طارق شاہ
محفلین
غزل
کب گیا آپ سے دھوکہ دینا
سب کو اُمّید کا تحفہ دینا
چاند دینا، نہ سِتارہ دینا
شَبْ بَہرطَور ہی تِیرَہ دینا
سَبقَت اِفْلاس سے قائِم وہ نہیں
ہے اَہَم پیار سے پَیسہ دینا
در بَدر ہونا وہ کافی ہے ہَمَیں
اب کوئی اور نہ نقشہ دینا
ماسِوا یار کے، جانے نہ کوئی
دلِ بے خوف کو خدشہ دینا
کم خَلِش پیار میں ناکامی کی
پِھر زمانے کو بھی چہرہ دینا
ہے خیال اُن کا خَلِشؔ! عُمرْ میں اِِس
جَل بُجھے چوب کو شُعلہ دینا
کب گیا آپ سے دھوکہ دینا
سب کو اُمّید کا تحفہ دینا
چاند دینا، نہ سِتارہ دینا
شَبْ بَہرطَور ہی تِیرَہ دینا
سَبقَت اِفْلاس سے قائِم وہ نہیں
ہے اَہَم پیار سے پَیسہ دینا
در بَدر ہونا وہ کافی ہے ہَمَیں
اب کوئی اور نہ نقشہ دینا
ماسِوا یار کے، جانے نہ کوئی
دلِ بے خوف کو خدشہ دینا
کم خَلِش پیار میں ناکامی کی
پِھر زمانے کو بھی چہرہ دینا
ہے خیال اُن کا خَلِشؔ! عُمرْ میں اِِس
جَل بُجھے چوب کو شُعلہ دینا
شفیق خَلِشؔ