قرۃالعین اعوان
لائبریرین
کبھی شعر و نغمہ بن کے ،کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کے
یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھے سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غم جاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیر فرق چھلکے
یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے
نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تیری بزم سے نکل کے
کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کردے
جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کے
یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھے سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غم جاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیر فرق چھلکے
یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے
نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تیری بزم سے نکل کے
کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کردے
جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے