فرحت کیانی
لائبریرین
“ سنو۔۔۔۔اسے یقین دلا دینا کہ اگر داراب کی حکمتِ عملی کو دخل نہ ہوتا تو وہ اپنے باپ کو زندہ نہ دیکھ سکتی اور بات صرف دو انگلیوں ہی پر نہ ٹل جاتی۔!“
“ میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں داراب خان۔۔۔۔!“
“ اب چپ چاپ میرے ساتھ چلے آؤ۔۔۔۔ ایک گھنٹے بعد میں تمہیں پھر یہیں پہنچا جاؤں گا۔!“ داراب نے کہا۔
قریباً دس منٹ تک چلتے رہنے کے بعد داراب ایک کمرے میں داخل ہوا تھا۔
“ٹارچ لائے ہو۔۔۔۔!“ اس نے پوچھا۔
“ہاں موجود ہے۔۔۔۔!“
“ اچھی بات ہے۔۔۔۔ نیچے تاریکی ہی تاریکی ہے۔۔۔۔! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔ تہہ خانے کی سیڑھیوں کے اختتام پر ایک دروازہ ملے گا۔! وہ صرف سیڑھیوں ہی کی طرف سے کھولا جا سکتا ہے۔ اندر سے نہیں۔۔۔۔!“ تمہارے داخل ہو جانے پر خودبخود بند ہوجائے گا اور پھر میں ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد نیچے آ کر دروازہ کھولوں گا۔ تم دروازے کے قریب ہی موجود رہنا۔!“
“ میں نے پوری طرح ذہن نشین کر لیا ہے۔۔۔۔!“ عمران بولا۔
داراب نے ایک گوشے سے قالین الٹ دیا۔۔۔۔ اُسی جگہ تہہ خانے میں داخل ہونے کا راستہ تھا۔! عمران حسبِ ہدایت نیچے اُترا۔۔۔۔ اور سیڑھیوں کے اختتام پر بند دروازے کو کھولنے کے لئے ہینڈل گھمایا دروازہ بے آواز کھلا تھا اور اُس کے گزرتے ہی پھر بند ہو گیا تھا۔!
گہری تاریکی تھی چاروں طرف۔۔۔۔ اُس نے ٹارچ روشن کی اور اطراف میں روشنی ڈالنے لگا۔! پھر روشنی کا دائرہ زینو پر ٹھہرا تھا جو گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی شائد بےخبر سو رہی تھی۔
قریب پہنچ کر عمران نے اُسے آوازیں دیں اور وہ اچھل پڑی۔
“ کک۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔!“
“عمران۔۔۔۔!“
“ اوہ۔۔۔۔!“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بےساختہ پوچھا۔ “عمران۔۔۔۔! تت۔۔۔۔تم کہاں تھے۔!“
“ قید میں۔۔۔۔ لیکن اب میں آزاد ہوں! بیٹھ جاؤ اور جو کچھ کہوں اُسے سکون سے سنو۔!“
“ انہوں نے بابا کی دو انگلیاں کاٹ دی ہیں۔!“ وہ بلبلا اٹھی۔
“ میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں داراب خان۔۔۔۔!“
“ اب چپ چاپ میرے ساتھ چلے آؤ۔۔۔۔ ایک گھنٹے بعد میں تمہیں پھر یہیں پہنچا جاؤں گا۔!“ داراب نے کہا۔
قریباً دس منٹ تک چلتے رہنے کے بعد داراب ایک کمرے میں داخل ہوا تھا۔
“ٹارچ لائے ہو۔۔۔۔!“ اس نے پوچھا۔
“ہاں موجود ہے۔۔۔۔!“
“ اچھی بات ہے۔۔۔۔ نیچے تاریکی ہی تاریکی ہے۔۔۔۔! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔ تہہ خانے کی سیڑھیوں کے اختتام پر ایک دروازہ ملے گا۔! وہ صرف سیڑھیوں ہی کی طرف سے کھولا جا سکتا ہے۔ اندر سے نہیں۔۔۔۔!“ تمہارے داخل ہو جانے پر خودبخود بند ہوجائے گا اور پھر میں ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد نیچے آ کر دروازہ کھولوں گا۔ تم دروازے کے قریب ہی موجود رہنا۔!“
“ میں نے پوری طرح ذہن نشین کر لیا ہے۔۔۔۔!“ عمران بولا۔
داراب نے ایک گوشے سے قالین الٹ دیا۔۔۔۔ اُسی جگہ تہہ خانے میں داخل ہونے کا راستہ تھا۔! عمران حسبِ ہدایت نیچے اُترا۔۔۔۔ اور سیڑھیوں کے اختتام پر بند دروازے کو کھولنے کے لئے ہینڈل گھمایا دروازہ بے آواز کھلا تھا اور اُس کے گزرتے ہی پھر بند ہو گیا تھا۔!
گہری تاریکی تھی چاروں طرف۔۔۔۔ اُس نے ٹارچ روشن کی اور اطراف میں روشنی ڈالنے لگا۔! پھر روشنی کا دائرہ زینو پر ٹھہرا تھا جو گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی شائد بےخبر سو رہی تھی۔
قریب پہنچ کر عمران نے اُسے آوازیں دیں اور وہ اچھل پڑی۔
“ کک۔۔۔۔ کون ہے۔۔۔۔!“
“عمران۔۔۔۔!“
“ اوہ۔۔۔۔!“ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بےساختہ پوچھا۔ “عمران۔۔۔۔! تت۔۔۔۔تم کہاں تھے۔!“
“ قید میں۔۔۔۔ لیکن اب میں آزاد ہوں! بیٹھ جاؤ اور جو کچھ کہوں اُسے سکون سے سنو۔!“
“ انہوں نے بابا کی دو انگلیاں کاٹ دی ہیں۔!“ وہ بلبلا اٹھی۔