عثمان غازی
محفلین
انتباہ: یہ تعارف بندہ سست اپنے بلاگ سے کاپی کیا ہے، اس محفل میں شرکت سے قبل دوسری مرتبہ تعارف مانگ لیاگیا ہے، پروفائل کے تعارف کا تو خانہ پر کردیااب یہاں دوبارہ زحمت کا کوئی ارادہ نہیں، اس لیے احباب اسی تعارف سے کام چلائیں
خلیل جبران سے کسی نے پوچھا کہ اسکی زندگی کا سب سے مشکل سوال کونسا تھا، خلیل جبران نے جواب دیا کہ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں آج تک اس سوال کا جواب نہ دے سکا، میرے ساتھ بھی شاید یہ مسئلہ درپیش ہے، عموما تعارف کے ضمن میں پیشہ ، عہدہ، ادارہ اور ڈگریوں کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ چیزیں کبھی بھی کسی انسان کے تعارف کا حق ادا نہیں کرتیں، تعارف اداروں اور عہدوں کا محتاج نہیں ہونا چاہیے، کسی بھی پیشے سے بھلا انسان کے اندرون کا کیا پتہ چل سکتا ہے
بہرحال صدیوں کی ریت ہے، نبھانا تو پڑے گی، روایات کا بھرم آخر رکھنا ہی پڑتا ہے اور راویتوں کے احترام کے پیش نظر کچھ روایتی باتیں عرض خدمت ہیں
صحافت میرا بنیادی پیشہ ہے، ذریعہ روزگار بھی یہی ہے اور کچھ اس مئے کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ
صحافت میرا بنیادی پیشہ ہے، ذریعہ روزگار بھی یہی ہے اور کچھ اس مئے کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ
چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی
ایک معروف نیوز چینل سے منسلک ہوں، لکھنے لکھانے کی ابتداء تو اسی روز سے کر دی تھی جب میں نے 10سال کی عمر میں باقاعدہ اپنی ڈائری لکھنے کا آغاز کیا تاہم پروفیشنل لائف میں 2002میں داخل ہوا اور اسوقت سے ابتک قلم اور میرا چولی دامن کا ساتھ ہے
میری پیدائش کا سال 1985ہے جبکہ 20اگست کے دن میں اس خصوصیت کے ساتھ دنیا میں آیا کہ اس دن میری قوم کے ایک بطل جلیل راشد منہاس شہید کی 12ویں برسی تھی، برسی کا لفظ شہادت کے ساتھ موزوں نہیں تاہم پھر و ہی روایات۔۔۔۔۔ بھرم تو رکھنا پڑتا ہے خیر مجھے اس اتفاق پر فخر ہے
میں ایک روایتی پاکستانی کی طرح سوچتا ہوں، مجھے امریکہ سے نفرت ہے، پاکستان سے جنون کی حدوں تک عشق ہے، خدا نے تحریر وتقریر کی صلاحیتوں سے تھوڑا بہت نوازا ہے چناچہ اپنی عمر کے ابتدائی دور سے ہی ان صلاحیتوں کو سماجی و معاشرتی حوالوں سے استعمال کیا ہے، اسٹوڈنٹ لیڈر رہا، مختلف عوامی پلیٹ فارم بنائے، متعد د ملک گیر عوامی تحریکوں کا حصہ رہا، سیاسی و مذہبی رہنماوں کو بہت قریب سے دیکھا، ان کو محسوس کیا تاہم مجھے ہر جگہ ایک تشنہ کامی سی محسوس ہوئی
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
میرے شعورسے لیکر اب تک پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے، مجھے یاد نہیں تاہم مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ میں نے جب جب کامیابی کی چاہ کی ہے ، کامیابی نے خود آگے بڑھ کی میری بلائیں لی ہیں ، میں جیت اور کامیابی کے سرور سے بہت زیادہ آشنا ہوں اسی لئے اب جیتنے کی خواہش نہیں رکھتا، دل چاہتا ہے کہ دوسروں کو جیتتا دیکھوں، اپنی اوائل عمر ی میں ،میں نے کچھ شاعری نما جسارت کی تھی
لوگ جب ہارنا سیکھ جائیں
تو مجھے بتانا
کیونکہ میری جیت کا آغاز اسی روز سے تو ہوگا
اور اگر ابھی میں
ستاروں بھری یہ کہکشاں
جیت بھی گیا
تو کیا کمال ہوگا
مزا تو جب ہے کہ
جب میں ہوں گا
اور زمانہ سراپا سوال ہوگا
تو مجھے بتانا
کیونکہ میری جیت کا آغاز اسی روز سے تو ہوگا
اور اگر ابھی میں
ستاروں بھری یہ کہکشاں
جیت بھی گیا
تو کیا کمال ہوگا
مزا تو جب ہے کہ
جب میں ہوں گا
اور زمانہ سراپا سوال ہوگا
اس بے ربط نظم کو لکھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ یار یہ تو بزدلی والی بات ہے، انتظار کیا کرنا، کود پڑو میدان کار زارمیں۔۔۔ اور پھر جیت میری عادت بن گئی تاہم اب مجھے شکستگی پسند ہے، علامہ اقبال نے کہا ہے نا کہ
تو بچا بچا کہ نہ رکھ تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
خیر بات کو کچھ آگے بڑھاتے ہیں، کتابوں کا مطالعہ میری زندگی کا جزولانفیک ہے، کتابیں میری دوست ہیں، مجھے ان کے ساتھ رہنے میں بہت مزا آتا ہے، ایک زمانہ تھا کہ کتابیں مجھ پر اتنی حاوی تھیں کہ میں خود کو لوح جہاں پر لکھا ایک حروف سمجھتا تھا ۔۔۔۔۔ہاہاہا خیر وہ بچپن تھا، اب بھی کوئی پچپن نہیں ہے مگر اب معاملہ ٹھیک ہے، اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ کتاب مجھ پر حاوی نہیں بلکہ میرے ساتھ ہے، میں ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس کا ماضی شاندار تھا، میرے اجداد ہندوستان کے صوبے یوپی سے ہجرت کر کے کراچی میں آکر آباد ہوئے تھے، یوپی میں ہم سہارنپور اور امبیٹہہ کے رہنے والے تھے، میرے اجداد کا جنگ آزادی میں بڑا کردار رہا ہے، اکثر کا تذکرہ تو تدریسی کتب میں بھی موجود ہے تاہم میں ان کا ذکر کر کے کسی شیخی کوبگھارنے کے موڈ میں بلکل نہیں، وہ میرے اجداد تھے، میرا ماضی تھا، حال اس کے برعکس ہے، میرا تذکرہ ابھی کسی کتاب میں نہیں۔۔۔ہاہاہاہاہا اس پر بھی میری ایک نظم نما گستاخی ہے، آپ نہ نہ بھی کریں گے تو سنا دو ں گا! جناب میرا بلاگ ہے، میرا تعارف ہے، جو چاہے بڑ بڑ کروں، خیر ملاحظہ کریں
میں ایک چھوٹا سا ادیب ہوں
لفظوں کے نگار خانے میں
میرے نام کی کوئی کتاب نہیں
کسی دیباچے ابتدائیے میں
میرا تذکرہ بھی نہیں
میں حرف آشنا بھی ہوں
حرف گزیدہ بھی
مگر میرے سب حروف بے شکل ہیں
میری الماری میں بھرے سب شاہکار
بے اصل ہیں
میں کس سے شکوہ کروں
کس سے مان کروں
میں کس کو اپنے یہ حرف دان کروں!
لفظوں کے نگار خانے میں
میرے نام کی کوئی کتاب نہیں
کسی دیباچے ابتدائیے میں
میرا تذکرہ بھی نہیں
میں حرف آشنا بھی ہوں
حرف گزیدہ بھی
مگر میرے سب حروف بے شکل ہیں
میری الماری میں بھرے سب شاہکار
بے اصل ہیں
میں کس سے شکوہ کروں
کس سے مان کروں
میں کس کو اپنے یہ حرف دان کروں!
میں نے اپنا بچپن غیر معمولی گذارا ہے، تعلیمی سفر تو خاصا عجیب و غریب رہا ہے، چھٹی جماعت میں ،میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ موجودہ تعلیمی نظام میرے مطابق نہیںچناچہ میں نے اسکول چھوڑ دیا اور اگلے چار سالوں تک عربی، فارسی، انگریزی سمیت مختلف مضامین پڑھتا رہا، میں نے منطق استقرائیہ بھی پڑھی اور منطق استخراجیہ کو بھی سیکھنے میں وقت لگایا، دینی مدرسوں میں بھی زانوئے تلمذ طے کیا، وہاں میں نے قرآن کی تفسیر اور فقہی مسائل کو سیکھا، میں نے اسکول میںبھی براہ راست تیسری جماعت میں داخلہ لیا تھا ، پھر مجھے پتہ لگا کہ بھائی یہاں تو ڈگری چلتی ہے، اس معاشرے میں تولا نہیں بلکہ گنا جاتا ہے، اگر کامیابی کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو ڈگری گلے میں لٹکانی ہوگی، اگرچہ یہ انکشاف والدین کر چکے تھے مگر مابدولت ہر چیز کو خود سمجھنا چاہتے تھے چناچہ اس آگہی کے بعد میں نے میٹرک میں پرائیوٹ داخلہ لیا، پھر باقاعدہ ریگولر داخلہ اسلامیہ کالج کراچی میں لیا، یوں ہم بمشکل گریجویٹ ہوئے مگر امتیازی نمبروں کے ساتھ۔۔ ان امتیازی نمبروں کو میرے دوست آج تک حسد بھرینظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔ بیچارے ۔۔۔۔۔ کیونکہ دوران تعلیم میں نے تدریسی کتابوں کو ہاتھ لگانے کی زحمت نہیں کی تھی
میرے اتنے سارے شاعری نما مغالطے پڑھ کر آپ مجھے کوئی شاعر تو نہیں سمجھ رہے، جناب خیال کیجئے، مجھے بطور شاعر اپنا تعارف اس قدر ناپسند ہے کہ شاید ہی کسی اور چیز کو میں اتنا نا پسند کرتا ہوں، میں حتی الامکان شاعری کرنے اور پڑھنے سے اجتناب کرتا ہوں تاہم یہ جو شاعری نما حادثے ہو جاتے ہیں ، یہ محض اتفاقات ہیں، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں کوئی شاعر ہوں، دراصل میں اپنے محسوسات کوکسی سے شیئر کرنے کے بجائے لکھ لیتا ہوں، ان میں سے اکثر خالصتا ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں،اسی لئے کسی سے شیئر نہیں کرتا
اکثر دوست مجھ سے میرے نام کی وجہ تسمیہ پوچھتے ہیں، عثمان کے ساتھ عموما غنی کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہ غازی کیوں!! جبکہ میں انصاری حسب و نسب رکھتا ہوں،اکثر میں اس سوال سے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہوں کہ میرا نام سلطنت عثمانیہ کے پہلے بادشاہ امیر عثمان خان غازی کے نام پر رکھا گیا ہے ، جن دنوں سانحہ لال مسجد ہوا تو اکثر دوست مجھ سے مذاق میں کہا کرتے تھے کہ عبدالعزیز غازی کا رشتے دار آگیا، اس وقت مجھے بڑی جھنجلاہٹ ہوتی تھی، دراصل میرے نام کے ساتھ غازی کا سابقہ ان دنوں کا حادثہ ہے، جب میں خود کو شاعر سمجھتا تھا، میرے ایک عزیز دوست مزمل شیروانی نے اپنا تخلص پہلے زخمی رکھا، پھر سمبا میں بدل لیا، سمبا کے معنی شیر کے ہیں، میں سمبا کی ٹکر کاتخلص غازی لایا تھا، اب مزمل صاحب نے پھر اپنا تخلص بدل کر جان کر لیا ہے اور ان دنوں جان کےتخلص سے جاندار قسم کی شاعری کرنے میں مصروف ہیں تاہم میرے نام کے ساتھ غازی کچھ ایسا فٹ بیٹھا کہ لوگ مجھے غازی کے نام سے ہی پکارنے لگے
اکثر دوست مجھ سے میرے نام کی وجہ تسمیہ پوچھتے ہیں، عثمان کے ساتھ عموما غنی کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یہ غازی کیوں!! جبکہ میں انصاری حسب و نسب رکھتا ہوں،اکثر میں اس سوال سے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتا ہوں کہ میرا نام سلطنت عثمانیہ کے پہلے بادشاہ امیر عثمان خان غازی کے نام پر رکھا گیا ہے ، جن دنوں سانحہ لال مسجد ہوا تو اکثر دوست مجھ سے مذاق میں کہا کرتے تھے کہ عبدالعزیز غازی کا رشتے دار آگیا، اس وقت مجھے بڑی جھنجلاہٹ ہوتی تھی، دراصل میرے نام کے ساتھ غازی کا سابقہ ان دنوں کا حادثہ ہے، جب میں خود کو شاعر سمجھتا تھا، میرے ایک عزیز دوست مزمل شیروانی نے اپنا تخلص پہلے زخمی رکھا، پھر سمبا میں بدل لیا، سمبا کے معنی شیر کے ہیں، میں سمبا کی ٹکر کاتخلص غازی لایا تھا، اب مزمل صاحب نے پھر اپنا تخلص بدل کر جان کر لیا ہے اور ان دنوں جان کےتخلص سے جاندار قسم کی شاعری کرنے میں مصروف ہیں تاہم میرے نام کے ساتھ غازی کچھ ایسا فٹ بیٹھا کہ لوگ مجھے غازی کے نام سے ہی پکارنے لگے