کبھی جو دل میں کسک تھی، ہے حال ویسے ہی--- غزل اصلاح کے لئے

السلام علیکم
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش ہے۔
بحر مجتث مثمن مخبون محذوف
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*********** --------------------***********
کبھی جو دل میں کسک تھی، ہے حال ویسے ہی
گزر رہے ہیں غموں کے یہ سال ویسے ہی

تُو نوکِ خار نکالے ہے ہاتھ سے جیسے
ہمیں بھی دل سے تُو اپنے نکال ویسے ہی

اگر تُو شدّتِ ہجراں کا کرب سمجھے ہے
دے اک، شباہتِ غم کی مثال، ویسے ہی !

غمِ فِراقِ عدن سے، تھا چشمِ آدم کا
نکل کے بزم سے تیری، ہے حال ویسے ہی

گزر بھی جاؤں، حدِ صبر سے اگر، آگے
رہے گی دل میں چبھن اور سوال، ویسے ہی

تھی آیئنے میں نمایاں، جو بے بسی میری
جما ہے چہرے پہ اس کے، ملال ویسے ہی

نظر یوں اُس کی کرے تاجور، جسے چاہے
گدائے عشق میں ہے جو کمال، ویسے ہی

نگاہ تیری، نہیں مستِ رندباز سے کم!
میں کیا ہوں؟ جام ہوں خالی، اچھال ویسے ہی !

*******............********............********
 

الف عین

لائبریرین
بہت اچھی غزل تو نہیں، لیکن درست ہے۔ کچ مصرعوں میں بہتری آ سکتی ہے۔ بطور خاص ’ہے حال‘ میں ہ کی تکرار اچھی نہیں لگتی۔کہیں کہیں ردیف درست بندھی نہیں لگتی۔ جیسے

جما ہے چہرے پہ اس کے، ملال ویسے ہی
یہاں ویسا ہی کا محل تھا۔
 
بہت اچھی غزل تو نہیں، لیکن درست ہے۔ کچ مصرعوں میں بہتری آ سکتی ہے۔ بطور خاص ’ہے حال‘ میں ہ کی تکرار اچھی نہیں لگتی۔کہیں کہیں ردیف درست بندھی نہیں لگتی۔ جیسے

جما ہے چہرے پہ اس کے، ملال ویسے ہی
یہاں ویسا ہی کا محل تھا۔
بہت بہتر استاد محترم۔
نوازش۔ میں ان شا اللہ ردیف کی کمی کو دور کر لونگا۔
جزاک اللہ سر۔
 
احباب درستی کے بعد غزل حاضر ہے ... آپ کی آراء کا منتظر رہونگا
--------------------------------------------
کبھی جو دل میں کسک تھی، ہے حال ویسے ہی
جو غم کے سال تھے، گزرے یہ سال ویسے ہی

تو نوکِ خار نکالے ہے ہاتھ سے جیسے
دیا ہے دل سے ہمیں بھی نکال ویسے ہی

اگر تُو شدّتِ ہجراں کا کرب سمجھے ہے
دے اک، شباہتِ غم کی مثال، ویسے ہی !

غمِ فِراقِ عدن سے، تھا چشمِ آدم کا
نکل کے بزم سے تیری، ہے حال ویسے ہی

گزر بھی جاؤں، حدِ صبر سے اگر، آگے
رہے گی دل میں چبھن اور سوال، ویسے ہی

تھی آیئنے میں نمایاں، جو بے بسی میری
ہے اس کے چہرے پہ گرد ملال ویسے ہی

نظر یوں اُس کی کرے تاجور، جسے چاہے
گدائے عشق میں ہے جو کمال، ویسے ہی

نگاہ تیری، نہیں مستِ رندباز سے کم!
میں کیا ہوں؟ جام ہوں خالی، اچھال ویسے ہی !
سید کاشف
--------------------------------------------
 
Top