کاوشات۔۔۔۔۔ اصلاح و تبصرہ ۔۔۔۔۔درخواست گزار عابی مکھنوی

دفتر کے دروازے پر لکڑی کا اِک تختہ نصب ہے برسوں سے
اُس عمر رسیدہ تختے کا کوئی نام بھی ہو گا
عُرفِ عام میں اُس کو ہم سب چوکیدار ہی کہتے ہیں
موٹے میلے کالے کپڑوں کا وہ قیدی
کُھلی فضا کا زندانی
دو عیدوں پر کچھ نہ کچھ ہم حاتم طائی لوگوں سے وہ پا لیتا ہے
کمر ہلالی رنگت کالی بجھتی آنکھیں ہر موسم میں ایک جگہ پر ایسے جیسے کھمبا کوئی
ایسے ہی بس جانے کیونکرشرمانے کی ایکٹنگ کر کے
پرسوں اُس سے تیس روپے مانگے تھے میں نے
بابا کل تنخواہ آتے ہی دے دُوں گا
پل بھر کو تو ٹھٹکا تھا وہ
لیکن صاحب سنجیدہ تھا
دوسرے لمحے کمر ہلالی یوں سیدھی تھی جیسے سولہ سال کا کوئی لڑکا ہو
بجھتی آنکھیں ایسے چمکیں جیسے کوہ نُور کی جوڑی
بغلی جیب سے پولی تھین کی تھیلی اُس نے ایسے کھولی جیسے وہ زنبیل ہو کوئی
دس کا ایک اور بیس کے دو نوٹوں کو اُس نے شان سے کھینچا
صاحب رکھ لو بیس ہیں اُوپر
تیس کا کھاتہ کیا کھاتہ ہے
تنخواہ والے دِن بھی میں نے کوئی بہانہ کر کے اُس کو ٹال دیا تھا
سچ پوچھو تو جب سے میں اُس تختے کا مقروض ہوا ہوں
دفتر کے دروازے پراب لکڑی کا کوئی تختہ نہیں ہے
جیتا جاگتا ہنستا کھیلتا انساں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 
کہا میں نے دسمبر تنگ کرتا ہے
وہ بولا کوئی آتشدان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر زرد موسم ہے
وہ بولا دافعِ یرقان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر کتنا پھیکا ہے
وہ بولا جو کہو تو پان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر کا میں قیدی ہوں
وہ بولا پھر تو میں تاوان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر کتنا ظالم ہے
وہ بولا اب کوئی انسان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر میں ہے بزنس ٹھپ
وہ بولا بیچنے ایمان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر اب نہیں جاتا
وہ بولا ڈھیٹ سا مہمان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر ہےوفا بھیجو
وہ بولا میں سیاستدان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر میں انوکھا کچھ
وہ بولا صدرِ پاکستان بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر منجمد سا ہے
وہ بولا اِک نیا بحران بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر بھی قیامت ہے
وہ بولا اب کے میں عمران بھیجوں گا

کہا میں نے دسمبر ہے اور عابی چُپ
وہ بولا پھر تو میں دیوان بھیجوں گا
..........۔
عابی مکھنوی
 
چل منافع لُوٹ کے ہو جا ہوا
جا کیا میں نے یہ سودا ہو گیا

دیکھنے آیا ہے پھر سے چارہ گر
اچھا جی پھر تو میں اچھا ہو گیا

تُو تو تُو تھا تُو ہمیشہ تُو رہا
میں بھی میں تھا پھر میں تیرا ہو گیا

آئینہ ہوں دیکھ لے یا توڑ دے
اُف جُنوں میں کیا تقاضا ہو گیا

اُس کو دعویٰ ہے وہ پُورا آج کل
جس کے جانے پر میں آدھا ہو گیا

شہرتوں کی چاہ والے مٹ گئے
جو چھپا یاں اُس کا چرچا ہو گیا

میں رہا بے دام عابی اور وہ
بِکتے بِکتے اور مہنگا ہو گیا

تیری خاطر بَس ہوا ہے اس قدر
کیا تھا عابی دیکھ اب کیا ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 
Top