کبھی جو تری چشم نم دیکھتے ہیں

فرحان عباس

محفلین
السلام علیکم
محمد یعقوب آسی
‏@الف عین
‏@محمد وارث

بحر متقارب مثمن سالم
فعولن فعولن فعولن فعولن
زمین غالب

‏۱.
کبھی جو تری چشم نم دیکھتے ہیں
نکلتا ہوا اپنا دم دیکھتے ہیں
‏۲.
ہمیں کیا رقیبوں سے لینا و دینا
فقط ہم صنم کا ستم دیکھتے ہیں
‏۳.
عروض غزل سیکھ گئے ہم بھی یاروں
ابھی اپنا زور قلم دیکھتے ہیں
‏۴.
دل سوختہ اب سدھر جا تجھے پھر
محبت کے فتنے میں ہم دیکھتے ہیں
‏۵.
چلو بھیس فرحاں عمر کا بناکر
رعایا کا پھر پھر کہ غم دیکھتے ہیں
 
‏۱.
کبھی جو تری چشم نم دیکھتے ہیں
نکلتا ہوا اپنا دم دیکھتے ہیں
‏۲.
ہمیں کیا رقیبوں سے لینا و دینا
فقط ہم صنم کا ستم دیکھتے ہیں
‏۳.
عروض غزل سیکھ گئے ہم بھی یاروں
ابھی اپنا زور قلم دیکھتے ہیں
‏۴.
دل سوختہ اب سدھر جا تجھے پھر
محبت کے فتنے میں ہم دیکھتے ہیں
‏۵.
چلو بھیس فرحاں عمر کا بناکر
رعایا کا پھر پھر کہ غم دیکھتے ہیں

ہمیں کیا رقیبوں سے لینا و دینا
لینا و دینا ۔۔ کوئی چیز نہیں ہے۔ واوِ عطفی فارسی اور عربی اسماء و افعال کو جوڑتا ہے، باقیوں کو نہیں۔

عروض غزل سیکھ گئے ہم بھی یاروں
یہ مصرع وزن سے خارج ہے۔ یارو! دوستو! بھائیو! بہنو! مسلمانو! لوگو! (تخاطب) میں نون غنہ نہیں ہوتا۔

دل سوختہ اب سدھر جا تجھے پھر
جو بے چارہ جل چکا، اب وہ کیا سدھرے گا۔ مطلب ہے معانی و مطالب قرینِ قیاس ہونے چاہئیں۔

چلو بھیس فرحاں عمر کا بناکر
رعایا کا پھر پھر کہ غم دیکھتے ہیں

کے اور کہ ۔ ان کے معانی میں فرق ہے۔ یہاں ’’کے‘‘ کا تقاضا ہے۔
مجھے یہاں فرحان (تخلص، نام) کے نون کو غنہ کرنا عجیب سا لگا ہے۔ سیدنا عمر فاروق کے حوالے سے اس انداز میں بات کرنا؟
 

فرحان عباس

محفلین
"کہ" کو کے کر دیا.

ﭼﻠﻮ ﺑﮭﯿﺲ ﻓﺮﺣﺎﮞ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ
ﺑﻨﺎﮐﺮ
ﺭﻋﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﭘﮭﺮ کے ﻏﻢ
ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ

سر کیوں اسطرح کوئی گستاخی ہے کیا؟
میرا مطلب تو ان کے نقش قدم پر چلنے کا ہے ان سے سیکھنے کا ہے.
 

فرحان عباس

محفلین
جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ راتوں کو جاگ کر گلیوں میں اپنی رعایا کیلئے گشت کرتے تھے میری مراد وہ عمل اپنانا ہے.
 

فرحان عباس

محفلین
سر اب دیکھیں. تذبذب والا شعر تو اب بھی ہے مگر باقی تبدیلیاں کر لی ہیں.
اور سر مطلع میں "چشم نم" کو چشم کے نیچے زیر لگا کر اچھا ہے یا ساکن؟

۱.
ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺗﺮﯼ ﭼﺸﻢ ﻧﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻡ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
۲.
ﮨﻤﯿﮟ کچھ ﺭﻗﯿﺒﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﯿﻨﺎ نہ ﺩﯾﻨﺎ
ﻓﻘﻂ ﮨﻢ ﺻﻨﻢ ﮐﺎ ﺳﺘﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
۳.
ﻋﺮﻭﺽ ﻏﺰﻝ سیکھا ہے تازہ تازہ
ﺍﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﺯﻭﺭ ﻗﻠﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
۴.
ﺩﻝ ﺳﻮﺧﺘﮧ ﺍﺏ ﺳﺪﮬﺮ ﺟﺎ ﺗﺠﮭﮯ
ﭘﮭﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻓﺘﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
۵.
ﭼﻠﻮ ﺑﮭﯿﺲ ﻓﺮﺣﺎﮞ ﻋﻤﺮ کا ﺑﻨﺎﮐﺮ
ﺭﻋﺎﯾﺎ ﮐﺎ ﭘﮭﺮ ﭘﮭﺮ کے ﻏﻢ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ
ﮨﯿﮟ
 

فرحان عباس

محفلین
سر ! ایسا ٹھیک ہوگا؟

ہمیں کچھ رقیبوں سے لینا نہ دینا
اجی ہم سلوک صنم دیکھتے ہیں
یا پھر
میاں ہم سلوک صنم دیکھتے
 

الف عین

لائبریرین
کسی لفظ کو غنہ کرنا محض شاعری میں عروضی ضرورتوں کے لے جائز ہے۔ اگر تخلص میں کیا جائے تو غلط ہے۔ ہر جگہ فرحان استعمال کرو تو بہتر ہے۔
آسی بھائی سے متفق ہوں۔
محاورہ ’کچھ لینا دینا نہیں‘ ہوتا ہے۔ لینا نہ دینا بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں ’کچھ‘ متصل ہونا چاہئے، ایک دو الفاظ کا فصل نہ ہو۔
دوسرے مصرع میں صنم کا استعمال قبیح محسوس ہوتا ہے۔ یہ بالی ووڈ کا استعمال ہے۔ جب کہ دوسرے مصرع میں ضمیر کچھ بھی ہو سکتی ہے، تمہارا، ان کا، یا اس قسم کا کچھ الفاظ ہوں تو بہتر ہے۔
 

فرحان عباس

محفلین
سر لیکن میں نے تخلص رکھا ہی فرحاں ہے. یہ میں ہر جگہ استعمال کرتا ہوں. فرحان تو نام ہے میرا اسے میں شاعری میں تخلص کی جگہ استعمال نہیں کرتا.
فرحان عباس فرحاں
 
Top