ایک محقق کو سب سے پہلے اپنی تحقیق کا دائرہ کار متعین کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اس تحقیق میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور کبھی اتفاقی طور پر وہ تحقیق چند ہی لمحوں میں اپنے حیرت انگیز انجام کو پہنچ جاتی ہے ۔ مثلاً ایک بڑے محقق سائنسدان ایک بار "مکھی" پر تحقیق کر رہے تھے۔ انہوں نے دروازے ،کھڑکیاں اور روشندان بند کر کے ایک چھوٹے سے جال سے ایک عدد مکھی پکڑی ۔ اسے ہتھیلی پر بٹھایا اور کہا،
"اُڑجا"۔
مکھی فوراً اُڑ گئی۔
انہوں نے دوبارہ مکھی کو جال کا اسیر کیا اور اپنی ہتھیلی پر رکھنے سے پہلے اس کا ایک پر علیحدہ کر دیا اور مکھی سے بولے،
"اُڑجا"۔
مکھی کو مشکل تو بہت پیش آئی مگر وہ کسی طرح ٹیڑھی ترچھی اُڑ ہی گئی۔
اب کہ محقق پروفیسر نے ذرا سی دیر میں اسے پکڑ لیا پھر ہتھیلی پر بٹھانے سے پہلے اس کا دوسرا پر بھی نوچ لیا اور آہستگی سے کہا،
"اُڑجا"۔
مکھی نہیں اُڑی۔
پھر انہوں نے زور سے کہا،
"اُڑ" جا ۔ وہ پھر بھی نہیں اُڑی۔
آخر وہ چیخ کر بولے ،
" اُڑ جا کم بخت"۔
مگر نتیجہ وہی رہا اور مکھی نہیں اُڑی۔
پروفیسر کے لبوں پر کام یابی کی مسکراہٹ ابھری ، انہوں نے اپنا تحقیقی رجسٹر نکالا اور اس پر لکھا،
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
"آج میں نے مکھی پر تحقیق کی اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اگر مکھی کے دونوں پر علیحدہ کر دئیے جائیں وہ قوت سماعت سے محروم ہو جاتی ہے"۔
(اطہر شاہ خاں کی چلبلاتی تحریر)
"اُڑجا"۔
مکھی فوراً اُڑ گئی۔
انہوں نے دوبارہ مکھی کو جال کا اسیر کیا اور اپنی ہتھیلی پر رکھنے سے پہلے اس کا ایک پر علیحدہ کر دیا اور مکھی سے بولے،
"اُڑجا"۔
مکھی کو مشکل تو بہت پیش آئی مگر وہ کسی طرح ٹیڑھی ترچھی اُڑ ہی گئی۔
اب کہ محقق پروفیسر نے ذرا سی دیر میں اسے پکڑ لیا پھر ہتھیلی پر بٹھانے سے پہلے اس کا دوسرا پر بھی نوچ لیا اور آہستگی سے کہا،
"اُڑجا"۔
مکھی نہیں اُڑی۔
پھر انہوں نے زور سے کہا،
"اُڑ" جا ۔ وہ پھر بھی نہیں اُڑی۔
آخر وہ چیخ کر بولے ،
" اُڑ جا کم بخت"۔
مگر نتیجہ وہی رہا اور مکھی نہیں اُڑی۔
پروفیسر کے لبوں پر کام یابی کی مسکراہٹ ابھری ، انہوں نے اپنا تحقیقی رجسٹر نکالا اور اس پر لکھا،
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
"آج میں نے مکھی پر تحقیق کی اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اگر مکھی کے دونوں پر علیحدہ کر دئیے جائیں وہ قوت سماعت سے محروم ہو جاتی ہے"۔
(اطہر شاہ خاں کی چلبلاتی تحریر)