کاما
کھانا تقسیم کر دیا گیا تھا _ گاؤں کا ہر شخص ملک رحمت کی تعریف کر رہا تھا _وہ ملک رحمت کو گاؤں کے لیے رحمت قرار دے رہے تھے _ پیشتر اس کے کہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جاتے ملک رحمت اٹھا اور کرم دین کے سوئم میں آئے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوا _
جیسا کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ کرم دین میرا نہایت ہی وفادار اور جفاکش ملازم تھا حقیقت میں میں نے اسے کبھی ملازم نہیں سمجھا ، ہمیشہ اسے اپنا بھائی جیسا ہی سمجھتا رہا ہوں لیکن اس کا یوں اچانک دنیا سے چلے جانا میرے لیے انتہائی صذمے کا باعث ہے _ ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں ایک ہمدرد بھائی سے محروم ہو گیا ہوں _ اس کے ہوتے ہوئے مجھے کسی کام کی پریشانی نہیں تھی _ کرم دین سب کام وقت پر کر دیتا تھا _ ہر کڑے وقت میں حویلی کی خدمت کرنے والا کرم دین ہر آواز پر حاضر ہو جانے والا کرم دین آج جب اس دنیا میں نہیں رہا تو مجھے اپنے سے زیادہ اس کے خاندان کی فکر محسوس ہو رہی ہے _میں غم کی ان گھڑیوں میں یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کرم دین کا بیٹا جو ابھی محض چھ برس کا ہے اسے حویلی میں کام پر رکھ رہا ہوں _ وہ اگرچہ چھوٹا ہے اور زیادہ کام نہیں کر پائے گا لیکن حویلی میں رہنے سے وہ زمانے کی اونچ نیچ بھی سمجھتا رہے گا اور آوارہ گردی سے بھی بچا رہے گا _ اب اسے ہی تو اپنے خاندان کا سہارا بننا ہے _ کرم دین کی بڑی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا رحم دین پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے لیکن تقدیر کے لکھے کو بھلا کون مٹا سکتا ہے _
گاؤں والے ملک رحمت کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہونے لگے _گاؤں والوں کے نزدیک ملک رحمت نے کرم دین کے خاندان کو بے سہارا ہونے سے بچا لیا تھا ِِ
******
کرم دین بہت محنتی اور جفاکش شخص تھا _وہ دن رات ملک رحمت کے کام کرتا ،حویلی کے کام ھوتے یا باہر کے یا پھر مویشیوں کی دیکھ بھال سب کرم دین نے سنبھال رکھا تھا _ گو کہ اب وہ بوڑھا ھو رھا تھا لیکن اپنے کام میں سستی ہرگز نہ کرتا تھا _ ملک رحمت بھی اس کا بہت خیال رکھتا _ کرم دین بچپن سے ان کی حویلی میں کام کر رہا تھا _ کرم دین سے پہلے اس کا باپ دادا بھی اسی حویلی میں کام کرتے رہے تھے _ ملک رحمت کے خاندان سے وفاداری نسل در نسل کرم دین کی رگوں میں اتر آئی تھی _کرم دین کے دو اور بھائی بھی تھے جو جوانی میں ہی ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے _وہ بھی کرم دین کی طرح حویلی ہی میں کام کرتے تھے _ان کے بعد کرم دین نے حویلی والوں کو اپنے کام کی وجہ سے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا _ کرم دین کی شادی ملک رحمت کے والد ملک حشمت نے کراوئی تھی _ اللہ نے اوپر نیچے چار بیٹیوں سے نوازنے کے بعد بیٹا رحم دین اس کی جھولی میں ڈالا تھا _بیٹے کو پانے کے بعد کرم دین بہت خوش تھا _ وہ رحم دین کے بارے میں اونچے اونچے خواب دیکھتا رہا _ اس نے سوچ رکھا تھا کہ رحم دین کو اچھی تعلیم دلوائے گا اور بڑا آدمی بنائے گا _ جیسے ہی رحم دین کی عمر چھ برس ہوئی تو کرم دین نے دبے لفظوں میں ملک رحمت سے اپنی خواہش کا اظہار کیا _ ملک رحمت نے کرم دین کو اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی _
گاؤں کے لوگ حیران تھے کہ جدی پشتی حویلی میں کام کرنے والا کرم دین کیونکر اپنے بیٹے کو پڑھائے گا _ اس کے بیٹے کو بھی آخر اس کی جگہ سنبھالنی تھی _ لیکن ملک رحمت کی تعاون کی یقین دہانی کے بعد ان لوگوں کی رائے کرم دین کے بارے میں بدل گئی _ اب انہیں یقین ہو گیا تھا کہ کرم دین کا خواب ضرور حقیقت کا روپ دھارے گا _
کرم دین مستقبل کے منصوبے بنانے لگا _ اسے فوری طور پر رحم دین کی کتابوں کا بندوبست کرنا تھا _ نئی کلاسیں چند دن میں شروع ہونے والی تھیں
******
رحم دین نئی کتابیں اور نیا اسکول بیگ پا کر بہت خوش تھا_اگلے ہفتے اسے اسکول جانا تھا _اسے بڑی شدت سے اس دن کا انتظار تھا _کرم دین بیٹے کی خوشی دیکھ کر خود بھی بہت خوش تھا _ اس کا خواب پورے ہونے جا رہا تھا _اس کے زہن میں دھندلی سی یادیں تازہ ہو گئیں_
اس کا باپ بھی کرم دین کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا اور وہ بھی ایک دن رحم دین کی طرح اسکول جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اس کے باپ کے ساتھ حادثہ پیش آ گیا _ٹریکٹر نے اس کے باپ کو روند ڈالا _گاؤں بھر میں شور ہو رہا تھا کہ کرم دین کا باپ بے دھیانی میں چلتا ہوا اچانک ٹریکٹر کے سامنے آ گیا تھا اور یوں دنیا سے اس کا ناطہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا _
پھر زندگی بھر کرم دین اسکول نہ جا سکا _
******
کرم دین کے گھر کہرام مچا ہوا تھا_کرم دین گاؤں میں سے گزرنے والی نہر میں ملک رحمت کی بھینس کو نہلاتے ہوئے ڈوب گیا تھا _چار گھنٹوں کی تلاش کے بعد اس کی لاش قریب ہی سے برآمد کر لی گئی تھی _کرم دین کی اچانک موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی_کرم دین کے خاندان پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی _گاؤں بھر میں سوگواری کی کیفیت طاری ہو گئی _ معصوم رحم دین کو کچھ پتا نہ تھا کہ گھر میں کیا افتاد آن پڑی ہے_اس کی ماں رو رہی تھی _ بہنیں چلا رہی تھیں اور وہ خود حیرانی سے ایک کونے میں پڑا یہ سب دیکھ رہا تھا_ملک رحمت بھی اپنے چند لوگوں کے ہمراہ آ چکا تھا _اس کے چہرے پر پریشانی کے گہرے آثار دیکھے جا سکتے تھے_اسے جلدی جلدی تدفین کا بندوبست کرنا تھا_
وہ سوچ رہا تھا کہ چند دن میں زندگی واپس اپنی ڈگر پر لوٹ آئے گی _بوڑھے کرم دین کی جگہ جلد ہی اسے ایک اور کرم دین مل جائے گا جو اس کی خدمت کرم دین کی طرح ہی کرے گا_
اس نے ایک گہری سانس لی اور کرم دین کی تدفین کے انتظامات کا جائزہ لینے لگے_وہ کرم دین تدفین سے لے کر سوئم تک وہاں جاتا رہا_سوئم کے دن اس نے کرم دین کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے وفاداری کا صلہ دے دیا تھا_
******
حویلی کے روز شب پہلے جیسے ھی تھے_وہی ملکانی کی گرج دار آواز اور وہی ادھر ادھر بھاگتے ہوئے نوکر چاکر_سب اپنا اپنا کام چابکدستی سے کر رہے تھے_
انہیں میں ایک چھوٹی عمر کا "کاما" بھی موجود تھا اس کے ایک ہاتھ میں کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا_پلنگ کو صاف کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپکے اور اسی کپڑے میں جذب ہوتے چلے گئے _
کھانا تقسیم کر دیا گیا تھا _ گاؤں کا ہر شخص ملک رحمت کی تعریف کر رہا تھا _وہ ملک رحمت کو گاؤں کے لیے رحمت قرار دے رہے تھے _ پیشتر اس کے کہ لوگ اپنے گھروں کو واپس جاتے ملک رحمت اٹھا اور کرم دین کے سوئم میں آئے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوا _
جیسا کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ کرم دین میرا نہایت ہی وفادار اور جفاکش ملازم تھا حقیقت میں میں نے اسے کبھی ملازم نہیں سمجھا ، ہمیشہ اسے اپنا بھائی جیسا ہی سمجھتا رہا ہوں لیکن اس کا یوں اچانک دنیا سے چلے جانا میرے لیے انتہائی صذمے کا باعث ہے _ ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں ایک ہمدرد بھائی سے محروم ہو گیا ہوں _ اس کے ہوتے ہوئے مجھے کسی کام کی پریشانی نہیں تھی _ کرم دین سب کام وقت پر کر دیتا تھا _ ہر کڑے وقت میں حویلی کی خدمت کرنے والا کرم دین ہر آواز پر حاضر ہو جانے والا کرم دین آج جب اس دنیا میں نہیں رہا تو مجھے اپنے سے زیادہ اس کے خاندان کی فکر محسوس ہو رہی ہے _میں غم کی ان گھڑیوں میں یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کرم دین کا بیٹا جو ابھی محض چھ برس کا ہے اسے حویلی میں کام پر رکھ رہا ہوں _ وہ اگرچہ چھوٹا ہے اور زیادہ کام نہیں کر پائے گا لیکن حویلی میں رہنے سے وہ زمانے کی اونچ نیچ بھی سمجھتا رہے گا اور آوارہ گردی سے بھی بچا رہے گا _ اب اسے ہی تو اپنے خاندان کا سہارا بننا ہے _ کرم دین کی بڑی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا رحم دین پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے لیکن تقدیر کے لکھے کو بھلا کون مٹا سکتا ہے _
گاؤں والے ملک رحمت کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور اسے دعائیں دیتے ہوئے وہاں سے رخصت ہونے لگے _گاؤں والوں کے نزدیک ملک رحمت نے کرم دین کے خاندان کو بے سہارا ہونے سے بچا لیا تھا ِِ
******
کرم دین بہت محنتی اور جفاکش شخص تھا _وہ دن رات ملک رحمت کے کام کرتا ،حویلی کے کام ھوتے یا باہر کے یا پھر مویشیوں کی دیکھ بھال سب کرم دین نے سنبھال رکھا تھا _ گو کہ اب وہ بوڑھا ھو رھا تھا لیکن اپنے کام میں سستی ہرگز نہ کرتا تھا _ ملک رحمت بھی اس کا بہت خیال رکھتا _ کرم دین بچپن سے ان کی حویلی میں کام کر رہا تھا _ کرم دین سے پہلے اس کا باپ دادا بھی اسی حویلی میں کام کرتے رہے تھے _ ملک رحمت کے خاندان سے وفاداری نسل در نسل کرم دین کی رگوں میں اتر آئی تھی _کرم دین کے دو اور بھائی بھی تھے جو جوانی میں ہی ایک حادثے کا شکار ہو گئے تھے _وہ بھی کرم دین کی طرح حویلی ہی میں کام کرتے تھے _ان کے بعد کرم دین نے حویلی والوں کو اپنے کام کی وجہ سے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا _ کرم دین کی شادی ملک رحمت کے والد ملک حشمت نے کراوئی تھی _ اللہ نے اوپر نیچے چار بیٹیوں سے نوازنے کے بعد بیٹا رحم دین اس کی جھولی میں ڈالا تھا _بیٹے کو پانے کے بعد کرم دین بہت خوش تھا _ وہ رحم دین کے بارے میں اونچے اونچے خواب دیکھتا رہا _ اس نے سوچ رکھا تھا کہ رحم دین کو اچھی تعلیم دلوائے گا اور بڑا آدمی بنائے گا _ جیسے ہی رحم دین کی عمر چھ برس ہوئی تو کرم دین نے دبے لفظوں میں ملک رحمت سے اپنی خواہش کا اظہار کیا _ ملک رحمت نے کرم دین کو اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی _
گاؤں کے لوگ حیران تھے کہ جدی پشتی حویلی میں کام کرنے والا کرم دین کیونکر اپنے بیٹے کو پڑھائے گا _ اس کے بیٹے کو بھی آخر اس کی جگہ سنبھالنی تھی _ لیکن ملک رحمت کی تعاون کی یقین دہانی کے بعد ان لوگوں کی رائے کرم دین کے بارے میں بدل گئی _ اب انہیں یقین ہو گیا تھا کہ کرم دین کا خواب ضرور حقیقت کا روپ دھارے گا _
کرم دین مستقبل کے منصوبے بنانے لگا _ اسے فوری طور پر رحم دین کی کتابوں کا بندوبست کرنا تھا _ نئی کلاسیں چند دن میں شروع ہونے والی تھیں
******
رحم دین نئی کتابیں اور نیا اسکول بیگ پا کر بہت خوش تھا_اگلے ہفتے اسے اسکول جانا تھا _اسے بڑی شدت سے اس دن کا انتظار تھا _کرم دین بیٹے کی خوشی دیکھ کر خود بھی بہت خوش تھا _ اس کا خواب پورے ہونے جا رہا تھا _اس کے زہن میں دھندلی سی یادیں تازہ ہو گئیں_
اس کا باپ بھی کرم دین کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا اور وہ بھی ایک دن رحم دین کی طرح اسکول جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اس کے باپ کے ساتھ حادثہ پیش آ گیا _ٹریکٹر نے اس کے باپ کو روند ڈالا _گاؤں بھر میں شور ہو رہا تھا کہ کرم دین کا باپ بے دھیانی میں چلتا ہوا اچانک ٹریکٹر کے سامنے آ گیا تھا اور یوں دنیا سے اس کا ناطہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا _
پھر زندگی بھر کرم دین اسکول نہ جا سکا _
******
کرم دین کے گھر کہرام مچا ہوا تھا_کرم دین گاؤں میں سے گزرنے والی نہر میں ملک رحمت کی بھینس کو نہلاتے ہوئے ڈوب گیا تھا _چار گھنٹوں کی تلاش کے بعد اس کی لاش قریب ہی سے برآمد کر لی گئی تھی _کرم دین کی اچانک موت پر ہر آنکھ اشکبار تھی_کرم دین کے خاندان پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی _گاؤں بھر میں سوگواری کی کیفیت طاری ہو گئی _ معصوم رحم دین کو کچھ پتا نہ تھا کہ گھر میں کیا افتاد آن پڑی ہے_اس کی ماں رو رہی تھی _ بہنیں چلا رہی تھیں اور وہ خود حیرانی سے ایک کونے میں پڑا یہ سب دیکھ رہا تھا_ملک رحمت بھی اپنے چند لوگوں کے ہمراہ آ چکا تھا _اس کے چہرے پر پریشانی کے گہرے آثار دیکھے جا سکتے تھے_اسے جلدی جلدی تدفین کا بندوبست کرنا تھا_
وہ سوچ رہا تھا کہ چند دن میں زندگی واپس اپنی ڈگر پر لوٹ آئے گی _بوڑھے کرم دین کی جگہ جلد ہی اسے ایک اور کرم دین مل جائے گا جو اس کی خدمت کرم دین کی طرح ہی کرے گا_
اس نے ایک گہری سانس لی اور کرم دین کی تدفین کے انتظامات کا جائزہ لینے لگے_وہ کرم دین تدفین سے لے کر سوئم تک وہاں جاتا رہا_سوئم کے دن اس نے کرم دین کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کر کے وفاداری کا صلہ دے دیا تھا_
******
حویلی کے روز شب پہلے جیسے ھی تھے_وہی ملکانی کی گرج دار آواز اور وہی ادھر ادھر بھاگتے ہوئے نوکر چاکر_سب اپنا اپنا کام چابکدستی سے کر رہے تھے_
انہیں میں ایک چھوٹی عمر کا "کاما" بھی موجود تھا اس کے ایک ہاتھ میں کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا_پلنگ کو صاف کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپکے اور اسی کپڑے میں جذب ہوتے چلے گئے _