کاشفی
محفلین
غزل
(خانبہادر سید علی محمد شاد مرحوم عظیم آبادی)
کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی
کیا زندگی کی راہ میں کمبخت مر گئی
ناحق ہے دل کو صبح شبِ غم کا انتظار
تھوڑی سی اب ہے رات بہت کچھ گذر گئی
عمررواں کی تیز روی کا بیاں کیا
اک برق کوند کر ادھر آئی اُدھر گئی
اس سے تو تھا مرے لئے بہتر کہیں عدم
دو دن کی زندگی مجھے بدنام کر گئی
اے شاد کیا کہوں تری شیریں بیانیاں
جو بات تونے کی مرے دل میں اُتر گئی
(خانبہادر سید علی محمد شاد مرحوم عظیم آبادی)
کب سے پکارتا ہوں جوانی کدھر گئی
کیا زندگی کی راہ میں کمبخت مر گئی
ناحق ہے دل کو صبح شبِ غم کا انتظار
تھوڑی سی اب ہے رات بہت کچھ گذر گئی
عمررواں کی تیز روی کا بیاں کیا
اک برق کوند کر ادھر آئی اُدھر گئی
اس سے تو تھا مرے لئے بہتر کہیں عدم
دو دن کی زندگی مجھے بدنام کر گئی
اے شاد کیا کہوں تری شیریں بیانیاں
جو بات تونے کی مرے دل میں اُتر گئی