محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
کاپی، کٹ اور پیسٹ
محمد خلیل الرحمٰن
نیلم ، زبیر، اور عائشہ
قرۃ، سعود، اور زندگی
نایاب ، اوشو، کاشفی
تلمیذ تھے، بسمل بھی تھے
محفل میں سب موجود تھے
سب تھے مگر اِک میں نہ تھا
میں تھا کہیں کھویا ہوا
شاید کہیں سویا ہوا
کٹ پیسٹ اور کاپی کا غم
جس نے ہمارے ذہن کو
تخلیق کی اِک الوہی لذت سے بے بہرہ کیا
شاعر کے ہاتھوں میں قلم
تخلیق کا مظہر تھا جو
شاید کہیں کھویا گیا
اب ’ورڈ‘ نے
سب دوستوں کے ہاتھ سے کاغذ قلم کو چھین کر
اِک مصنوعی چوہا انہیں پکڑادیا
اب برق رفتاری کے ساتھ
ہر محفلیں اس کام میں ڈوبا ہوا
کٹ پیسٹ اور کاپی کے رنگیں زہر میں ،
تخلیق کی اُس الوہی لذت سے بے بہرہ ہوا
پہلے جو یہ اِک لفظ تھا
اب لفظ توکھوئے گئے
اب ’ورڈ‘ہے
’کاپی‘ ہے ، ’کٹ‘ ہے، ’پیسٹ‘ ہے
آسی کی پیشن گوئی تھی
اب لفظ تو کھو جائیں گے
کٹ ،پیسٹ ہی رہ جائیں گے
اب وہ کلیم اللہ کی باتیں کہاں
اب وقت کےموسیٰ بھی کوہِ طور پر
’’موسیٰ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘کو سن کر گنگ ہیں
ان کے لیے بھی صرف اب
’کاپی‘ ہے ، ’کٹ‘ ہے، ’پیسٹ‘ ہے
نیلم ، زبیر مرزا ، عائشہ عزیز ، قرۃالعین اعوان ، ابن سعید ، زندگی ، نایاب ، اوشو ، کاشفی ، تلمیذ ، مزمل شیخ بسمل ، محمد یعقوب آسی
آخری تدوین: