نوشین فاطمہ عبدالحق
محفلین
کبھی جو ہم فراغت میں کہیں بیٹھے اکیلے ہوں
مناظر سب حسیں ہوں اور کچھ نغمے سریلے ہوں
کوئی بلبل کسی شاخ شجر پر گنگناتا ہو
نہاتے پھول شبنم میں تر و تازہ سجیلے ہوں
ندی تصویر لے لے کر ہمیں دکھلائے جاتی ہو
ہوا کی جھولیوں میں جھومتے پودوں کے جھولے ہوں
درختوں کا ہو سایہ صرف سبزے کا بچھونا ہو
ہوا ہلکی , رواں دریا ہو اونچے پیڑ ٹیلے ہوں
نہ ہو کوئی پریشانی نہ یادیں ہوں کسی غم کی
بڑے ہی دور ہم سے سب یہ دنیا کے جھمیلے ہوں
فسانے چھیڑ ڈالیں گل ہمارے سامنے رنگیں
ادائیں دیکھ کر بے تاب دل کے تار ڈھیلے ہوں
ہوا نزدیک سے گزرے تو یوں محسوس ہو نوشی!
کہ گویا ہم کو چھونے کے بہانے ہوں یا حیلے ہوں۔
مناظر سب حسیں ہوں اور کچھ نغمے سریلے ہوں
کوئی بلبل کسی شاخ شجر پر گنگناتا ہو
نہاتے پھول شبنم میں تر و تازہ سجیلے ہوں
ندی تصویر لے لے کر ہمیں دکھلائے جاتی ہو
ہوا کی جھولیوں میں جھومتے پودوں کے جھولے ہوں
درختوں کا ہو سایہ صرف سبزے کا بچھونا ہو
ہوا ہلکی , رواں دریا ہو اونچے پیڑ ٹیلے ہوں
نہ ہو کوئی پریشانی نہ یادیں ہوں کسی غم کی
بڑے ہی دور ہم سے سب یہ دنیا کے جھمیلے ہوں
فسانے چھیڑ ڈالیں گل ہمارے سامنے رنگیں
ادائیں دیکھ کر بے تاب دل کے تار ڈھیلے ہوں
ہوا نزدیک سے گزرے تو یوں محسوس ہو نوشی!
کہ گویا ہم کو چھونے کے بہانے ہوں یا حیلے ہوں۔