ظفر اقبال کے تو کالم پڑھنے کو جی ہی نہیں چاہتا کہ حضرت جو اصطلاح دوسرے شعرا کے کلام کے لیے استعمال کرتے وہی ان کے کالمز پر بھی صادق آتی ہے یعنی الفاظ و مضامین کی "جگالی"۔۔۔ خیر پیٹ بڑا پاپی ہے۔۔۔ پیٹ کے لیے کالمز بیچنے والا اور کیا لکھے۔
جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ کالم نگار دماغ سے جتنا خالی ہو، بے تکی ہانکنے میں اتنا ہی بھرپور ہوتا ہے، حتیٰ کہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی اور کالم بن جاتا ہے جبکہ بنیادی شرط کالم کا بِکنا ہی ہے تا کہ "دال دلیا" چلتا رہے۔میرا خیال یہ بھی ہے کہ شعر مضمون سے جتنا خالی ہو، معانی سے اتنا ہی بھرپور ہوتا ہے، حتیٰ کہ بات کچھ بھی نہیں ہوتی اور شعر بن جاتا ہے جبکہ بنیادی شرط شعر کا بننا ہی ہے۔
فاضل کالم نگار سے شاید آپ کی مراد فضول کالم نگار تھی۔۔۔لائک فادر لائک سن۔۔۔ ۔ خیر اس کالم کو اچٹتی نگاہ سے پڑھنے سے اتنا پتا لگتا ہے کہ فاضل کالم نگار خود کو اکیسویں صدی کا جمیل الدین عالی سمجھتا ہے کہ اسلوب بھی وہی اختیار کیا گیا ہے اور کالم کے نکات بھی ویسے ہی ہیں۔۔۔
آپ نے ان کے تمام کالم نہیں پڑھے۔ اس لیے یہ رائ دی۔ظفر اقبال کے تو کالم پڑھنے کو جی ہی نہیں چاہتا کہ حضرت جو اصطلاح دوسرے شعرا کے کلام کے لیے استعمال کرتے وہی ان کے کالمز پر بھی صادق آتی ہے یعنی الفاظ و مضامین کی "جگالی"۔۔۔ خیر پیٹ بڑا پاپی ہے۔۔۔ پیٹ کے لیے کالمز بیچنے والا اور کیا لکھے۔