کامیاب ترین پیشہ از اعمالِ مفتی ابوالمنات مضاربتی

محفلینِ گرامی قدر و دِل گرفتگانِ معاشرہ تسلیمات !

آج سے چار پانچ سال پہلےکی بات ہے کہ ، بیرونِ مُلک تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھ میں بھی باقی تمام طلباء کی طرح جذبہءِ حُبّ الوطنی جاگا اور میں نے روزگار کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے ایک پُرانے واقف کار کو فون کیا۔ یہ صاحب کسی تعمیراتی کمپنی میں مُنشی یا خزانچی وغیرہ تھے اور میری اُن سے پاکستان میں کی گئی پُرانی نوکری کے سلسلہ میں کچھ یاداللہ تھی۔ پہلے تو انھوں نے اتنا لمبا عرصہ یاد نہ کرنے کرنے پر گلے شکوے کیے اور پھر مجھ پر وطنِ عزیز کی خدمت والی دُھن سوار دیکھ کر فرمانے لگے نوکری تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے بہت سے انجینئر لڑکے اِدھر اُدھر بھرتی کروائے ہیں مجھے بھی کہیں رکھوا دیں گے۔
خیر یہ حالات دیکھ کر میں نے اُن پر بوجھ بننے کی بجائے ، پردیس ہی کی خاک چھاننے کا فیصلہ کیا۔ البتہ گاہے بگاہے اپنے طور پر برقی ذرائع ہی سے وہاں کے دفتری اوقاتِ کار ، مروّجہ تنخواہ اور حقوقِ تعطیلات وغیرہ کی معلومات حاصل کرتا رہا۔ مختلف پیشوں کے بارے تجزیاتی اعداد و شمار بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں مگر جس طرح ہمارے مُلک کی دستاویزی معیشت انتہائی محدود اور بے اعتباری ہے اِسی طرح دوسری ہر قسم کی کاروباری اور ملازمتی سرگرمیوں کے بارے اعداد و شمار بھی ناقص اور نامکمل ہیں۔ اِس تحریر کا مقصد ایک انتہائی کامیاب پیشہ کے بارے معلومات اور آگاہی کی فراہمی ہے جو کسی طرح کے مسابقتی عمل میں شامل نہیں دیکھا گیا۔ افادیّت کے اعتبار سے یہ دوسرے ہر کاروبار ، کارخانہ ، ہُنر اور فن وغیرہ کا داروغہ ہے اور ہر فن مولا والی اصطلاح شاید ایجاد ہی اس دھندے کے ماہرین کے لیے ہوئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم سب اِس سونے کی کان سے لاعلمی کے باعث جھک مارتے رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ مجھے خود اِس کے بارے حادثاتی طور پر پتہ چلا ، کیا اور کیسے ؟ اِس بارے میں اپنے تاثرات نیچے رقم کر رہا ہوں۔

دو سال پہلے جب میں بقر عید سے پہلے پاکستان گیا تو پتہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے محلے میں ایک مفتی صاحب نے مکان کرائے پر لیا ہے۔ عمر یہی کوئی چالیس کے لگ بھگ تھی اور یہ صاحب اپنی والدہ اور بیوی بچوں سمیت کسی آفت زدہ علاقہ سے یہاں منتقل ہوئے تھے اور پہلے سے آباد کسی کے رشتہ دار تھے۔

میرے بچپن کے ایک دوست جو حلقہءِ یاراں میں دروغ گوئی اور رزمِ حق و باطل میں پنج وقتی نمازی ہونےکی وجہ سے کافی نام رکھتے ہیں ایک دن مجھے لے کر مفتی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مفتی صاحب نے اپنی بیٹھک خدمتِ خلق کے لیے وقف کر دی تھی اور مندرجہ ذیل ضروریاتِ زندگی کا اہتمام باقاعدگی سے کیا جا رہا تھا:

1- جادو جنّات اور شیطانی اثرات سے تحفّظ کے لیے وظائف
2- لاعلاج امراض کے علاج کے لیے تھالیوں اور پیالیوں پر زعفران کے پانی سے تحریر شدہ تعویزات
3- دائمی بیماریوں پر طبِ اِسلامی کے معجزات کا اطلاق
4- بدنی عبادات کے قبول ہونے یہ نہ ہونے کے معیار کے مسائل
5- نکاح ، فوتگی ، ختنے ، عقیقے اور اگربتیوں والی دیگر مذہبی رسومات کی ادائیگی کے انتظامات
6- عدالتوں میں موجود مقدمات کے لیے فقہی شہادتیں اور سربمہر فتاوٰی کی فراہمی
7- ازدواجی مسائل ، عائلی قوانین اور مختلف سماجی معاملات پر قانونی امداد
8- زکٰوہ کی وصولی اور اپنی زیرِ تعمیر مسجد کے لیے صدقات و خیرات کی قبولی
9- مضاربت اور مشارکت کے لیے سرمائے کا لین دین اور حسابی تعین
10- بینکاری سے منسلک عوام کے لیے غیص و غضب کی وعیدیں اور حلال سرمایہ کاری کی ترغیب و تشہیر
11- کاروباری حضرات کے لیے ماہانہ 5 اور 10 لاکھ والی اِسلامی کمیٹیاں بذریعہ استخارہ
12- عالم ِ اسلام کے خلاف جاری روافض اور یہود و ہنود کی سازشوں پر اپنی مستند رائے کا اظہار

کیونکہ عیدالاضحٰی کی آمد آمد تھی اُن کی ساری گلی میں مڑیل قسم کی بھیڑیں بندھی تھی مگر اُن کے دروازے پر آسٹریلوی نسل کا سیاہ نوجوان بیل بندھا تھا۔ استفسار پر اُس کی قیمت انہوں نے ایک لاکھ روپیہ بتائی۔
میں جتنی دیر اُن کی خدمت میں موجود رہا اُن کی قابلیّت پر رشک کرتا اور اپنے انجینئر بننے پر لعنت بھیجتا رہا۔ آخر میں مَیں مفتی صاحب کی ہُنر مندی کی عظمت اور ایک غلط پیشہ اپنانے پر اپنی کوتاہ نظری اور گناہگاری کا اعتراف یوں کرنا چاہوں گا:

اے منات اے لات ازیں منزل مَرَو
گر ز منزل می روی از دل مَرَو
اقبال ؔ
 
آخری تدوین:
کچھ عرصہ پہلےمحسنِ پاکستان کے شکووں نے ساری قوم کو شرمندہ کر کے رکھ دیا۔ ہمارے ایک دوست جو لسانی قوم پرستی کے بارے متشدد قسم کے خیالات رکھتے ہیں نہایت فخریہ انداز سے ڈاکٹر صاحب کے بیانات کی تشہیر میں مصروف تھے کہ مجھ سے بھی رہا نہ گیا۔
مورخہ یکم جون 2013 کو میں نے بھی جو منہ میں آیا اُن دوست صاحب سے کہہ ڈالا۔ بہرحال ایسی جلی کٹی سے نہ تو ہماری دوستی میں کوئی قلق ڈلا نہ ہی وہ اپنی حرکات سے باز آئے۔ میں درج ذیل میں اپنے مکالمے کو تحریر کے حوالے کرتا ہوں شاید اہلِ ابصار عبرت حاصل کر پائیں۔

ایٹمی صلاحیت کے حصول میں ڈاکٹر صاحب کا کردار اور بیس سالہ لگن نا قابلِ فراموش ہے اور پرزہ جات کے حصول میں اپنی ساکھ داؤ پر لگا کر اُن کی (بے لوث؟) ملکی خدمت کا معاوضہ ادا کرنا ناممکن ہے۔مگر ایک سوال پوچھنے میں مَیں حق بجانب ہوں ، وہ یہ کہ ایٹمی دھماکہ تنِ تنہا کرنے کا دعوٰی کرنے والے وطنِ عزیز کے قابلِ احترام محسن یہ بتائیں کہ اُنھوں نے ا،س سے پہلے کتنی بار کولڈ ٹیسٹ کیے تھے ؟

مقتدر حلقوں سے اپنی ناقدری کی شکایت رکھنا فضول ہے ، اِس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے ۔ محدود وسائل ہونے کی وجہ سے پاکستان میں تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اسی زیادتی کا شکار ہیں۔تجرباتی دھماکے کرنے والی ٹیم میں شامل باقی سائنسدانوں پر لسانی تعصب کا بھونڈا الزام لگاتے وقت ڈاکٹر صاحب یہ بھول گئے ہیں کہ اِن کی مہارت صرف خام یورینیم کی افزودگی کرنے والے سینٹری فیوجز تک محدود ہے ،تا کہ خالص یورینیم حاصل کیا جا سکے۔ جبکہ دھاتی یورینیم کے انشقاق یا تخریب کا معاملہ بالکل الگ تکنیک و فن کا متقاضی ہے۔

اتنی ذاتیں تو ہمیں زبانی یاد نہیں ہوتیں ، جتنی ڈاکٹر قدیر نے ایک ہی سانس میں گنوا دی ہیں۔ یہ ضرور گھر سے یہ سارا کچھ یاد کر کے آئے تھے اور ایک لحاظ سے یہ اِن کے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مہاجر ہونے کے زعم میں تعصب کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں ۔اِن کی سیاسی جماعت دفاعِ پاکستان کونسل نے قبل از انتخابات ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں جلسے کیے اور اپنے حق میں ریلیاں نکلوائی تھیں اور جاٹوں ، ارائیوں اور چوہدریوں سے محسنِ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگوائے تھے ، ڈاکٹر قدیر مگر یہ بتائیں کہ سارے انتخابی مہم کے عرصہ میں یہ جناب کراچی میں کتنی بار جلوہ افروز ہوئے ؟

کچھ بے لگام ، بے مرّوت احباب تو ڈاکٹر صاحب پر اپنے انگریزی آرٹیکل کی خاطر ولائیتی روزناموں سے مواد چُرانے کا الزام بھی لگاتے رہے ہیں اور مجھے ثبوت بھیجتے رہے ہیں۔ لیکن میں پھر بھی یورینیم کی افزودگی ایجاد کرنے کا سہرا بلاشبہ دفاعِ پاکستان کونسل کے صدر اور امیدوارِ صدرِ پاکستان جناب مولانا عبدالقدیرؒ خان کے سر ہی باندھتا ہوں ۔ مستزاد یہ کہ جب ڈاکٹر ثمر مبارک نے ہمارے کالج کی ایک تقریب میں کولڈ ٹیسٹ کا دعوٰی کیا تھا تو میں نے یکسر مسترد کر دیا تھا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ٹیسٹ ایک بندہ کرے اور دھماکہ ایک فرشتہ ۔

مولانا قدیر ؒ کی عظمت کا اُس وقت معترف ہوا تھا جب انھوں نے ٹی وی پر آ کر ایکسس آف ایول کو ایٹمی راز بیچنے پر معافی کی درخواست کی تھی ۔ اِس کے علاوہ میں نےمشرف کا اُنھیں فادر آف ایول قرار دیے جانے پر غم و غصہ کا اظہار بھی کیا تھا۔ڈاکٹر قدیر صاحب سے میری عقیدت اُس وقت انتہا کو پہنچ گئی تھی جب انھوں نے نہتے مظلوم سائنسدان سیّد آغا وقار عرف واٹر کِٹ کے حق میں قلم زنی شروع کی تھی۔

مجھے افسوس ہے کہ مشرف کی زیادتیوں کے کارند مولانا ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو مغربی علوم و فنون کو پاکستان اور پاکستانی مہارات کو برادر اسلامی ملکوں کی طرف منتقل کرنے کا سلسلہ بند کرنا پڑا۔ مگر خوشی اِس بات کی کہ انھوں نے سیاست شروع کر دی تھی۔ کئی سال سے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف برسرپیکار بھٹکنے والی چودہ جماعتوں کو ایک نکتہ پر مجتمع کیا اور اِسی بنیاد پر الیکشن بھی لڑا۔ اگر شیخ رشید غداری اور بے رحمی نہ دکھاتا تو دفاعِ پاکستان کا چودہ جماعتی اتحاد ایک سیٹ لینے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔

حضرت کی موقع شناسی کی داد دینا پڑتی ہے، صحیح وقت میں صحیح کام کا سلیقہ کوئی ان سے سیکھے۔ آپؒ نے محسوس کر لیا ہے کہ جتنا قند مشرّف بطور مظلوم سپوتِ کراچی سمیٹ رہا ہے اُتنے پر اِن کا بھی حق ہے۔ البتہ پاکستانی عوام کی بے وفائی کا جتنا ماتم کیا جائے کم ہے، محسنِ پاکستان کو صدرِ پاکستان تو درکنار ، کسی یونیورسٹی کا اعزازی چانسلر بھی نہیں بنایا جا رہا۔ مبادا جامعات میں انجینئرز کی بجائے کہیں ریورس انجینئر ہی نہ بننا شروع ہو جائیں۔ مگر بشکرِ تعالیٰ آپؒ مایوسی کو گناہ سمجھتے ہیں اور الحمدُاللہ الطاف حسین کی بیعت بھی کر چکے ہیں۔ اللہ آپؒ کے درجات مزید بلند فرمائے ۔ آمین ۔

جئے قدیر

تمت بالخیر
 
Top