قیصرانی بھائی! آپ کی یہ دلیل اکثریت پر لاگو نہیں ہوتی۔ مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) تو اب یہاں تقریبا دم توڑ چکا ہے۔ لوگ الگ الگ ہی رہتے ہیں۔ بندے کی شادی ہوئی اور وہ الگ۔ اب تین چار سال میں اس کے ہاں بچوں کا اضافہ۔ اس حالت میں یہ دیکھیے کہ وہ اکیلا کمانے والا۔ اس کی تنخواہ 4600 ہے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے کہ ان کا اپنا مکان بھی نہیں ہوتا۔ کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ڈھائی سے تین ہزار روپیہ تو اس نے مکان کا کرایہ دیدیا۔ اب باقی ڈیڑھ، دو ہزار میں وہ مہینہ کیسے گزارے گا؟ ہمارے تو اردگرد یہ کہانیاں بکھری پڑی ہیں نا۔۔۔!قیصرانی نے کہا:یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ غریب کے گھر میں ایک فرد کام نہیں کرتا، بلکہ عموماً دو یا زائد افراد کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر فرد کو اگر سرکاری طور پر مقرر کی گئی کم از کم اجرت یعنی 4600 روپے ملے تو آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کی گھریلو حالت اتنی بری نہیں ہوگی جتنی کہ پیش کی جا رہی ہے۔
پاکستانی بھائی، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ہم ابھی تو سب کے سب اتنے زور و شور سے کہہ رہے ہیں، لیکن کیا کل کو جب ہمیں کوئی مزدور درکار ہو تو ہم کیا کریں گے؟ کیا اسے پوری مزدوری دینا چاہیں گے؟پاکستانی نے کہا:4600 یا 4000 ملتی کسے ہے قیصرانی بھیا
یہاں اپنے ڈی جی خان میں اب بھی 50 روپے روزانہ پر کام کرنے والے بہت ہیں۔
دوسری بات غریب کے گھر میں 3 بھی کمانے والے ہوں تو ٹوٹل آمدنی 13800 بنتی ہے (بشرط واقعی اتنی ملے) اس 13800 میں آٹھ نو افراد کا ماہانہ بجٹ تو بنا کر ذرا یہاں پیش کریں۔
بات وہی کہ کانٹا جسے لگتا ہے اس کے درد کا احساس اسے ہی ہوتا ہے۔
ویسے تین، چار ہزار کا ایک بجٹٰٰیہاں بھی موجود ہے۔
قیصرانی نے کہا:ڈیرہ شہر میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں مزدور لوگ پانچ سو یا آٹھ سو روپے ماہوار کرائے میں رہتے ہیں۔ اکثر مزدور شہر کے باہر سے شہر آتے ہیں
کہنے کا مطلب یہ نہیںکہ صورتحال بالکل پرفیکٹ ہے۔ کہنے سے مراد یہی ہے کہ اتنی بری بھی نہیں جتنی کہ ہم دکھانا چاہ رہے ہیں
قیصرانی نے کہا:ایک سوال کا جواب اگر کوئی دے سکے؟
اگر موجودہ بجٹ اتنا ہی برا ہے، ملکی معیشی صورتحال اتنی ہی بری ہے، لوگ اتنے ہی غریب ہیں، سب کچھ اتنا ہی برا ہے جتنا کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے تو پھر اس ملک کی اتنی بڑی آبادی کیسے زندہ ہے؟ یہ ملک کیسے چل رہا ہے؟
قیصرانی نے کہا:باقی جہاں آٹھ یا نو افراد کے کنبے کی بات ہے تو اس سلسلے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ آٹھ یا نو افراد جو بھی ہوتے ہیں، یہ سب والدین کا اپنا کرشمہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھئے کہ غریب کے گھر میں ہر فرد کام کرتا ہے۔ وہاں چھوٹے یا بڑے کی کوئی قید نہیں ہوتی
بہت اچھی بحث ہو رہی ہے۔۔ کانٹے کے درد کا احساس وہی کر سکتے ہیں جن کو کبھی کانٹا چبھا ہو۔۔۔قیصرانی نے کہا:ایک سوال کا جواب اگر کوئی دے سکے؟
اگر موجودہ بجٹ اتنا ہی برا ہے، ملکی معیشی صورتحال اتنی ہی بری ہے، لوگ اتنے ہی غریب ہیں، سب کچھ اتنا ہی برا ہے جتنا کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے تو پھر اس ملک کی اتنی بڑی آبادی کیسے زندہ ہے؟ یہ ملک کیسے چل رہا ہے؟
قیصرانی بھائی معاف کیجیے آپ سے ایسی باتوں کی اُمید نہیں تھی۔ غریب کے گھر ایک بندہ کام نہیں کرتا، یہ کیسی بات ہے؟ اگر کوئی بچہ والدین کا واحد سہارا ہو تو؟ یا اسکے علاوہ ساری بہنیں ہوں تو؟ اور مثال 4 بھائی اور والد ہوں تو اس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ سب کو روزگار ملے گا؟ اور کیا یہ بھی ضروری ہے کہ تمام کی تنخواہ4600ہوگی؟قیصرانی نے کہا:ًًُدوسری بات، ہمارے حزب مخالف کے سیاست دان اور اکثر کالم نگار یہ بات بڑے شوق اور وثوق سے کہتے ہیں کہ 4600 روپے میں بجٹ بنانا ایک ناممکن امر ہے۔ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ غریب کے گھر میں ایک فرد کام نہیں کرتا، بلکہ عموماً دو یا زائد افراد کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر فرد کو اگر سرکاری طور پر مقرر کی گئی کم از کم اجرت یعنی 4600 روپے ملے تو آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کی گھریلو حالت اتنی بری نہیں ہوگی جتنی کہ پیش کی جا رہی ہے۔ البتہ یہ ایک امر محال ہے کہ ہم لوگ غریب کو اس کی سرکاری طور پر طے کردہ کم سے کم اجرت دینے پر تیار ہو جائیں
ایک سوال کا جواب اگر کوئی دے سکے؟
اگر موجودہ بجٹ اتنا ہی برا ہے، ملکی معیشی صورتحال اتنی ہی بری ہے، لوگ اتنے ہی غریب ہیں، سب کچھ اتنا ہی برا ہے جتنا کہ ہمیں بتایا جا رہا ہے تو پھر اس ملک کی اتنی بڑی آبادی کیسے زندہ ہے؟ یہ ملک کیسے چل رہا ہے؟