حسن محمود جماعتی
محفلین
نظر عنایت پر آپکا بہت بہت شکریہ! دوبارہ عنایت فرمائیں۔۔۔عمدہ. نظم بہت خوب ہے لیکن اختتام تھوڑا توجہ طلب ہے .
"دعا ہے پھر خدایا کہ
بہاریں لوٹ آئیں گر،
بہاریں لوٹ آئیں گر۔۔۔۔۔۔"
" گر'' کے استمعال سے انداز دعائیہ نہیں بلکہ استفہامیہ محسوس ہو رہا ہے .
"کہ" کو بھی عام طور پر یک حرفی باندھا جاتا ہے .
ایک تجویز ہے اگر مناسب لگے تو ...
خدا سے یہ دعا ہے اب
بہاریں پھر سے لوٹ آئیں
بہاریں پھر سے لوٹ آئیں
چلو مل بیٹھ کے پھرسے
انہی لمحوں،
انہی اوقات کو دہراتے ہیں پھر سے
کہ جب "تم، تم تھے"
ابھی تک بیچ میں دیوار سی
اک حد سی قائم تھی
ابھی تک اجنبی تھے ہم
ابھی تکرار سے،
اقرارکی باتیں نہیں کی تھیں
چلی ایسی ہوا کہ پھر
گھٹا اک چھا گئی دل پہ
دلوں کے موسموں میں اک تغیر آگیا پھر جب
بہاریں ہر طرف محسوس ہوتی تھیں
پرندے چہچہاتے تھے
شجر پھر لہلہاتے تھے
یہاں پھولوں کے ڈیرے تھے
یہاں بلبل کے پھیرے تھے
نجانے کیا ہوا پھر کہ
کہیں سے سرد موسم کی
ہوائیں گھوم کے آئیں
کہ لہجوں کی تمازت میں
پھر اک احساس ٹھنڈک کا
بہت سرسبز، سایہ دار پیڑوں کے
سبھی ٹہنوں، سبھی پتوں کی رنگت میں
تغیر تھا خزائوں کا
پتا دینے لگے تھے وہ
کہ اب پتوں کا پیڑوں سے
بچھڑنے کا
یہ موسم ہی پرانا ہے
انا کی دھوپ پڑتی ہے
کبھی جو سرد موسم میں
تو پتے زرد ہوتے ہیں
جدائی کے پیامبر ہیں
ہجر کا راگ بجتا ہے
یہاں بھولے سےبھی پھر تو
کبھی وہ پھول نہ مہکے
نہ بلبل پھر کبھی بہکے
کبھی ہم اجنبی سے تھے
تکلف کی ابھی دیوار قائم تھی
جہاں پہ "آپ" اور "ہم" کا تصور تھا
چلو مل بیٹھ کے پھر سے
انہی لمحوں،
انہی اوقات کو دہراتے ہیں پھر سے
خدا سے یہ دعا ہے اب
بہاریں پھر سے لوٹ آئیں
بہاریں پھر سے لوٹ آئیں