا تھا پھر۔۔۔۔ قابو میں کر کے خان کی خدمت میں پیش کر دینا تھا۔ یہ اُسی کی تجویز تھی کہ میں گونگا بن جاؤں۔۔۔۔ پھر چند بھیڑیں خریدی جائیں اور ہم چرواہوں کی طرح قزاتوغا میں داخل ہوں۔!“
“ تمہیں کہاں اور کیسے ملی تھی۔۔۔۔!“ داراب نے سوال کیا۔
عمران نے ملاقات کا واقعہ دہراتے ہوئے کہا۔ “ وہ دراصل میرے اُس شعبدے سے متاثر ہوگئی تھی۔!“
“ میں یقین نہیں کر سکتا۔۔۔۔ ! بڑی اچھی نشانہ باز ہے۔۔۔۔ تم جھوٹے ہو؟“
عمران اُسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔ “نشانہ تو تمہارا بھی بہت اچھا ہوگا۔ خود امتحان لو۔۔۔۔ حالانکہ اس وقت۔۔۔۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ اپنے سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔۔۔۔ لیکن آنکھوں میں چیلنج بدستور موجود تھا۔
“ یہ بھی دیکھ لیا جائے گا۔۔۔۔ پہلے تمہاری اس بکواس سے خان کو مطلع کر دوں۔!“ داراب نے کہا اور دروازہ کھول کت باہر چلا گیا۔
عمران بیٹھا طرح طرح کے منہ بناتا رہا۔ روشن دان سے اندر دھوپ آ رہی تھی اور کمرہ پوری طرح روشن تھا۔!
کچھ دیر بعد داراب واپس آیا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں طنزیہ سی چمک لہرا رہی تھی اور پھر طنزیہ ہی انداز میں وہ بولا تھا۔ “تھوڑی دیر بعد تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہو جائے گی کہ خان کی خدمت میں اپنا شعبدہ پیش کر سکو۔۔۔۔!“
“ خدا کا شکر ہے۔۔۔۔!“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “ شائد اس طرح میں اپنی بات کا یقین دلا سکوں۔۔۔۔!“
“ اس دربار میں صفائی کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے۔!“
“ کیا تم داراب ہو۔۔۔۔!“
“تم کیا جانو۔۔۔۔!“
“ وہ تمہارا ذکر بڑے پیار سے کرتی تھی۔ لیکن جب خود تمہیں ہی اپنی تلاش میں سرگرداں دیکھا تو اُس کا دل ٹوٹ گیا۔!“
داراب نے اس طرح ہونٹ بھینچ لئے جیسے کسی جذبے کو دبانے کی کوشش کر رہا ہو۔!
“ کہہ رہی تھی کہ داراب اس علاقے کا سب سے زیادہ طاقت ور اور دلیر آدمی ہے۔۔۔۔! لیکن مجھے حیرت ہے کہ اُس نے دھوکے سے میرے بابا پر کیسے ہاتھ ڈالا۔!“
“ نمک خوار ایسے ہی ہوتے ہیں۔ خان کے حکم کی تعمیل میں اپنی گردن اپنے ہاتھ ہی سے کاٹ سکتا ہوں۔!“
“ مگر وہ۔۔۔۔ ایک معصوم سا دل۔۔۔۔ جو ٹوٹ گیا۔۔۔۔؟“ عمران کراہا تھا۔
“ خاموش رہو۔۔۔۔ ابھی تم پیش کر دیئے جاؤ گے۔۔۔۔!“ کہہ کر داراب مڑا تھا اور کمرے سے نکل گیا تھا۔ دروازہ باہر سے بولٹ ہونے کی آواز آئی تھی۔!
عمران سر ہلا کر مسکرا دیا۔ اُس کی دانست میں تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ سر کے گومڑ ٹٹول ٹٹول کر سسکاریاں لیتا رہا۔ آدھ گھنٹے بعد ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا تھا جہاں سامنے ہی زرنگار کرسی پر خان قزاتوغا بیٹھا نظر آیا۔!
عمران جھک کر آداب بجا لایا تھا۔!
“ تم ہمارے حضور کیوں حاضر ہونا چاہتے تھے۔!“ اُس نے عمران کو دیکھتے ہی سوال کیا۔!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ اپنے شعبدے خدمتِ عالی میں پیش کرکے انعام کا مستحق بننا چاہتا تھا عالی جاہ۔۔۔۔!“
“ اور تمہارا پورا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔!“
“ یقیناً عالی جاہ۔۔۔۔ میں رقعہ لکھ کر اپنی گاڑی بھی طلب کر سکتا ہوں میرا حبشی مددگار جو کالے جادو کا ماہر بھی ہے گاڑی سمیت حاضر ہو جائے گا اور یہ ناچیز ثابت کر سکے گا کہ حسب۔ ضرورت اُس کے نشانات بدلے بھی جا سکتے ہیں۔!“
“ یہ بعد میں دیکھیں گے۔ پہلے تم اپنا وہ شعبدہ پیش کرو جس کے بارے میں تم نے داراب کو بتایا تھا۔!“
“ عاجز تیار ہے عالی جاہ۔۔۔۔!“
“ داراب۔۔۔۔! تم فائر کروگے۔۔۔۔!“
“ جو حکم عالی جاہ۔۔۔۔!“ داراب ہولسٹر سے ریوالور نکالتا ہوا بولا۔
“ تم اپنی مرضی سے جہاں چاہو کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔!“ خان نے عمران سے کہا۔
“ جہاں اور جس طرح عالی جاہ ارشاد فرمائیں۔۔۔۔ شعبدہ باز ایسے حالات میں تماشائی کی مرضی کا پابند ہوتا ہے۔!“
خان کی آنکھوں میں پل بھر کیلئے حیرت کے آثار نظر آئے تھے اور وہ پھر معمول پر آ گیا تھا۔!
“ اچھی بات ہے۔۔۔۔ اُس طرف کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔!“ خان نے ایک جانب اشارہ کر کے کہا۔ “ ہاں۔۔۔۔ فاصلہ کتنا ہونا چاہئیے۔!“
“ کم از کم چھ گز عالی جاہ۔۔۔۔!“
“ ہماری طرف سے آٹھ گز۔۔۔۔!“ خان نے داراب کی طرف دیکھ کر کہا۔!
“بہت بہتر عالی جاہ۔۔۔۔!“ داراب نے کہا اور پوزیشن لے لی۔۔۔۔ پھر اُس نے عمران کوہوشیار کر کے فائر کر دیا تھا۔! اُس کے بعد نہ اُس کی انگلی ٹریگر سے ہٹی تھی اور نہ عمران کے پیر زمین سے لگتے ہوئے معلوم ہوئے تھے۔۔۔۔ ریوالور خالی ہوگیا۔۔۔۔اور عمران نے جھک کر خان کو تعظیم دی۔۔۔۔ وہ حیرت سے منہ کھولے بیٹھا ہوا تھا اور داراب کا تو یہ عالم تھا جیسے کوئی سرِبازار چپت رسید کر کے نودوگیارہ ہو گیا ہو۔
“ کمال ہے۔۔۔۔واقعی کمال ہے۔۔۔۔!“ خان بالآخر بولا تھا۔
عمران کچھ نہ بولا۔ سر جھکائے کھڑا رہا۔۔۔۔داراب کے چہرے پر بدستور ہوائیاں اڑتی رہیں۔ بالآخر خان نے کہا۔ “ یہ تو ہم نے دیکھ لیا کہ تم داراب کی گولیوں سے کیسے بچے۔۔۔۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بھی کوشش کر دیکھیں۔!“
“ خادم حاضر ہے عالی جاہ۔۔۔۔!“ عمران نے بڑے ادب سے کہا۔
“ہمارا ریوالور پیش کیا جائے۔۔۔۔!“ خان نے داراب کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ تعظیم دے کر باہر چلا گیا تھا۔
“ کیا صرف یہی تمہارا ذریعہ معاش ہے۔۔۔۔!“
“ عالی جاہ۔۔۔۔! بس اسی پر گزارہ ہے۔۔۔۔!“
“ اگر تم ہمارے ہاتھ سے بچ گئے تو منہ مانگا نعام دیں گے اور تمہارے اُس بیان پر یقین کر لیں گے کہ تم لڑکی کو ہمارے حضور پیش کرنا چاہتے تھے۔!“
“ حکم کی تعمیل ہوگی عالی جاہ۔۔۔۔!“
کچھ دیر بعد خان اس کے مقابل کھڑا نظر آیا۔ ہاتھ میں اعشاریہ چار پانچ کا ریوالور تھا۔!
“ تمہاری موت کی ذمہ داری ہم پر نہ ہوگی۔ تم اپنی مرضی کے مختار ہو۔!“
“ اپنا خون معاف کیا عالی جاہ۔۔۔۔!“
“ اچھا تو یہ لو۔۔۔۔!“ اُس نے فائر کر دیا۔۔۔۔ عمران نے پھرتی سے اپنے جسم کو موڑا تھا۔۔۔۔ خان نے داراب کی طرح تابڑتوڑ فائر نہیں کئے تھے بلکہ وقفہ رکھا تھا۔! اس کے باوجود بھی وہی ہوا جو پہلے ہو چکا تھا۔!
عمران ایک بار پھر خم ہوا۔۔۔۔ لیکن خان اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ خالی دیوار کو اسی طرح گھورے جا رہا تھا جیسے سارا قصور اُسی کا ہو۔!
پھر اُس نے داراب کی طرف دیکھا تھا جو عمران کو گھور رہا تھا۔!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ہم نے اس کی بات پر یقین کیا۔۔۔۔!“ بالآخر خان نے کہا تھا۔ اور زرنگار کرسی کی طرف واپس چلا گیا تھا۔!
عمران ہاتھ باندھے اور سر جھکائے کھڑا رہا۔
“ اسے مہمان خانے میں لے جاؤ داراب۔۔۔۔ اور اس سے رقعہ لکھوا کر گاڑی بھی یہیں لے آؤ۔۔۔۔!“ خان نے کہا۔
داراب نے حکم کی تعمیل کی تھی۔ عمران کو وہاں سے لے چلا تھا اور اب اُس کے برتاؤ میں بھی سختی باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اُسے ایک بہتر طور پر آراستہ کئے ہوئے کمرے میں لایا تھا۔!
“ تمہیں یہاں قیام کرنا ہے۔۔۔۔ ضرورت کی ہر چیز خادم سے طلب کر سکو گے جو ہمہ وقت کمرے کے باہر موجود رہے گا۔!“
“ شکریہ داراب خان۔۔۔۔!“ عمران بولا۔
داراب چند لمحے کھڑا رہا پھر بیٹھ گیا تھا۔ عمران نے محسوس کیا کہ وہ مزید گفتگو کرنا چاہتا ہے۔!
“ کیا تمہیں مجھ سے کوئی خاص شکایت ہے داراب خان۔۔۔۔!“ اُس نے پوچھا۔
“نن۔۔۔۔نہیں! میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اُس نے میرے بارے میں اور کیا کہا تھا۔!“
“ اب اُسے بھول جاؤ۔۔۔۔ تم نے سب کچھ تباہ کردیا۔۔۔۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ اگر تمہارے حصے میں آتی تو ہمیشہ خوش رہتے۔!“
“ مجھے دونوں سے ہمدردی ہے۔۔۔۔لیکن خان کا حکم۔۔۔۔!“
“ بہرحال اب تم اُسے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔!“
“ میں سمجھتا ہوں۔۔۔۔! لیکن اگر تم چاہو تو اُس کا دل میری طرف سے صاف ہوسکتا ہے۔!“
“ وہ کس طرح داراب خان۔۔۔۔!“
“ تم اُسے یقین دلا سکو گے کہ اُس کی گرفتاری میں میرا ہاتھ نہیں تھا۔!“
“ میں اُسے کس طرح یقین دلاؤں گا۔۔۔۔ وہ ہے کہاں۔!“
“ وعدہ کرو کہ تم ایسا کرو گے۔!“
“ اپنی بساط بھر کوشش کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔!“
“ لیکن یہ بات بھی واضح کر دوں کہ اُس کے باپ کو نہیں بچا سکتا۔ میرے بس سے باہر ہے۔ اس نے غداری کی تھی اور غداری کی سزا یہاں صرف موت ہے۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے ان معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ لڑکی کا ساتھ دینے پر بھی اس لئے آمادہ ہو گیا تھا کہ خان قزاتوغا تک رسائی ہو جائے۔!“
“ میں سمجھتا ہوں۔۔۔۔لیکن تمہیں میرا یہ کام ضرور کرنا پڑے گا۔!“
“ میں نے کب انکار کیا ہے۔۔۔۔داراب خان۔۔۔۔!“
“شکریہ۔۔۔۔! اب اپنے ملازم کے لئے رقعہ لکھ دو۔۔۔۔ خان کے حکم کے بموجب اسے گاڑی سمیت یہاں لانا ہے۔!“
رقعہ لے کر وہ چلا گیا تا اور عمران آئندہ اقدامات کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔!
شام تک جوزف بھی پہنچ گیا تھا۔ خان نے گاڑی دیکھی تھی اور عمران کے اس بیان سے مطمئن ہو گیا تھا کہ اُس پر کئی قسم کے نشانات استعمال کیے جا سکتے تھے۔۔۔۔ اور پھر اُس نے مزید شعبدوں کی فرمائش کی تھی۔
“عالی جاہ۔۔۔۔! صرف دو دن کی مہلت دیجئے تاکہ ہم کئی نئے کھیل تیار کر سکیں۔!“
خان نے عرض داشت قبول کی تھی اور عمران جوزف سمیت مہمان خانے میں واپس آ گیا تھا۔! جوزف نے لڑکی کے بارے میں پوچھا تھا اور عمران نے اُسے اب تک کی کہانی سنائی تھی۔
“لیکن باس۔۔۔۔! یہاں سے نکلنے کی کیا صورت ہوگی۔! یہ عمارت تو قرونِ وسطیٰ کے قلعوں جیسی ہے۔!“ جوزف نے کہا۔
“ فکر مت کرو۔۔۔۔ دیکھا جائے گا۔۔۔۔ بس یہاں ذرا پینے پلانے کے معاملے میں محتاط رہنا۔ یہ لوگ شراب نہیں پیتے۔۔۔۔اور شائد اسے پسند بھی نہ کریں کہ یہاں شراب پی جائے۔ چھپا کر گاڑی سے نکال لانا۔۔۔۔اور یہاں کہیں چھپا دینا۔!“
“میں احتیاط برتوں گا باس۔۔۔۔!“
رات گئے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی تھی اور عمران نے دروازہ کھولا تھا۔! داراب خان جلدی سے کمرے میں داخل ہوا تھا اور دروازہ بند کر کے آہستہ سے بولا تھا۔ “کیا تم تیار ہو۔!“
“ تمہارا ہی منتظر تھا۔۔۔۔!“ عمران نے کہا۔ وہ کمرے میں اس وقت تنہا تھا۔ جوزف کے سونے کا انتظام دوسرے کمرے میں کیا گیا تھا۔ یہ داراب ہی کی تجویز تھی۔!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top