ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک اور پرانی غزل احبابِ بزمِ سخن کے ذوق کی نذر! شاید ایک دو اشعار ڈھنگ کے ہوں اور آپ کو پسند آجائیں ۔ گر قبول افتد ۔۔۔۔۔
کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں
کاغذ مڑا ہوا ہے پرانی کتاب میں
خلقِ خدا میں ٹھہری وہی سب سے معتبر
لکھی نہ جا سکی جو کہانی کتاب میں
طاقت ہے کس قلم میں کہ لکھے حدیثِ عشق
ملتی ہے یہ کسی سے زبانی کتاب میں
اربابِ جہل کر نے لگے شرحِ حرفِ عشق
مت کیجئے تلاش معانی کتاب میں
منشورِ حق کے ہوتے مجھے کیا غرض بھلا
لکھا ہے کیا فلاں نے فلانی کتاب میں
کیسے اٹھے گی دستِ سہولت شعار سے
ناموسِ حرف کی ہے گرانی کتاب میں
کاغذ خراب حال ، عبارت اڑی ہوئی !
دیکھو مری شکستہ بیانی کتاب میں
فیضِ قلم سے آگئی مجھ کو بھی اب ظہیرؔ
اشکوں کی آبشار بنانی کتاب میں
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ 2012
کب سے لگی ہے اُس کی نشانی کتاب میں
کاغذ مڑا ہوا ہے پرانی کتاب میں
خلقِ خدا میں ٹھہری وہی سب سے معتبر
لکھی نہ جا سکی جو کہانی کتاب میں
طاقت ہے کس قلم میں کہ لکھے حدیثِ عشق
ملتی ہے یہ کسی سے زبانی کتاب میں
اربابِ جہل کر نے لگے شرحِ حرفِ عشق
مت کیجئے تلاش معانی کتاب میں
منشورِ حق کے ہوتے مجھے کیا غرض بھلا
لکھا ہے کیا فلاں نے فلانی کتاب میں
کیسے اٹھے گی دستِ سہولت شعار سے
ناموسِ حرف کی ہے گرانی کتاب میں
کاغذ خراب حال ، عبارت اڑی ہوئی !
دیکھو مری شکستہ بیانی کتاب میں
فیضِ قلم سے آگئی مجھ کو بھی اب ظہیرؔ
اشکوں کی آبشار بنانی کتاب میں
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ 2012