فیض کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں

عمراعظم

محفلین

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں
صد شُکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

مشکل ہیں اگر حالات وہاں،دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میں، کیا ایسے بھی حالات نہیں

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں ، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

گر بازی عشق کی بازی ہے،جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

(فیض احمد فیض)
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
درست غزل پوسٹ کر رہا ہوں۔
غزل
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں‌کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں یاں‌ نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
یہی غزل موسیقار خیام اور ان کی بیگم جگجیت کور کی آواز میں سنیے۔ مظفر علی (امراؤ جان ادا والے) کی فلم انجمن سے یہ غزل لی گئی ہے۔

 

یاز

محفلین
اعلیٰ غزل ہے، خصوصا" شعر نمبر تین اور پانچ تو ضرب الامثال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو آخری شعر کچھ یوں ہے شاید
یہ بازی عشق کی بازی ہے،جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں​
 
مطلع کمال ہے۔ یہ مضمون مجھے بہت پسند ہے۔
تری یاد ہے یا ہے تیرا تصور
کبھی داغ کو ہمنے تنہا نہ دیکھا


میدانِ وفا دربار نہیں ، یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں​
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں​
کیا کہنے
بندہِ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی
کہ در ایں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
 
Top