کامیڈی کا بے تاج بادشاہ

فہیم

لائبریرین
معروف اسٹیج فنکار اور کامیڈین امان اللہ کے انتقال کے بعد سے اب تک کتنے ہی پروگرامز میں یہ سننے میں آیا کہ وہ کامیڈی کے بے تاج بادشاہ تھے۔
آفتاب اقبال صاحب تو ایک سوال (کیا امان اللہ کا برصغیر کا سب سے بڑا کامیڈین کہنا درست ہوگا؟) کے جواب میں فرماتے پائے گئے کہ برصغیر کیا پوری دنیا کے اسٹینڈ اپ کامیڈین میں امان اللہ با آسانی ٹاپ 5 میں جگہ بنا سکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔

اب سوال یہ ہے! خاص کر ان سے جو پنجابی زبان پر اتنا عبور رکھتے ہیں کہ پنجابی جگتوں سے محفوظ ہوسکیں کہ کیا واقعی امان اللہ صاحب اتنے زبردست کامیڈین تھے؟

اور اگر تھے تو کیا عمر شریف پھر آلو چھولے بیچنے والے ہیں؟

خود میں نے بڑی کوشش کی کہ امان اللہ صاحب کی کوئی ویڈیو ایسی دیکھوں کہ ہنسی آسکے لیکن شاید پنجابی سمجھ نہ آنے کی وجہ سے ہنسی کیا مسکراہٹ بھی نہ آسکی۔
ان کے مقابلے اردو کے کئی اسٹیج شو ایسے ہیں جنہوں نے قہقے مار کر ہنسنے پر مجبور کیا ہے۔

تو دوسرا سوال یہ بھی کیا پنجابی کے کامیڈی اسٹیج ڈرامے اردو سے بہتر ہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
رینکنگ:
امان اللہ دی گل ای ہور اے ،عمر شریف کی کیا بات ہے اور معین اختر کی کیا ہی بات ہے

دوسرے سوال پر سوال: کیا ڈرامہ پنجابی یا اردو سے بہتر ہوتا ہے ؟ یعنی ڈرامہ کے معیار کا دارومدار صرف زبان پر ہے؟
 

فرقان احمد

محفلین
امان اللہ خان دراصل پنجابی زبان اور ثقافت کے حوالے سے کامیڈی کے کنگ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وجہء شہرت بنیادی طور پر یہی ہے کہ وہ پنجاب کی ثقافت و تمدن کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ نظام الدین جو ریڈیو پر پروگرام کیا کرتے تھے اور امان اللہ مرحوم پنجاب میں بسنے والے افراد، ان کے رہن سہن کے طور طریقوں، بات چیت کے انداز کی نقالی کیا کرتے تھے اور انہوں نے بنیادی طور پر پنجابی زبان اور تہذیب و ثقافت کی اس خاص حوالے سے بڑی خدمت کی اور ایک زبان کو مکمل زوال سے بچایا؛ جگتوں کا معاملہ الگ رکھ چھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پار بسنے والے پنجاب کے باسی بھی ان کے بڑے مداح تھے۔ مزید یہ کہ ان کی آواز اچھی تھی اور پیروڈی کے فن میں مہارت کے باعث بڑے نامی گرامی گلوکار ان کے مداحوں میں شامل رہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اردو زبان کے حوالے سے امان اللہ کی کامیڈی کو پرکھنا غلط ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے حالیہ دور کا بڑا نام معین اختر مرحوم رہے۔ عمر شریف اور دیگر افراد کے نام ان کے بعد لیے جاتے ہیں۔

ان کے اساتذہ اور ان کے شاگردوں کا تذکرہ پھر کبھی سہی!

اسٹینڈ اپ کامیڈین کی فہرست برصغیر کے حوالے سے جب بھی بنائی جائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں امان اللہ آتے ہیں یا نہیں! ضرور ان کا نام آئے گا کیونکہ وہ اس فن میں طاق تھے تاہم اردو زبان میں شد بد نہ رکھنے کے باعث انہیں سرکاری تقاریب میں بھی کم کم مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے باوصف وہ مقبول رہے اور اسٹیج کی دنیا میں راج کرتے رہے۔ ویسے، ایمان داری کی بات یہی ہے کہ انڈیا نے کم از کم بیسویں صدی میں بڑے اسٹینڈ اپ کامیڈین پیدا نہیں کیے؛ اس میں تعصب کی بات نہیں ہے۔ حالیہ دور میں، ضرور ایسے نام سامنے آئے ہیں تاہم اس حوالے سے پاکستان بہرصورت سبقت لیے ہوئے تھا۔ فی زمانہ، انڈیا شاید آگے چل رہا ہو۔

پنجابی کے کامیڈی اسٹیج ڈرامے اردو کے اسٹیج ڈراموں سے معیار کے حوالے سے بہتر نہیں ہیں تاہم کسی فنکار کی صلاحیت کو شاید ہم اس کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ہیں۔ اگر صرف ڈرامے کے معیار کی بات ہے تو اردو اسٹیج ڈراموں کو کم از کم اس حوالے سے پنجابی زبان پر بوجوہ واضح فوقیت حاصل رہے گی۔ فی زمانہ، پنجابی سٹیج ڈراما جگت بازی کے علاوہ کچھ نہ ہے۔
 
آخری تدوین:

فہیم

لائبریرین
رینکنگ:
امان اللہ دی گل ای ہور اے ،عمر شریف کی کیا بات ہے اور معین اختر کی کیا ہی بات ہے

معین اختر تو خیر بہت ہی بڑے فنکار تھے۔
میں نے چونکہ اسٹیج کامیڈی ڈراموں کی بات کی تبھی عمر شریف کا نام لیا۔

دوسرے سوال پر سوال: کیا ڈرامہ پنجابی یا اردو سے بہتر ہوتا ہے ؟ یعنی ڈرامہ کے معیار کا دارومدار صرف زبان پر ہے؟

یہاں بھی یہی کہ بات صرف کامیڈی اور وہ بھی اسٹیج ڈراموں کی کامیڈی کی ہے کہ کون سی کامیڈی ایسی ہے جس پر زیادہ اور بے ساختہ ہنسی آسکے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
معین اختر تو خیر بہت ہی بڑے فنکار تھے۔
میں نے چونکہ اسٹیج کامیڈی ڈراموں کی بات کی تبھی عمر شریف کا نام لیا۔



یہاں بھی یہی کہ بات صرف کامیڈی اور وہ بھی اسٹیج ڈراموں کی کامیڈی کی ہے کہ کون سی کامیڈی ایسی ہے جس پر زیادہ اور بے ساختہ ہنسی آسکے۔
زبان نہ جاننے کی وجہ سے انگریزوں کو عمر شریف کی کامیڈی پر بے ساختہ ہنسی نہ آسکے گی لیکن پنجابی عمر شریف کو داد ضرور دیں گے کیوں کہ پنجاب میں پنجابی سے زیادہ اردو کی اشاعت و ترویج کی جاتی ہے۔
لیجیے پنجاب کے ایک اردو مزاحیہ شاعر جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو اردو پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز ہے کہ ان کی سوچیں علاقائی نہیں
 

فہیم

لائبریرین
امان اللہ خان دراصل پنجابی زبان اور ثقافت کے حوالے سے کامیڈی کے کنگ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وجہء شہرت بنیادی طور پر یہی ہے کہ وہ پنجاب کی ثقافت و تمدن کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ نظام الدین جو ریڈیو پر پروگرام کیا کرتے تھے اور امان اللہ مرحوم پنجاب میں بسنے والے افراد، ان کے رہن سہن کے طور طریقوں، بات چیت کے انداز کی نقالی کیا کرتے تھے اور انہوں نے بنیادی طور پر پنجابی زبان اور تہذیب و ثقافت کی اس خاص حوالے سے بڑی خدمت کی اور ایک زبان کو مکمل زوال سے بچایا؛ جگتوں کا معاملہ الگ رکھ چھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پار بسنے والے پنجاب کے باسی بھی ان کے بڑے مداح تھے۔ مزید یہ کہ ان کی آواز اچھی تھی اور پیروڈی کے فن میں مہارت کے باعث بڑے نامی گرامی گلوکار ان کے مداحوں میں شامل رہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اردو زبان کے حوالے سے امان اللہ کی کامیڈی کو پرکھنا غلط ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے حالیہ دور کا بڑا نام معین اختر مرحوم رہے۔ عمر شریف اور دیگر افراد کے نام ان کے بعد لیے جاتے ہیں۔

ان کے اساتذہ اور ان کے شاگردوں کا تذکرہ پھر کبھی سہی!

اسٹینڈ اپ کامیڈین کی فہرست برصغیر کے حوالے سے جب بھی بنائی جائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں امان اللہ آتے ہیں یا نہیں! ضرور ان کا نام آئے گا کیونکہ وہ اس فن میں طاق تھے تاہم اردو زبان میں شد بد نہ رکھنے کے باعث انہیں سرکاری تقاریب میں بھی کم کم مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے باوصف وہ مقبول رہے اور اسٹیج کی دنیا میں راج کرتے رہے۔ ویسے، ایمان داری کی بات یہی ہے کہ انڈیا نے کم از کم بیسویں صدی میں بڑے اسٹینڈ اپ کامیڈین پیدا نہیں کیے؛ اس میں تعصب کی بات نہیں ہے۔ حالیہ دور میں، ضرور ایسے نام سامنے آئے ہیں تاہم اس حوالے سے پاکستان بہرصورت سبقت لیے ہوئے تھا۔ فی زمانہ، انڈیا شاید آگے چل رہا ہو۔

پنجابی کے کامیڈی اسٹیج ڈرامے اردو کے اسٹیج ڈراموں سے معیار کے حوالے سے بہتر نہیں ہیں تاہم کسی فنکار کی صلاحیت کو شاید ہم اس کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ہیں۔ اگر صرف ڈرامے کے معیار کی بات ہے تو اردو اسٹیج ڈراموں کو کم از کم اس حوالے سے پنجابی زبان پر بوجوہ واضح فوقیت حاصل رہے گی۔ فی زمانہ، پنجابی سٹیج ڈراما جگت بازی کے علاوہ کچھ نہ ہے۔

آپ نے اچھا تجزیہ پیش کیا۔
اس کے مطابق امان اللہ خان پنجابی زبان و ثقافت کو لے کر کامیڈی کنگ کہلانے کے حقدار ہیں۔
 

فہیم

لائبریرین
زبان نہ جاننے کی وجہ سے انگریزوں کو عمر شریف کی کامیڈی پر بے ساختہ ہنسی نہ آسکے گی لیکن پنجابی عمر شریف کو داد ضرور دیں گے کیوں کہ پنجاب میں پنجابی سے زیادہ اردو کی اشاعت و ترویج کی جاتی ہے۔

قومی زبان ہونے کے باعث اردو تقریباً پورے پاکستان میں ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے تبھی ایک پنجابی، سندھی یا پشتو جاننے والا بھی اردو کامیڈی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے۔
لیکن ایک تھوڑی بہت پنجابی جاننے والا بھی پنجابی گانوں سے تو لطف اندوز ہوسکتا ہے لیکن پنجابی کامیڈی سے نہیں۔
اور یہ بات کم از کم میرے پر تو پوری طرح فٹ آتی ہے:)
 

الف نظامی

لائبریرین
آپ نے اچھا تجزیہ پیش کیا۔
اس کے مطابق امان اللہ خان پنجابی زبان و ثقافت کو لے کر کامیڈی کنگ کہلانے کے حقدار ہیں۔
میرے تجزیہ میں بھی کچھ ایسی ہی بات تھی کہ امان اللہ خان کے بارے میں پنجابی اور عمر شریف و معین اختر کے بارے میں اردو میں رائے دی۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
معین اختر تو خیر بہت ہی بڑے فنکار تھے۔
میں نے چونکہ اسٹیج کامیڈی ڈراموں کی بات کی تبھی عمر شریف کا نام لیا۔
میرے خیال میں عمر شریف معین اختر سے کہیں بڑا فنکار ہے ۔
اگر چہ دونوں اپنے فن میں بہت بڑے فنکار ہیں ۔
 

فرقان احمد

محفلین
میرے خیال میں عمر شریف معین اختر سے کہیں بڑا فنکار ہے ۔
اگر چہ دونوں اپنے فن میں بہت بڑے فنکار ہیں ۔
ارے اس معاملے میں ہماری رائے کس قدر مختلف ہے۔ :) عمر شریف صاحب کو اللہ پاک صحت دے تاہم ہماری دانست میں معین اختر مرحوم بڑے فن کار تھے۔ ذرا ہاف پلیٹ ہی دیکھ لیجیے سر!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ارے اس معاملے میں ہماری رائے کس قدر مختلف ہے۔ :) عمر شریف صاحب کو اللہ پاک صحت دے تاہم ہماری دانست میں معین اختر مرحوم بڑے فن کار تھے۔ ذرا ہاف پلیٹ ہی دیکھ لیجیے سر!
میں نے ان فنکاروں کے چیدہ چیدہ نمونے ہی دیکھے ہیں ۔ شاید آپ کا مشاہدہ زیادہ ہمہ گیر ہوگا ۔ (اس "شاید" کو یقینا بھی کہہ سکتا ہوں)
 

فہیم

لائبریرین
میرے خیال میں عمر شریف معین اختر سے کہیں بڑا فنکار ہے ۔
اگر چہ دونوں اپنے فن میں بہت بڑے فنکار ہیں ۔

ارے اس معاملے میں ہماری رائے کس قدر مختلف ہے۔ :) عمر شریف صاحب کو اللہ پاک صحت دے تاہم ہماری دانست میں معین اختر مرحوم بڑے فن کار تھے۔ ذرا ہاف پلیٹ ہی دیکھ لیجیے سر!

لیکن میرا سوال تو یہ تھا کہ کیا امان اللہ مرحوم ان دونوں سے بڑے فنکار تھے (کامیڈی کو لے کر):)
 

فرقان احمد

محفلین
لیکن میرا سوال تو یہ تھا کہ کیا امان اللہ مرحوم ان دونوں سے بڑے فنکار تھے (کامیڈی کو لے کر):)
اردو زبان بولنے اور سمجھنے والے افراد امان اللہ کو بڑا کامیڈین تصور نہیں کرتے؛ یہ بات آج کی نہیں ہے بلکہ اسی اور نوے کی دہائی میں امان اللہ کا 'معیاری' تھیٹر پر پرفارم کرنا بھی مشکل تھا۔ ظاہری بات ہے کہ معین اختر مرحوم اور عمر شریف اس حوالے سے ان پر فوقیت رکھتے ہیں کہ وہ سلجھے ہوئے لہجے میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تھے۔ امان اللہ زیادہ تر دیہی پنجاب کی ثقافت کی عکاسی کرتے رہے اور اپنے دائرے سے باہر نہ نکلے (اور یہ دائرہ بہت زیادہ چھوٹا بھی نہیں ہے) اور اگر آپ یہ سوال پنجاب میں رہنے بسنے والوں سے پوچھیں گے تو شاید آپ کو یہی جواب ملے گا کہ امان اللہ کامیڈی کنگ تھے۔ ٹی وی پر ایکسپوژر کے حوالے سے بھی امان اللہ مرحوم کا معین اختر مرحوم اور عمر شریف صاحب سے کیا تقابل! آپ کہاں مقیم ہیں، آپ کا ذوق کیا ہے، آپ کو کیسا لب و لہجہ پسند ہے؛ یہ طے کرتا ہے کہہ آپ کسی فنکار کو کیا مقام دیتے ہیں۔ تاہم، اگر 'بے رحمی' سے جواب دیا جائے تو معین اختر مرحوم کو ہم بڑا فنکار کہیں گے؛ عمر شریف کو بھی امان اللہ مرحوم سے بڑا فنکار کہیں گے تاہم یہ بات ہر کوئی تسلیم کر لے گا؛ یہ شاید ممکن نہیں۔

ویسے اسٹینڈ اپ کامیڈین کا معاملہ کچھ مختلف بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے سامنے موجود حاضرین کو کس قدر گرفت میں رکھ سکتا ہے اور ان کی توجہ کس حد تک اپنی جانب مبذول کروا سکتا ہے۔ ایسی کوئی فہرست سامنے آئے گی تو امان اللہ خان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس حوالے سے بڑے فنکار تھے تاہم کیا وہ تن تنہا دیگر کے مقابلے میں سامعین، ناظرین و حاضرین کو سب سے زیادہ ہنسانے پر قادر تھے، یا انہیں اس حوالے سے کامیڈی کنگ کہا جا سکتا ہے، تو اس کا جواب دینا آسان نہیں، جب تک کہ ان کے سامنے کسی اور کو نہ رکھا جائے اور اس جانچ کا پیمانہ طے نہ کر لیا جائے۔ جناب معین اختر مرحوم کو ہم بہرصورت اوپری درجے پر رکھیں گے کیونکہ ان کے مزاح میں ابتذال کا عنصر نہ ہونے کے برابر تھا اور یہی معاملہ کافی حد تک عمر شریف صاحب کا ہے۔ شاید آفتاب اقبال صاحب ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دینے والے کامیڈین کی فہرست بنا رہے ہوں گے تو پھر وہی بات عرض ہے کہ یہ تو پھر کرائی ٹیریا پر بات چلے جائے گی۔

ان فنکاروں کا تقابل مختلف طرح سے کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر،

ٹی وی سکرین پر کارکردگی کے حوالے سے
اسٹیج پر پرفارمننس کے حوالے سے
سامعین و ناظرین کو محظوظ کرنے کے حوالے سے
ڈائیلاگ ڈیلیوری اور ٹائمنگ کے حوالے سے
زبان کے حوالے سے
خطے کے حوالے سے
وغیرہ وغیرہ!
 
آخری تدوین:
امان اللہ کو سمجھنے کیلئے پنجابی زبان سمجھنا کافی نہیں ہے۔ پنجابی ہونا ضروری ہے ایسا پنجابی جو اپنی ثقافت کی سمجھ بھی رکھتا ہو اورمزاح کی سمجھ بھی۔ امان اللہ کا مقابلہ عمر شریف اور معین اختر کرنا ہی نہیں چاہیئے یہ بہت مختلف ہیں۔ حتی کہ عمر شریف اور معین اختر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں بہت مختلف ۔ ایک دوسرے سے مختلف اجناس کا مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
امان اللہ خان دراصل پنجابی زبان اور ثقافت کے حوالے سے کامیڈی کے کنگ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی وجہء شہرت بنیادی طور پر یہی ہے کہ وہ پنجاب کی ثقافت و تمدن کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ نظام الدین جو ریڈیو پر پروگرام کیا کرتے تھے اور امان اللہ مرحوم پنجاب میں بسنے والے افراد، ان کے رہن سہن کے طور طریقوں، بات چیت کے انداز کی نقالی کیا کرتے تھے اور انہوں نے بنیادی طور پر پنجابی زبان اور تہذیب و ثقافت کی اس خاص حوالے سے بڑی خدمت کی اور ایک زبان کو مکمل زوال سے بچایا؛ جگتوں کا معاملہ الگ رکھ چھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پار بسنے والے پنجاب کے باسی بھی ان کے بڑے مداح تھے۔ مزید یہ کہ ان کی آواز اچھی تھی اور پیروڈی کے فن میں مہارت کے باعث بڑے نامی گرامی گلوکار ان کے مداحوں میں شامل رہے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اردو زبان کے حوالے سے امان اللہ کی کامیڈی کو پرکھنا غلط ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے حالیہ دور کا بڑا نام معین اختر مرحوم رہے۔ عمر شریف اور دیگر افراد کے نام ان کے بعد لیے جاتے ہیں۔

ان کے اساتذہ اور ان کے شاگردوں کا تذکرہ پھر کبھی سہی!

اسٹینڈ اپ کامیڈین کی فہرست برصغیر کے حوالے سے جب بھی بنائی جائے گی تو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں امان اللہ آتے ہیں یا نہیں! ضرور ان کا نام آئے گا کیونکہ وہ اس فن میں طاق تھے تاہم اردو زبان میں شد بد نہ رکھنے کے باعث انہیں سرکاری تقاریب میں بھی کم کم مدعو کیا جاتا تھا۔ اس کے باوصف وہ مقبول رہے اور اسٹیج کی دنیا میں راج کرتے رہے۔ ویسے، ایمان داری کی بات یہی ہے کہ انڈیا نے کم از کم بیسویں صدی میں بڑے اسٹینڈ اپ کامیڈین پیدا نہیں کیے؛ اس میں تعصب کی بات نہیں ہے۔ حالیہ دور میں، ضرور ایسے نام سامنے آئے ہیں تاہم اس حوالے سے پاکستان بہرصورت سبقت لیے ہوئے تھا۔ فی زمانہ، انڈیا شاید آگے چل رہا ہو۔

پنجابی کے کامیڈی اسٹیج ڈرامے اردو کے اسٹیج ڈراموں سے معیار کے حوالے سے بہتر نہیں ہیں تاہم کسی فنکار کی صلاحیت کو شاید ہم اس کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے ہیں۔ اگر صرف ڈرامے کے معیار کی بات ہے تو اردو اسٹیج ڈراموں کو کم از کم اس حوالے سے پنجابی زبان پر بوجوہ واضح فوقیت حاصل رہے گی۔ فی زمانہ، پنجابی سٹیج ڈراما جگت بازی کے علاوہ کچھ نہ ہے۔

کافی حد تک متفق۔
معین اختر مرحوم
اور
منور ظریف مرحوم
ابھی چند دن پہلے امان اللہ مرحوم مختلف لوگ کیسے پتنگ اڑاتے ہیں"نقل اتار رہے تھے۔۔۔زبردست ایکٹنگ تھی۔ پنجاب کی ثقافت کی زبردست نقل۔
 
Top